بسم اﷲ الرحمٰن الرحیم
برصغیر پاک وہند کی تاریخ میں جب بھی کہیں ’’ امن کی آشا ‘‘کو ’’چرچا
‘‘حاصل ہوا ہے توا س کے بعد وہاں امن کا تماشا اسی طرح لگا ہے جس طرح آج کل
وطن عزیز میں یہ آشا اپنے گل کھلا رہی ہے۔ تاریخ کے صفحات سے ظاہرہے کہ یہی
اسکی ہر دور میں ’’ آشا‘‘بھی رہی ہے۔ لہٰذابحیثیت مسلمان آپس کی لڑائی اور
خانہ جنگی کو طول دینے کی بجائے اس وقت ہمیں اس گوشۂ تاریخ سے بہت کچھ
سیکھنے کی ضرورت ہے ۔
امن کی آشا کو جس قدر عروج سولہویں صدی عیسوی میں حاصل ہوا اتنا کھبی نہیں
ہوا مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ یہی صدی برصغیر میں مسلم اقدار کے زوال کی بھی
صدی ہے ۔ بلاشبہ یہ وہ وقت تھا جب ہم بلاشرکت غیرے برصغیر کے طول وعرض کے
وارث تھے لیکن جب ہمارے حکمران مسلم نظریات کی پاسداری کی بجائے حرص
اقتدار، لذتِ جاہ و جلال میں ڈوب کرمحض اپنی شاہنشاہیت کو دوام بخشنے کی
خاطر اس ـآشا کی زلف گرہ گیر کے اسیر ہوگئے تو وہ وقت آنے میں دیر نہیں لگی
جب اسی طرح سرحدوں پر انگریز بیٹھا تھا اور ہم چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں بٹ
کر آپس میں لڑنے بھڑنے پر مجبور تھے اور ہمارے میر جعفر اور میر صادق ملک
اور ملت کی بنیادیں کھود کر ’’ بیرونی آقاؤں‘‘ کا راستہ ہموار کررہے تھے ۔
تنزل اور بالآخر غلامی کے اس سفر کی ابتداء کا باعث ’’امن کی آشا‘‘ کا اصل
چہرہ کیا ہے ؟ ۔ موجودہ دور میں اس کی صحیح ترین عکاسی دہلی میں مقیم معروف
بھارتی صحافی ڈاکٹر وید پرتاپ ویدک کاوہ کالم ہے جو انہوں نے پاکستان میں ن
لیگ کی حالیہ حکومت کے قیام کے وقت ’’ نواز شریف کے لیے تاریخ بنانے کا
سنہری موقع ‘‘کے عنوان سے لکھا ۔
’’ میری رائے میں میاں نواز شریف کی فتح پاکستان ہی نہیں پورے جنوبی ایشیاء
کے لیے مبارک ثابت ہوگی ۔ اگر 1999ء میں فوج ان کی حکومت کا تختہ نہ
اُلٹاتی تو اب تک ہندوستان اور پاکستان باہمی رشتوں کے بہت اونچے مقام پر
پہنچ چکے ہوتے ۔‘‘ (روایتی چاپلوسی اور خوشامد کے بعد گمراہی کی کھُلی
دعوت) ’’یہ کہنے کی ضرورت نہیں ہے کہ 14برس کا بنواس ( اقتدار سے دوری )
کاٹنے کے بعد میاں صاحب اپنی غلطیوں کو نہیں دھرائیں گے ۔ ( غلطیوں کی
نشاندہی کرنیکے بعدجن میں ایک یہ بھی کہ انہوں نے طالبان کو سر
چڑھایا۔لکھتے ہیں ) ظاہر ہے اس بار وہ توازن برقرار رکھیں گے ، وہ اپنا
ادھورا کام پورا کریں گے(پھر بڑی طمع اور لالچ) اور کچھ ایسا کر دکھائیں گے
کہ ان کا نام جناح اور نہرو سے بھی بڑا ہوجائے ۔ (پھر اپنے اصل مکروہ
مدعاکی طرف آتے ہوئے)میاں نواز کے والد صاحب مجھ سے اکثر پوچھا کرتے تھے کہ
ایسا کیسے ہوسکتا ہے ؟ ۔ اس کا جواب یہی تھا کہ ہند ، پاک فیڈریشن بن جائے
اور اس دوقومی یونین ریاست کے صدر میاں نواز شریف منتخب ہوں اور پھر اراکان
(برما) سے خراسان (ایران ) تک ایک اکھنڈ آریانا بنایا جائے جو یورپی یونین
سے بھی بہتر ہو ۔(پھر اس مکروہ آشا کو خوشنما بناتے ہوئے ) ہمارے اس بڑے
خواب کی شروعات ہندوستان کا کوئی لیڈر نہیں کرسکتا اسے تو پاکستان کا ہی
کوئی لیڈر کرسکتا ہے کیونکہ پاکستان جنوبی ایشیاء کے بیچوں بیچ موجود ہے۔
اگر وہ اپنا راستہ کھول دے تو جنوبی ایشیا ء کے درجن بھر ممالک کے راستے
ایک دوسرے لیے اپنے آپ کھل جائیں گے ۔(آخر میں ایک اور ابلیسی جال پھینکتے
ہوئے ) دیکھنا یہ ہے کہ میاں نواز شریف محض وزیر اعظم کے عہدہ سے مطمئن ہو
جاتے ہیں یا تاریخ کی دیوار پر کوئی لمبی لکیر کھینچتے ہیں ؟ ‘‘۔
یہ ہے ’’ امن کی آشا ‘‘ کا وہ مکروہ چہرہ جس کے پیچھے ہمیشہ ایک پُر فریب
اور مکروہ سوچ پوشیدہ رہی ہے اور وہ ہے ’’ اکھنڈ آریانا‘‘Myth۔ جس کے لیے
امن کی آشا کو انتہائی خوشنما بنا کر پیش کیا جاتا ہے اور اس کے بعد کیا
ہوتاہے تاریخ بتاتی ہے کہ مغل بادشاہ جلال الدین اکبرمحض ایک مسلم حکمران
کے طور پر ’’ مطئمن ‘‘ نہیں ہوگئے بلکہ ویدک پرتاپ جیسے خوشامدی درباریوں
کی باتوں میں آکر تاریخ میں اپنا نام اونچا دیکھنے ، اپنی سلطنت و حکومت کو
دوام بخشنے کی خاطر بالآخر’’ دین اکبری‘‘ اور’’ آئین اکبری‘‘ کی صورت میں
ایک ’’ لمبی لکیر کھینچ ڈالی ‘‘۔اور ہندو مسلم ’’ باہمی رشتوں ‘‘ کو ’’
اونچے مقام ‘‘ تک پہنچانے کے لیے ہمارے حکمرانوں اور دانشوروں کی طرح ’’
امن کی آشا‘‘ کی محض آشا ہی نہیں کی بلکہ باقاعدہ ’’ رشتہ داری ‘‘ کی صورت
میں کئی ’’ آشاؤں ‘‘ کو اپنے اور کئی دوسرے مغل شہزادوں کے خلوت کدوں میں
’’ امن ‘‘ بکھیرنے کا موقع بھی دیا ۔اور۔ ہمارے حکمرانوں کی طرح ’’ موسٹ
فیورٹ ‘‘ کاعندیہ ہی نہیں دیا بلکہ باقاعدہ طور پر ہندو تہذیب کو ــ’’
فیورٹ ہونے ‘‘ کے لیے مسلم اقدار و نظریات کی تمام تر دیواریں خود گرادیں ۔
جواب میں ہندو سوسائٹی میں انہیں ’’ شہنشاہ اکبر ‘‘ کا لقب حاصل ہوا اور
ہندو درباریوں اور آشا کے پجاریوں نے سجدہ تعظیمی بھی بجا لایا مگر ۔۔۔
تاریخ کی دیوار پر یہ سب کچھ صرف لمحوں کے لیے’’ لکیریں ‘‘ثابت ہوئیں وہ
بھی ایسے لمحات کے طور پرجن کی سزا صدیوں نے پائی ۔ بہت جلد یہ لکیریں
ہندوستان کی تاریخ میں بد نما سیادہ داغ میں بدل گئیں ۔قدرت نے اسلام سے
غداری کا انتقام اس طور پر لیا کہ نہ مغل سلطنت رہی ، نہ دائمی شہنشاہیت کا
خواب، نہ سجدہ تعظیمی ،نہ امن اور نہ آشا ،کچھ بھی نہ رہا ۔ مگر اسلام پھر
بھی زندہ رہا ۔اور مجدد الف ثانیؒ کی صورت میں اﷲ نے اسلام کا محافظ بھیج
دیا ۔
ہندو مسلم اتحاد کا شوقِ ناہنجارتھا یا ’’ امن کی آشا‘‘ کا جنون جس نے
مرحوم کشمیری نیشنلسٹ لیڈر شیخ عبداﷲ کو انڈین کنفیڈریشن کا مکروہ منصوبہ
لے کر صدر جنرل ایوب خان کے دور میں پاکستان کا دورہ کرنے پر مجبور کیا ۔
مرحوم ہمارے سیاستدانوں اور آشا کے ’’پروانوں‘‘ سے بھی دوقدم آگے بڑھ کر
فرمایا کرتے کہ ’’ میرا دل ہندوستانی تہذیب میں اٹکا ہواہے ‘‘۔ بلآخر اس کا
انجام انہوں نے اپنی زندگی میں ہی کشمیریوں کے سفاکانہ قتل عام اوراذیت ناک
غلامی کی صورت میں اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا اور آج وہاں بھارت دیوار برہمن
تعمیر کررہا ہے۔ اقبال ؔ نے کیا خوب کہا تھا ۔
عشق و مستی کا جنازہ ہے تخیل ان کا
ان کے اندیشہ ٔ تاریک میں قوموں کے مزار
موت کی نقش گری ان کے صنم خانوں میں
زندگی سے ہنر ان برہمنوں کا بیزار
اگر امن کی آشا میں خیر کا کوئی پہلو موجود ہوتا اور اس کے ( ڈاکٹر ویدک
جیسے) ’’ پرچاریوں ‘‘ کے دعوؤں میں کوئی سچائی ہوتی تو مولانا ابوالکلام
آزاد کو جو مقام متحدہ ہندوستان کی حمایت پر حاصل ہونا چاہے تھا نہرو یا
گاندھی کو وہ مقام حاصل نہ ہوتا مگر خوشنما دعوؤں کے برعکس اقلیتی راہنماؤں
کے عہدے محض ایک دکھاوا یا ڈھونگ سے زیادہ ثابت نہ ہوئے ۔ بقول پروفیسر
ہیری اینڈرسن اصل حقائق یہ تھے کہ جب حیدر آبادمیں چالیس ھزار مسلمانوں کو
بے دردی سے قتل کردیا گیا تو مولانا نے نہرو سے تحقیقات کی سفارش کی مگر اس
کے باوجود رپورٹ تو سامنے نہ آسکی جبکہ اس کے بعد بھی انڈین فوج اور پولیس
کی نگرانی میں بے گناہ مسلمانوں کے خون سے ہولی کا کھیل جاری رہا اور آج تک
بستیوں کی بستیاں جلاکر مسلم ورثہ اور جائیداد و املاک پر قبضہ جمانے اور
جبراً ہندو بنانے کا سلسلہ نہ صرف جاری و ساری ہے بلکہ اب تو باقاعدہ
مسلمانوں کا خون سیاست میں کامیابی کی ضمانت بن چکا ہے ، موجودہ مودی حکومت
جس کی سب سے بڑی مثال ہے ۔
تاریخ کی دیوار پر کھینچی گئی یہ’’ لمبی لکیریں‘‘ اس لائق تھیں کہ ہمارے ’’
مقتدر حلقے ‘‘ اور دانشور ان سے سبق حاصل کرتے ۔ جو چیخ چیخ کر بیان کر رہی
ہیں کہ قومیں صرف اس وقت تک ہی زندہ رہ سکتی ہیں جب تک ان کی اصل تہذیب اور
نظریات زندہ رہتے ہیں جبکہ’’امن کی آشا ‘‘جیسے خالص دجالی ہتھکنڈے غیر ہندو
قوموں کی تہذیب اور نظریات کے لیے ہمیشہ زہر قاتل ثابت ہوئے ہیں ۔تاریخ کے
سینے پر نقش یہ لکیریں ظاہر کرتی ہیں کہ جس قوم نے بھی ایک بار یہ تریاق
پیا ہے بحیثیت قوم اس کی تہذیب اور نظریات کی عمارت اپنی بنیادوں پرزیادہ
کھڑی نہ رہ سکی اور کچھ ہی عرصہ بعد اس کے کھنڈرات پر ’’ اکھنڈ آریانا‘‘
جیسے مکروہ محل تعمیر کرنے کے خواب سجائے گئے ۔جیسا کہ خود پروفیسر بلراج
مدھوک کا1990ء میں ہندوستان سے شائع مضمون میں اظہارہے ’’ نہ یونانی رہے ،
نہ ہن رہے ،نہ بدھ رہے اور نہ مسلمانوں کو مسلمانوں کی طرح رہنے کا حق دیا
جارہا تھا ‘‘
یہ تمام قومیں اپنے اپنے وقت میں ہندوستان کی تقدیر پر غالب رہیں اورتاریخ
گواہ ہے کہ انہیں بذریعہ جنگ زیر نہیں کیا جاسکااور نہ ہی جوہڑ نما ’’ بھرت
وادی ‘‘کوگنگا اور جمنا سے باہر کا تصور شمشیر زنی جیسے بہادرانہ جوہر کی
بدولت حاصل ہوا بلکہ یہ’’ امن کی آشا‘‘ جیسے بزدلانہ اورابلیسی حربے تھے جن
کی کوکھ سے اکھنڈ آریانا کی مکروہ متھ نے جنم لیا اوراسی آشاکے پُرفریب اور
خوشنما جال میں پھنس کرمذکورہ بالا اقوام اکھنڈ آریانا کی مکروہ سوچ کو
پروان چڑھانے کا باعث ثابت ہوئیں۔ یہ تاریخ کا عظیم سبق ہے جسے ہمیشہ بھلا
دیا جاتا ہے کہ ایک ایسے وقت میں جب ہندو تہذیب دنیا سے تقریباً مٹ چکی تھی
۔ گندھارا تہذیب کے زیر اثربدھ مت برصغیر میں پھیل چکا تھا ۔ بمطابق خود
ہندو تاریخ ’’ ہندو دھرم کی کتابوں کو پاؤں تلے روندا جارہا تھا اور
برہمنوں کا کوئی بس نہیں چل رہا تھا‘‘۔ تب۔۔ دنیا جانتی ہے کہ یہ ’’ امن کی
آشا‘‘ ہی تھی جس کو آخری حل کے طور پر برہمنوں نے آزمایا۔چنانچہ گندھارا
تہذیب سمیت بدھ مت کا نشان تک مٹ گیا اورنتیجہ میں دنیا سے تقریباً مٹتی
ہوئی دجالی ہندو تہذیب کو دوبارہ پنپنے کا موقع مل گیا اور اس کے ساتھ ہی
دنیا میں اس عظیم فتنہ (اکھنڈMyth)نے جنم لیا جس نے آگے چل کر ان تمام
قوموں اور انہی جیسی بے شمار اقوام کہ جن کا نام بھی تاریخ میں باقی نہ رہا
اس ہندو آفریت کا تر نوالہ بنا ڈالا ۔
اسلام کی آمد کے بعد یہ اقوام کش ہندوآسیب پژمردہ حالت میں کہیں پس پردہ
چلا گیااور جب تک برصغیر کی مسلم قومیت اپنی اصل بنیادوں پر ثابت قدم رہی
اس خطہ میں مسلم نظریات و اثرات کی چھاپ گہری ہوتی چلی گئی ۔یہاں تک کہ ایک
وقت میں اس مکروہ متھ کاصفحۂ ہستی سے مکمل خاتمہ ممکن ہوچکا تھا ۔ یہ وہ
وقت تھا کہ اس کو دوبارہ اُبھرنے کا موقع نہ دیا جاتا تو آج برصغیر کی
بیشتر اقوام اپنی تاریخ ،تہذیب اور پہچان کے ساتھ زندہ ہوتیں اور کشمیر ،
آسام ، حیدرآباد، جوناگڑھ ، منادرسمیت بیشتر ریاستوں میں انسانیت ہندو
اجارہ داری کے زیر اثر غلامی کی طرز زندگی میں سسک سسک کر دم نہ توڑ رہی
ہوتی ، اقلیتوں کو زندہ نہ جلایا جاتا ۔ مگرمسلم حکمرانوں کی حد سے بڑھی
ہوئی حرص اقتدارنے سولہویں صدی عیسوی میں ایک بار پھر اس منحوس و آدم
بیزارابلیسی تصور کو ’’ امن کی آشا ‘‘ کی آڑ میں سر اُبھارنے کا موقع فراہم
کردیا ۔ چنانچہ اکھنڈ بھارت کا یہ مردہ عفریت تہذیب کی’’ اکبری قبا‘‘ اوڑھ
کرنہ صرف دوبارہ اُٹھ کھڑ ا ہوا بلکہ ’’آئین اکبر ی ’’ کے تحت اسے زندہ
ہونے کا مضبوط جواز بھی فراہم کردیا گیا جب قوموں کی تاریخ اور نسب بدل
کردانستہ تاریخ میں اسکی مضبوط جڑیں قائم کردی گئیں اور ستم یہ کہ انسانی
تاریخ کا یہ سب سے بڑا فراڈ جو کہ پوری انسانیت کے ساتھ سنگین مذاق سے کسی
بھی صورت کم نہ تھا ’’ امن کی آشا ‘‘ کے نام پر کیا گیا۔ اس طرح یہ آشا
برصغیر کی بیشتر اقوام کی موت کا پروانہ بن گئی اور اکھنڈ آریانا کا وہ
ابلیسی منصوبہ جو اب تک محض ایک من گھڑت ، بے بنیاد اور خیالی مفروضہ تھا ۔
مسلمانوں کی ان سنگین غلطیوں کی بناء پردنیا نے اس کو سچ مان لیا۔ یہاں تک
کہ اسلام مخالف جذبات سے مغلوب انگریز سرکار کی پشت پناہی میں یہ دجالی
عفریت پہلی بار انڈین فیڈریشن کے نام سے گول میز کانفرنسز ( 1930ء تا
1933ء) میں زیر بحث آچکا ۔یہ واضح طور پر ’ اکھنڈ بھارت ‘‘ کے ابلیسی
منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے مترادف تھااور یہی وہ وقت تھا جب اقوام
برصغیر کے سامنے صرف دو راستے تھے کہ یا تو وہ اس متھ کا مقابلہ کرکے اپنی
تہذیب اور تاریخ کے ساتھ زندہ رہ لیں یا پھرسب کچھ ’’ امن کی آشا ‘‘کی
بھنیٹ چڑھا کر اکھنڈ بھارت کی بنیادوں میں دفن ہوجائیں کہ جسطرح ان سے پہلی
قوموں نے اپنا نشان کھو دیا ۔
چنانچہ تاریخ کی یہی وہ اہم ترین پکار تھی جس پر لبیک کہتے ہوئے چوہدری
رحمت علی ؒ نے گول میز کانفرنسز کے دوران ہی Now or Neverکی صدا بلند کی ۔
At this solemn hour in the history of India, when British and Indian
delegates are laying the foundations of a Federal Constitution for that
Sub-continent, we address this appeal to you, in the name of our common
heritage, and on behalf of our thirty million Muslim brethren who live
in Pakistan
اور انڈین فیڈریشن کو تسلیم کرنے کے حوالے سے تاریخ کی یہ وارننگ ببانگ دہل
سنائی ۔
This acceptance amounts to nothing less then signing the death-warrant
of Islam and of Muslims in India.
وہ پاکستان جس کی بنیادوں میں مجدد الف ثانی ؒ کی عظیم تر قربانیاں شامل
ہیں جو انہوں نے ’’ اکبری قبا‘‘ میں چھپی انڈین ازم کی تہذیبی یلغار کا
مقابلہ کرکے مسلمانوں کے علٰیحدہ قومی تشخص کو بچانے کے لیے دیں ، علامہ
اقبال ؔ نے اس تشخص کو قائم رکھنے کے لیے جس کا خواب دیکھا ، چوہدری رحمت
علیؒ نے بروقت انڈین فیڈریشن ( اکھنڈ بھارت ) کا مکروہ منصوبہ خاک میں
ملاتے ہوئے جس کا نام اور نقشہ دنیا کے سامنے کے پیش کردیا اورقائداعظم ؒ
کی قیادت میں لاکھوں مسلمانوں کی بے مثال قربانیوں کے بعد بالآخر پایۂ
تکمیل کو پہنچا ، خطہ سے اکھنڈ Mythکی غاصبانہ اور مہلک سوچ کوجڑ سے اُکھاڑ
کر جنوبی ایشیاء کی تمام اقوام کو اس متھ کے استحصالی شکنجہ سے نجات دلانا
فطرت کو مقصود تھا ۔ فطرت کا یہی تقاضا دین فطرت اسلام میں غزوہ ہند کی
صورت میں بیان ہوا ۔اسلام امن اور سلامتی کا دین ہے اور پیغمبر اسلام ﷺتمام
انسانوں کے لیے سراپاء رحمت۔ممکن نہیں کہ کوئی قوم یا گروہ ٔ انسانی اس قدر
شدت سے دین فطرت کا ہدف ٹھہرے البتہ یہ نظریات اور عقائد ہی ہوتے ہیں جو
کسی بھی قوم کو غلط یا صحیح بناتے ہیں ۔ چنانچہ یقینی طور پر غزوۂ ہند کی
غیر معمولی اہمیت کی اصل وجہ یہی انڈین ازم ( اکھنڈ بھارت) متھ ہوسکتی ہے
جو دراصل جنوبی ایشیا ء میں اقوام اور انسانیت کے لیے سب سے بڑادجالی فتنہ
ہے ۔ جو قوموں کی موت اور انسانیت کی قاتل ہے ۔ چاہے یہ مخالف قوموں کا
پانی روک کر انہیں معاشی ، اقتصادی اور زرعی لحاظ سے مفلوج بنانے کی صورت
میں ہو ،قوموں کے سیاسی ، سماجی اور معاشرتی قتل عام یا ان کی تاریخ ،
تہذیب اور ثقافت پر ڈاکہ ڈال کر ، مختلف دجالی ہتھکنڈوں اور حیلے بہانوں سے
یا جبراً ہندو بنانے کی صورت میں ،اس سب کے پیچھے دراصل یہی اکھنڈآریاناکی
مکروہ سوچ کارفرما ہے ۔ لہٰذا اس مہلک عقیدے کو مٹانے میں ہی دراصل خطہ میں
حقیقی امن کا راز پنہاں ہے ۔ یہی فطرت کا تقاضا ہے اورقیام پاکستان کا قدرت
کو مطلوب مقصد بھی ۔جو تاریخ کا مسلمانوں پرقرض بھی ہے اورانسانیت کے ناطے
خطہ کی دیگر اقوام کی جانب سے فرض بھی ، جومحض مسلمانوں کی غفلت اور کوتاہ
اندیشی کی وجہ سے پلنے بڑھنے والے انڈین ازم کے بد مست ہاتھی کے پاؤں تلے
روندی جارہی ہیں ۔چاہے یہ تاریخ کی اس اہم ترین وارننگ سے ناواقف تھیں جیسے
عیسائی ، سکھ، دراوڑ، اچھوت ، بدھ ، پارسی یا جنہیں زرہ دیرسے فطرت کی آواز
پر لبیک کہنا پڑا جس طرح کشمیری ، سکھ، اسامی، تامل وغیر سب کے لیے پاکستان
ہی دراصل اُمید کی آخری کرن تھا اور یہ تب ہی ممکن تھا جب اجتماعی نجات کے
اس فطری پیغام کی تجدید کے لیے آج خطہ کی مسلم اکثریت ( بنگلہ دیش ،
افغانستان ، کشمیر ) پاکستان کی قیادت میں باہم متحد و منظم قوت ہوتی۔
’’اگر ہم سب مل کر اس متھ( اکھنڈ بھارت کے من گھڑت قصے ) کا مقابلہ کریں
اور اس کو کاری ضرب لگائیں تو اس کا خاتمہ ایسا ہوگا کہ جس کی یہ مستحق ہے
اور ہم سب کے سب آزاد ہوجائیں گے ۔ لیکن اگر ہم نے لیت و لعل کرتے ہوئے یہ
سنہری موقع ضائع کردیا تو انڈو برٹش کا اس بارے میں دوستانہ اشتراک
Ententeاسے اپنے پورے تشدد کے ساتھ ہم پر دوبارہ مسلط کردے گا ۔ اس صورت
میں ہم ہر چیز کھودیں گے اور ہم سب انڈین قوم کے غلام ہونگے ۔ شاید صدیوں
کے لیے ۔ ممکن ہے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ۔( چوہدری رحمت علی ؒ1945ء )‘‘
آج امریکہ ، برطانیہ اور دیگر اسلام دشمن قوتیں اسی قدر پورے تشددکے ساتھ
ہندو اجارہ داری کوپورے خطے پر مسلط کرنے کے درپے ہیں اوراس ضمن میں ’’
انڈو برٹش ‘‘ Ententeکسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں رہی جس کا واضح طور پر مقصد
خطہ میں اسلامی نظریاتی قوتوں کو ازسرنو اُبھرنے کا موقع نہ دینا صاف
ظاہرہوچکا ہے ۔ جبکہ ہندو اکھنڈ آریانا کے مکروہ مفروضہ کو یورپی یونین کی
طرح خوشنما بنا کر کیوں پیش کررہے ہیں ؟۔حقیقت آج بھی وہی ہے جو 1947ء سے
قبل تھی ۔
’’ہندوجاتی کے افراد۔۔ ، ایسا اس لیے کررہے ہیں چونکہ ان کو اس متھ کے قائم
و دائم رہنے سے موقع ملتا ہے : اول ، یہ کہ ہمیں وہ اپنے اندر گھلاملا
کررکھیں ، اس کے بعد یہ کہ وہ ہمیں قوموں میں تتر بتر کردیں ، اور آخر میں
یہ کہ وہ ہمیں اپنی انڈین (ہندی ) قومیت میں جذب کرلیں‘‘۔ (چوہدری رحمت علی
ؒ۔15مئی1945ء)
سولہویں صدی عیسوی میں ہم ’’ گھلنے ملنے ‘‘ کے جس تلخ تجربہ سے گزر کر کے
اپنی اقدار اور میراث کھوچکے اور اپنی ان نادانیوں کے باوصف اکھنڈ بھارت کے
گڑھے مرُدے کواُکھاڑ بیٹھے کہ جس نے اپنی دجالی تہذیب کی قبر سے سر نکالتے
ہی ایک ناسور کی شکل اختیار کرکے پورے خطے کی آزادی کو سلب کرلیا ۔ آج ایک
بار پھرہم اسی تلخ تجربہ کو ’’ امن کی آشا ‘‘ کے نام پر دوہرا رہے ہیں ۔
موسٹ فیورٹ کا عندیہ پیش کرکے اکھنڈ بھارتی متھ کو مزید پروان چڑھا رہے ہیں
۔ دجالی تہذیب اور کلچر کو مسلط کرکے مسلم تشخص ، تہذیب و روایات کو مسخ
کیا جارہا ہے ۔ ایک طرف مفاد پرست عناصر اور دین بیزار سیکولر طبقہ انڈیا
سے دوستی اور تجارت کی پینگیں بڑھانے کے لیے بیتاب ہے اور دوسری طرف ہمارے
ارباب اختیار ، سیاست دان اور دانشور دو بالکل مختلف اور متضاد تہذیبوں میں
کوئی فرق نہیں سمجھتے بلکہ ان کے نزدیک صرف سرحد ہی فرق ہے ۔
بحیثیت مسلم اپنے اعلیٰ ترین نصب العین اور عظیم ترین مقصد جس کے لیے فطرت
نے ہمارا انتخاب کیا تھاکوپس پشت ڈالتے ہوئے امن کی آشا ‘‘ کی ان بھول
بھلیوں میں بھٹکنے کا منطقی نتیجہ بھی لازمی طور پر وہی نکلنا تھا جو
سولہویں صدی عیسوی کے بعد ہم بھگت چکے ہیں یعنی ایک اُمت ِ واحدہ کاہمہ گیر
تصور رکھنے کے باوجو دایک بار پھر مختلف ، نسلی، لسانی ، علاقائی گروہوں ،
فرقوں اور قبائل میں ’’ تتربتر‘‘ ہوکر آپس میں لڑنے بھڑنے پر مجبور ہیں
۔انگریز دوبارہ سرحدوں پر بیٹھا ہماری نظریاتی اور اساسی قوت کو کچلنے کے
درپے ہے اور دوسری طرف ویدک پرتاپ جیسے ہندومتعصب ذہن ہماری ان نادانیوں کی
بناء پر ’’ اراکان (برما) سے خراسان (ایران ) تک اکھنڈ آریانا ‘‘کے خواب
دیکھ رہے ہیں ۔
تاریخ کی یہ سخت ترین وارننگ متقاضی ہے کہ ہم آج بھی اپنے اولین نصب العین
کی طرف لوٹ آئیں اور بحیثیت مسلمان اس عظیم تر مقصد کو پہچان لیں جو خطہ
میں ہماری علاقائی اور ملی ذمہ داریوں کا امین بھی ہے تودور نہیں کہ قدرت
ہمیں ایک بار پھر بحیثیت پاکستانی ، افغانی ، بنگلادیشی ،کشمیر ی ، سنی ،
دیوبندی ، وہابی متحد و منظم کردے اور ہم ایک بار پھر مسلمہ قوت بن کر خطہ
کی دیگر اقوام کے لیے بھی نجات دہندہ بن جائیں۔جلد یا بادیر مسلم اتحاد پر
مشتمل کنفیڈریشن ہی خطہ میں طاقت کے تواز ن، مسائل کے حل اور حقیقی امن کے
قیام کا فطری حل ہے ۔ بصورت دیگر اگرہم نے آج بھی اپنی ملی ، علاقائی اور
فطری ذمہ داریوں کا احساس نہیں کیا تو شاید تاریخ ہمیں کبھی معاف نہ کرے
اور فطرت اپنا بدترین انتقام اس طور پر لے کہ سولہویں صدی کے بعد اتنا
نقصان نہ ہوا ہو جتنا ہماری قوت کا شیرازہ بکھرنے سے اب ہوسکتا ہے ۔ |