بارش تحفہ خداوندی ہے ۔ بارش انسان کے لیے اﷲ کی طرف سے
ایک رحمت ہے مگر جب یہ حد سے زیادہ برسنے لگے تو پھر یہ رحمت کی بجائے زحمت
بن جاتی ہے۔حالیہ بارشوں نے پورے پاکستان کو تو نہیں مگر پنجاب اورکے پی کے
میں کافی نقصان کیا ہے۔حکومت کا کہنا ہے کہ یہ بارشیں اچانک ہوئی ہیں جس کی
وجہ سے پہلے سے بندوبست نہ کرسکے مگر اسکے باوجود حالات کنٹرول میں ہیں۔
کوئی ان حکومتی بھولے بادشاہوں کو بتائے کہ ادھر تو لوگوں کے مکان زمین بوس
ہورہے ہیں۔کئی قیمتی جانیں چلی گئیں ہیں۔زمینداروں کی فصلیں تباہ ہو چکی
ہیں۔ گلیاں اور سڑکیں ہر طرف تالاب کا منظر پیش کررہی ہیں اورہمارے حکمران
کہہ رہے ہیں حالات کنٹرول میں ہیں۔ درد اس کو ہوتا ہے جس کو چوٹ لگتی ہے ۔دنیا
دکھاوا تو بہت سے لوگ کرتے ہیں۔ فوٹو سیشن کے لیے مختلف ڈرامے رچائے جاتے
ہیں مگرکیا آپ جن کی فوتگی ہوئی ہے ان کا مداوا کرسکتے ہو؟ مرنے والے کو
پیسوں میں نہیں تولا جاتا۔آپ جن کی فصلیں تباہ ہوئی ہیں،مکان گرے ہیں ان کو
پیسے دیکر ان کا مداوا کرسکتے ہومگر جانی نقصان کا کوئی مداوا نہیں کرسکتا۔
برسات نے جو حالات پیداکیے وہ ہم جانتے ہیں ۔ اس بارش نے دیگر صوبوں کے
علاوہ پنجاب کا کوئی شہریا گاؤں نہیں بخشا جس میں اس نے تباہی نہ مچائی
ہواور ہر علاقے کی ایک سی صورتحال ہے۔ اﷲ کے کاموں میں انسان تو مداخلت
نہیں کرسکتا مگر دعا ضرورکرسکتا ہے۔ اسی لیے اکثرگاؤں اور شہروں میں لوگوں
نے گھر وں اور مساجدمیں بارش کے رکنے کے لیے اذانیں دیں۔
ابھی ہمارا پاکستان ان بارشوں سے سنبھلنے کی کوشش کررہا تھا کہ ہمارے جانی
دشمن اورحکمرانوں کے دوست نے اپنی دوستی نبھاتے ہوئے دریاؤں میں پانی
چھوڑدیا۔ دوستی بھی ایسی نبھائی کہ اطلاع دینا بھی گوارا نہ کیاجبکہ بھارت
سندھ طاس معاہدے کے مطابق سیلابی کیفیت پیدا ہونے پر پانی کے پاکستان داخل
ہونے سے کم از کم ایک ہفتہ قبل اطلاع دینے کا پابند ہے مگر 1960ء میں ہونے
والے معاہدے سے لے کر آج تک بھارت نے سیلابی پانی کی پاکستان کو بروقت
اطلاع نہیں دی۔ پھر اس سیلاب نے جو تباہی مچائی تاریخ گواہ اس سے پہلے اتنا
بڑا سیلاب کبھی نہیں آیا۔ اب تو ہمارے حکمران بھی برملا کہتے نظر آرہے ہیں
کہ یہ پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا سیلاب ہے۔
یہ بات انتہائی اہم ہے کہ گزشتہ چار برسوں سے پاکستان میں مون سون بارشوں
کی وجہ سے ہر سال سیلابی صورت حال دیکھنے میں آ رہی ہے۔ گزشتہ برس بھی
پاکستان میں شدید بارشوں اور سیلاب کی وجہ سے 178 افراد ہلاک اور پندرہ
لاکھ متاثر ہوئے تھے۔اس سال بھی اس وقت سیلاب پنجاب میں تباہی مچاتا ہوا
سندھ کی طرف جارہا ہے۔دریائے چناب میں آنے والا بڑا سیلابی ریلا اس وقت
صوبہ پنجاب کے وسطی علاقوں سے گزرتے ہوئے جنوبی علاقوں کی جانب بڑھ رہا
ہے۔ضلع حافظ آباد، چنیوٹ اور جھنگ کے دیہی علاقوں میں تباہی مچانے کے بعد
اب سیلابی ریلے کا رخ جنوبی پنجاب میں مظفر گڑھ اور ملتان کی جانب ہے۔محکمہ
موسمیات کے مطابق ممکنہ سیلاب کی وجہ سے ملتان اور مظفر گڑھ کے نشیبی
علاقوں میں رہنے والے افراد کو محتاط رہنے اور دریا کے قریبی علاقے خالی
کرنے کی ہدایات جاری کی گئی ہیں۔پاکستان کے قومی آفات سے نمٹنے کے ادارے
این ڈی ایم اے (NDMA)کے ترجمان کے مطابق سیلابی ریلے سے جھنگ کے قریب واقع
تریموں بیراج کو جو خطرہ تھا وہ ٹل گیا ہے کیونکہ اس کو بچانے کے لیے بند
توڑے گئے تھے۔ تریموں بیراج کو بچانے کی قیمت یہ دینی پڑی کہ پنجاب کے پانچ
اضلاع میں پانی گیا جہاں ہر ضلع میں ڈیڑھ سے دو لاکھ افراد متاثر
ہوئے۔‘انھوں نے کہا کہ ان اضلاع میں سیالکوٹ، حافظ آباد، گوجرانوالا، جہلم،
نارووال سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔انھوں نے کہا کہ صوبہ پنجاب اور
پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں سیلاب کے باعث ہلاک ہونے والوں کی کْل
تعداد 257 ہو گئی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ سیلاب کے باعث متاثر ہونے والوں کی
کْل تعداد سوا گیارہ لاکھ ہو گئی ہے۔
پاکستان کو اس وقت سنگین مالی بحران کا بھی سامنا ہے اور اس سے نکلنے کے
لیے حال ہی میں بین الاقوامی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف سے قرض لیا گیا
تھا۔ تاحال کھڑی فصلوں کی بڑی تعداد بپھرے ہوئے پانیوں کی نذر ہو چکی ہیں،
سیلاب کی صورت حال سنگین تر ہونے سے نہ صرف مہنگائی میں اضافہ ہوجائے گا
بلکہ مزید وسیع پیمانے پر کھڑی فصلوں کو بھی نقصان پہنچے گا۔
ایک اطلاع کے مطابق حکومتی کابینہ نے اعلان کیا ہے کہ وہ بیرونی امداد نہیں
لیں گے اب دیکھنا ہے کہ حکومت پاکستان اس سیلاب سے متاثر ہ عوام کی کس طرح
مدد کرتی ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان کو بھارت سے اس نقصانات پر دو ٹوک بات
کرنی چاہیے۔کیا وزراعظم نریندر مودی کے معافی مانگنے سے ہمارا نقصان پورا
ہوجائے گا؟ جو لوگ اس سیلاب میں بہہ کر اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں کیا
وہ واپس آسکتے ہیں؟جن لوگوں کے مکان ، مویشی اور فصلیں تباہ ہوگئیں کیا وہ
سب نقصان پورا ہوسکتا ہے؟ حکومت اور دھرنے دینے والوں کو چاہیے کہ آپس میں
لڑنے کی بجائے وہ بھارت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کریں اور انہیں
بتائیں کہ وہ جو پاکستان پرآبی حملے کررہا ہے (کبھی پانی چھوڑ کر تو کبھی
پانی روک کر) اس سے باز رہے ورنہ اس کا منہ توڑ جواب دیا جائے گا۔آخر کب تک
ہم حکومتی دوستیوں کی خاطر اپناگھر بار اجاڑتے رہیں گے؟ |