پاکستانی جمہوریت و حق خود ارادیت

پاکستان میں میں کچھ عرصہ پہلے انقلاب کی ایسی تیسی ہوتی رہی اور اب بیچاری جمہوریت صاحب عقل ودانش کے زیر عتاب ہے۔اور آج کل گلی محلے ،چوک چوراہے پر سب سے زیادہ زیر بحث موضوع یہی ہے ۔ پورے ملک میں عام لوگوں کی نظر میں صرف ووٹ ڈال لینے اور ان کی گنتی کے بعد جو لوگ حکومتی عہدیدار بنتے ہیں بس یہی جمہوریت ہے اور جوشخص جھوٹ فراڈ اور دسروں کو دغا دینے میں ماہر ہو وہ کامیاب سیاستدان کہلاتا ہے ۔ایسا کیوں ہوا ہے اس کی کئی وجوہات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ کسی بھی مملکت کے قیام کیساتھ ہی وہاں نئے آئین کی تشکیل و تمام اداروں میں بنیادی اصلاحات جیسے اہم ترین اقدامات اشد ضروری ہوتے ہیں لیکن پاکستان میں ایسا کچھ نہ ہو سکا بلکہ اس ریاست کے وجود میں آتے ہی وہ سب لوگ جو اس کے محرک تھے چلتے بنے اور طاقت ان قوتوں کے ہاتھ میں آئی جنکا جدوجہد پاکستان میں زرہ بھی حصہ ناں تھا ،اس کے بعد اقتدارو اختیار کی کشمکش انہی کے درمیاں رہی جب کہ اصل اغراض و مقاصد پس منظر میں چلے گئے یہی وجہ ہے کہ آج سڑسٹھ برس گزر جانے کے بعد جب زمانہ بدل چکادنیا کے رنگ روپ بدل گئے انسان نے بیحدترقی کر لی لیکن پاکستان کو جہاں پہنچنا تھاآج بھی اس سے کوسوں دور ہے ،اس کی ایک ہی وجہ ہے کہ ملک جس نظام کے تحت چل رہا ہے وہ عوامی مسائل حل کرنے اور دور حاضر کے چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کی سکت نہیں رکھتا۔

ماضی قریب میں اس فرسودہ و دقیانوسی نظام حکومت کے خلاف ایک تحریک نے جنم لیا اور دیکھتے ہی دیکھتے اس تحریک نے مختصر عرصے میں ایک طویل سفر طے کر لیا حتیٰ کے اب تجزیہ نگاریہ ثابت کرنے میں لگے ہیں کہ اس تحریک میں کس نے کیا کھویا کیا پایا ۔واقعی اس تحریک نے اس ملک کے کئی راز افشاء کر دئیے اور کئی پردہ نشینوں کو بے پردہ کیا۔اس تحریک نے ان کی قلعی کھول کہ رکھ دی جو جمہور کو زمانے کا بے وقوف سمجھتے اور جمہوریت کے نام سے عرصہ دراز سے دکان کھولے بیٹھے تھے اور جی بھر کے داد وتحسین سمیٹ چکے تھے آج وہ بھی زندگی کے دوراہے پہ کھڑے ہیں جہاں مورخ ان کے بارے میں اپنا فیصلہ محفوظ کر چکا ہے۔

قارئین کرام!اس تحریک نے جہاں لوگوں میں شہری حقوق وسیاسی آگہی کی نئی بنیادرکھ دی ہے وہاں وہ تمام کمیں گاہیں جہاں ملکی عوام کی جذبات و امنگوں کو لوٹ کر زخیرہ کر دیا جاتا تھا کی چولیں ہلا کہ رکھ دی ہیں کہ وہ تمام جمہوریت کے چمپئن و علمبردار بوکھلاہٹ میں آپے سے باہرہو رہے ہیں کہ ان کی زبان تک ان کا ساتھ دینے سے قاصر ہے ۔ایسا ہی ایک واقعہ گزشتہ دنوں پاکستان کی دونوں ایوانوں کے مشترکہ اجلاس کے دوران پیش آیا ، جس میں ماسوائے دو کے باقی تمام سیاسی پارٹیوں نے شرکت کی اور حکومت وقت سے اظہار یکجہتی کیا اور پارلیمنٹ سے خطاب کرتے ہوئے سینٹ میں قائد حزب اختلاف نے جمہوریت کی تعریف بیان کرتے ہوئے کہا !جناب اسپیکر ،یہ جو پارلیمنٹ کے باہر لشکری کھڑے ہیں ان کے مطالبات میں صداقت ہے ،اور ان کی ایک ایک بات تیر کی طرح دل میں چبھتی ہے ،یقینا یہ پورے دیس کے عوام کی آواز ہے،لیکن جناب وزیر اعظم ہم نے آپ کا ہاتھ تھام رکھا ہے آپ کی حکومت کو گرنے نہیں دیں گے ،ہم ’’جمہوریت‘‘ کے ساتھ کھڑے ہیں آپ کے ساتھ کھڑے ہیں۔۔۔ایک ہی سانس میں کچہ چٹھا کھول کہ رکھ دیا۔۔۔ باہر جو لوگ کھڑے ہیں ان کے مطالبات ملک کے طول و عرض میں بسنے والوں کی آواز ہے اور ساتھ ہی یہ بھی کہ ہم آپ کو گرنے نہیں دیں گے ہم ’’جمہوریت ‘‘ کے ساتھ ہیں ۔اور یہ ملک کے سب سے بڑے مقدس ادارے پارلیمنٹ کے فلور پہ کھڑے ہو کر وہ شخص کہہ رہا ہے جسے عدلیہ بحالی تحریک کے دوران دنیا کے چند بڑے دانشوروں میں سے ایک ہونے کا اعزاز حاصل ہوا تھا اور آج بھی اسے پاکستان کے صف اول کے جہاندیدہ و اہل علم و دانش میں سے ایک سمجھا جاتا ہے اور اگراس اعلیٰ ترین عوامی منصب پر براجمان شخص کی سوچ یہ ہے تو اس ایوان کے باقی ماندہ مکینوں کی سوچ کا کیا عالم ہوگا۔۔۔؟کہ آج بھی وہ اپنے دیس کے لوگوں کو مال مویشی سے زیادہ کا درجہ دینے کے لئے تیار نہیں تو یقینا دیس کے لوگوں کا مستقبل ایک سوالیہ نشان بن کر رہ جاتا ہے کیوں وہ بذات خود تسلیم کرتے ہوئے کہ عوامی امنگوں کی اصل ترجمانی پارلیمنٹ کے اندر نہیں بلکہ باہر ہو رہی ہے اس کے باوجود ان تمام کا یکجا ہونا محض یہی ثابت کرتا ہے کہ یہ جس جمہوریت کے دعٰویدار ہیں وہ در اصل انہی کے مفادات کا نام ہے اور اصل جمہور کی آواز نے جب ان کے مفادات کو للکارہ تو یہ سب یک زبان ہوگئے، اس لئے کہ اگر جمہور کے مطالبات کو مان لیا گیا تو ان کی سیاست باقی نہ رہے گی یہی وہ ’’مجبوری‘‘ ہے جس کا زکر محترم دانشور صاحب نے پارلیمنٹ کے فلور پر کیا تھا۔

جمہوریت و حق خودارادیت میں زیادہ فاصلہ نہیں ہے ۔۔۔جمہوریت وہ جہاں کے مکینوں کا سیاسی و معاشی نظام ان کی خواہشات کے مطابق ترتیب دیا گیاہو اورچل رہا ہو،اور حق خود ارادیت جمہور کی خواہشات و منشاء کا نام ہے ،جب کہ ملک پاکستان میں ’’اپنے جمہور‘‘ کی خواہشات کو پامال کرنا اورچند بااثر خاندان جو ملکی خزانے کو اپنی دادا وراثت سمجھتے ہوئے آپس میں تقسیم کرتے پھریں اور اسی عمل کی باری باری نگہداشت سرانجام دیں کو جمہوریت مانا جاتا ہے۔وگرنہ ’’ڈی چوک‘‘ کے مظائرین و قائدین جیسے سہی ۔۔۔ان کے چہرے مہرے پسند نہیں تو نہ سہی۔۔۔اگر ان کی آواز و فریاد ۔۔۔ان کے مطالبات مبنی برحق ہیں تو ان پر عملدرآمد کرنے میں کیا قباعت ہے۔۔۔؟یہ کیسی جمہوریت ہے ۔۔۔؟ملک اندھیروں میں ڈوبا ہے مگر یہ کالا باغ ڈیم پر کبھی ایک نہیں ہوئے ۔۔۔ تمام پارلیمنٹیرین کے بچے دیار غیر میں زیر تعلیم ہیں ملکی نظام تعلیم موت القریب ہے اسے درست کرنے کے لئے کبھی ایک نہیں ہوئے ۔۔۔تھانہ کلچر جس نے ملک کی جڑوں کو کھوکھلہ کر رکھا ہے اسے درست کرنے کو ایک نہیں ہوتے۔۔۔ملک کا نظام عدل جو ملک کی ۸۰فیصد غربت زدہ آبادی کی پہنچ سے میلوں دور ہے کو صیح کرنے کے لئے ایک نہیں ہوتے۔۔۔لیکن جب ان تمام اداروں میں بنیادی اصلاحات کے لئے زور دار مطالبہ کیا گیا تو وہ تمام قوتیں جو اس ’’اسٹیٹس کوہ‘‘ کا حصہ ہیں اسی پارلیمنٹ کے فلور پر کھڑے ہو کر ایک دوسرے کا سہارا بننے کے عہد و پہماں کرتی رہیں اور قوم کو یہ واضع پیغام دیا کہ ہم کچھ بھی کر لیں گے لیکن جو آپ مانگ رہے ہیں وہ ناں ملے گا کیوں کے ہم جمہوریت کی خاطر ایک ہوئے۔۔ ۔اگر یہاں جمہوریت کا یہ مفہوم ہے تو پھر ان لوگوں کا کیا جو چھ عشروں سے اپنے حق خود ارادیت کے حصول کے لئے پاکستان سے یہ امید لگائے بیٹھے ہیں کہ وہ قربانیوں کے اس سفر میں ان کا حامی ومدد گار ہو گا ۔۔۔؟ان کے لئے کچھ کر سکے گا لیکن ! حالیہ تحریک نے یہ واضع کر دیا ہے کہ کم از کم اس دور کی پاکستانی قیادت سے ایسی کوئی امید رکھنا ایسا ہی ہے جیسے کو ئی یہ کہے’’نازش بوبی‘‘ امید سے ہے اور بچہ ہی ہو گا ۔بہر حال پاکستان میں جاری موجودہ تحریک کی کامیابی کو اقتدار سے جوڑنا مناسب نہیں کیوں کہ آج اس تحریک نے پاکستان میں ایک نئی سوچ کو جنم دیا ایک نئے وژن کی بنیاد رکھی ہے ،جہاں کل تک بری افواج سمیت تمام ملکی اداروں کے طرز عمل پر تنقید کرنا کبیرہ گناہ تصور کیا جاتا تھا اور ہردوسر ے آدمی کی یہ سوچ تھی کہ سب غلط ہو رہا ہے لیکن ’’میں کیا کر سکتا ہوں ‘‘اس تحریک نے لوگوں کو یقین دلایا کہ آپ ان تمام اداروں پر تعمیری تنقید کا حق رکھتے ہیں اور یہ بھی بتایا کہ ان کے فرائض کیا ہیں اور ’’کر توت کیا ہیں ‘‘۔۔؟اور یہ بھی کہ ہر وہ آدمی جو کل تک سمجھتا تھا کہ وہ اکیلا کچھ نہیں کر سکتا ،آج وہ گھر سے نکلا ہے اور اس ’’اسٹیٹس کوہ ‘‘ سے ٹکرانے کے لئے تیار ہے ،اور یہی سوچ آج نہیں تو کل ،اس سال نہیں تو دس سال بعد یا بیس سال بعد اس ملک کا نظام بدل کے کر رکھ دے گی اوروہی اس تحریک کی کامیابی ہو گی اور اس تحریک کے تخلیق کار و محرک ہی اولوون و آخروون کہلائیں گے ۔

Niaz Kashmiri
About the Author: Niaz Kashmiri Read More Articles by Niaz Kashmiri: 98 Articles with 82141 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.