بھارتی لوک سھا اور راجیہ سبھا کے 30 فیصد سے زائد ارکان
جرائم پیشہ ہیں، جن پر قتل، اقدام قتل، زیادتی، اغوا برائے تاوان اور
انسانی سمگلنگ سمیت مختلف سنگین جرائم کے مقدمات زیر سماعت ہیں
جمہوریت کا کھیل اب دولت کا کھیل نہیں رہا۔ اب جرائم قتل و غارت گری بھی اس
کھیل کا حصہ ہے۔ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت بھارت میں پارلیمنٹ جرائم پیشہ
ارکان اسمبلی سے بھرگئی ہے۔ جن پر ریپ، ڈکیٹی، قتل، سمگلنگ، اغوا برائے
تاوان سمیت مختلف کیسز ہیں اور ان کی تعداد میں بہت تیزی سے اضافہ ہورہا
ہے۔صوبائی اسمبلیوں کے ارکان کی حالت بھی بہت پتلی ہے۔ بالی ووڈ کے مسٹر
پرفیکٹ عامر خان کہتے ہیں کہ بھارتی پارلیمنٹ مجرموں کی آماجگاہ بن چکی ہے
اور وقت کے ساتھ ساتھ ان میں اضافہ ہی ہو رہا ہے۔ ایک بھارتی ٹی وی چینلز
پر اپنے پروگرام میں عامر خان کے یہ الزامات حیران کن تھے۔ انھوں نے کہا کہ
ریاست کے منتخب ادارے ہوں یا بھارتی پارلیمنٹ تمام جگہوں پر جرائم پیشہ
افراد بیٹھے ہوئے ہیں۔ قانون ساز ادارے ان جرائم پیشہ افراد کے لئے گنگا کی
طرح ہے جہاں اشنان کرکے ناصرف وہ پاک ہوجاتے ہیں بلکہ انہیں آئندہ 5 سال کے
لئے بھی کھلی چھوٹ مل جاتی ہے، صورت حال یہ ہے کہ اس وقت بھارتی لوک سھا
اور راجیہ سبھا کے 30 فیصد سے زائد ارکان جرائم پیشہ ہیں، جن پر قتل، اقدام
قتل، زیادتی، اغوا برائے تاوان اور انسانی سمگلنگ سمیت مختلف سنگین جرائم
کے مقدمات زیر سماعت ہیں اور بدقسمتی سے ہر انتخابات میں جرائم پیشہ افراد
کی شمولیت بڑھتی جا رہی ہے۔ عامر خان نے عوام کو یاد بھی دلایا کہ اپنے
چھوٹے سے مفاد کے لئے ووٹ جیسی طاقت کو بیچنا عوام کے اپنے لئے خطرناک ہے
کیونکہ ان ہی کے ووٹ سے وہ ان پر جبر کا نظام مسلط کرتے ہیں۔ ایک رپورٹ کے
مطابق بھارت کے186 ارکان پارلیمنٹ کے خلاف عدالتوں میں مقدمات زیرالتوا
ہیں۔ ان میں سے 112کے خلاف سنگین نوعیت کے مقدمات درج ہیں۔ ان مقدمات میں
قتل‘ اقدام قتل‘ اغوا‘ زنا اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو سبوتاژ کرنے کے
مقدمات شامل ہیں۔ انڈین ایکسپریس کی ایک اور رپورٹ میں بھارت کے انتخابات
میں پیشے کے چلن کا بھی ذکر ہے، اس رپورٹ کے مطابق بھارت کی قومی اسمبلی
لوک سبھا میں کروڑ پتیوں کی فراوانی ہوگئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق لوک سبھا کے
اراکین کی مجموعی تعداد 541 ہے اور ان میں سے 322کروڑ پتی ہیں۔ اس سلسلے
میں پارٹی پوزیشن یہ ہے:
بی جے پی… 237 کروڑ پتی
کانگریس… 35کروڑ پتی
آل انڈیا انا دراوڑ مْنیترا کاز گام… 27 کروڑ پتی
تری مول کانگریس… 21کروڑ پتی
رپورٹ کے مطابق لوک سبھا میں اوسطاً ہر رکن کے پاس 14کروڑ 61 لاکھ روپے
ہیں۔ اس طرح لوک سبھا کے تمام اراکین کے پاس موجود مجموعی رقم 6 ہزار 500
کروڑ روپے ہے۔ بھارت کی قومی زندگی کے یہ حقائق ہولناک ہیں، لیکن ان کی
ہولناکی اْس وقت اور بڑھ جاتی ہے جب یہ معلوم ہوتا ہے کہ بھارت میں 86 کروڑ
افراد خطِ غربت سے نیچے زندگی بسر کررہے ہیں۔ یعنی ان افراد کی یومیہ آمدنی
2 ڈالر سے کم ہے۔ بھارت کی ایک ارب 20کروڑ آبادی کے 60 فیصد حصے کے پاس بیت
الخلا نہیں ہیں۔ 21 ویں صدی میں بھارت کے 30 کروڑ افراد کے پاس بجلی کی
سہولت نہیں ہے۔ بھارت کی سیاست میں بدعنوانی اتنا بڑا مسئلہ ہے کہ اناہزارے
نے اس بنیاد پر ایک بڑی قومی مہم چلائی،اس مہم کی کوکھ سے عام آدمی پارٹی
کے عنوان سے ایک نئی سیاسی جماعت نے جنم بھی لیا جس نے دہلی کی صوبائی
اسمبلی میں اکثریت حاصل کی پھر کیا ہوا انا ہزارے کو استعفی ہی دینا پڑا۔
بھارت کی سیاست پر جرائم پیشہ ذہنیت اور جرائم پیشہ افراد کا غلبہ اْس وقت
اور بھی ہولناک نظر آتا ہے بھارت کی نو منتخب لوک سبھا کئی اعتبار سے مختلف
اور منفرد ہے۔ پارلیمنٹ کے نومنتخب 543 ارکان میں سے 186 ارکان کے خلاف
کرمنل مقدمات قائم ہیں۔ ایسو سی ایشن فار ڈیمو کریٹک ریفارمز کے ایک تجزیے
کے مطابق بی جے پی کے لیڈر نریندر مودی کی جانب سے انتخابات میں کئے گئے
شفافیت اور کرپشن سے نجات کے وعدوں کے باوجود انڈیا کی پارلیمان میں ایسے
اراکین کی ریکارڈ تعداد ہے۔ جن پر قتل، اغوا، رہزنی اور فرقہ وارانہ یا
نسلی فسادات پھیلانے جیسے سنگین جرائم کے الزامات ہیں۔ اے ڈی آر کے مطابق
ایسے ارکان کی تعداد 186 ہیں جن پر کوئی نہ کوئی مقدمہ قائم ہے۔ اس کے
علاوہ پی آر ایس لیجس لیٹیو ریسرچ نے تمام سیٹوں کی پروفائل اسٹڈی کے بعد
فہرست جاری کی ہے جس سے نئی لوک سبھا کی پوری صورت حال سامنے آتی ہے۔ ریسرچ
کے مطابق اس بار انتخابات میں کل 61 نشستیں ایسی ہیں جہاں سے خواتین
امیدوار کامیاب ہوئی ہیں جو مجموعی شرح کا تقریبا 11 اعشاریہ تین فیصد ہے۔
ملک میں نوجوان ووٹروں کی بڑی تعداد کے باوجود اس بار ایسے ایم پی کی تعداد
زیادہ ہے جن کی عمر 55 سال سے زیادہ ہے، ان کی مجموعی تعداد 253 ہے جو کہ
پارلیمنٹ کا 47 فی صد ہیں۔ایسے منتخب ارکان کا تناسب جو دسویں جماعت بھی
پاس نہیں، تین فی صد سے بڑھ کر 13 فیصد تک پہنچ گیا ہے۔ڈاکٹریٹ کی ڈگری
رکھنے والے ممبران کی تعداد میں پہلے سے تین فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ مودی نے
غریب عوام کا اعتماد حاصل کرنے کے لئے اپنے بچپن کی محرومی اورسیاست کے
عاجزانہ آغاز کا بھی خوب چرچا کیا۔ مودی کی شخصیت کے ہر پہلو کی طرح بچپن
کی غربت کی ’’گلیمرآئزیشن‘‘ بھی عوام کو دھوکہ دینے کا بیہودہ ہتھکنڈا کہا
جاتا ہے۔کہا جاتا ہے کہ مودی کی اصل طاقت عوام کے ووٹ کی بجائے سرمایہ دار
طبقے اور طاقتور جرائم پیشہ مافیا کی حمایت ہے۔ پچھلے سال نومبر میں ہی
ہندوستان کے سو بڑے سرمایہ داروں میں سے 72 نے وزیراعظم کے امیدوار کے طور
پر مودی کو پسندیدہ قرار دیا تھا۔ حالیہ الیکشن ہندوستان کی تاریخ کا سب سے
مہنگا الیکشن تھا جس میں BJP نے ووٹ خریدنے، جلسے کروانے اور مخالف
امیدواروں کو پیسے دے کر دستبردار کروانے کے لئے اپنے سرمایہ دار ’’ڈونرز‘‘
کا پیسہ پانی کی طرح بہایا۔ BJP کے انتخابی اخراجات تمام پارٹیوں سے زیادہ
تھے اور الیکٹرانک میڈیا پر ریکارڈ ائیر ٹائم کے ساتھ ساتھ اخبارات میں
پارٹی کے اشتہاروں کی بھرمار تھی۔ خود سرمایہ دار ہونے کے ناطے میڈیا
مالکان نے ایک کرشماتی رہنما کے طور پر مودی کا تشخص ابھارنے میں اہم کردار
ادا کیا۔ سب سے زیادہ تشویش کا پہلو یہ ہے کہ منتخب ہونے والی لوک سبھا میں
کروڑ پتی اور جرائم پیشہ افراد کی تعداد بذات خود ایک ریکارڈ ہے۔ روزنامہ
’’دی ہندو‘‘ میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق انتخابات میں کامیاب
ہونے والے ’’ایک تہائی سیاستدانوں پر جرائم کے الزامات یا مقدمے ہیں۔۔۔
سولہویں لوک سبھا میں جرائم کے مقدمات کا سامنا کرنے والے سیاستدانوں کی
تعداد تاریخ میں سب سے زیادہ ہے۔ 2004 میں 24 اور 2009 میں 30 فیصد کے
برعکس اب کی بار 34 فیصد ممبران پر مقدمات قائم ہیں۔ مجموعی طور پر جرائم
پیشہ افراد کے انتخابات میں جیت نے لوگوں کو حیران کردیا ہے۔ اسی طرح لوک
سبھا کے 82فیصد ممبران کے اثاثے ایک کروڑ سے زیادہ ہیں۔ 2004 میں یہ شرح 30
فیصد، جبکہ 2009 میں 58 فیصد تھی۔‘‘ رپورٹ میں دئیے گئے اعداد و شمار
’’ایسوسی ایشن فار ڈیموکریٹک ریفارمز‘‘ نامی ادارے کی جانب سے شائع کئے گئے
ہیں۔ہندو شاونسٹ اور بنیاد پرست سیاسی جماعت کی انتخابی فتح میں سب سے اہم
کردار مجموعی طور پر نیم رجعتی معروض اور معاشی جبر و استحصال سے نجات کا
راستہ دکھانی والی موضوعی سیاسی قوت کی عدم موجودگی نے ادا کیا ہے-
بھارت میں ہونے والے لوک سبھا انتخابات کو تاریخ کے مہنگے ترین انتخابات
قرار دیا گیا ہے حکومت کو انتخابی عمل پر 1114 کروڑ بھارتی روپے خرچ کرنا
پڑے۔ امیدواروں، سیاسی جماعتوں اور حکومت کے مجموعی اخراجات 30 ہزار کروڑ
روپے بنتے ہیں۔ بھارت میں ایک امیدوار کو 76 لاکھ روپے تک خرچ کرنے کی
اجازت ہے ایک اندازے کے مطابق 9 مرحلوں پر محیط بھارتی انتخابات پر حکومت،
سیاسی جماعتوں اور امیدواروں کی طرف سے مجموعی طور پر 30 ہزار کروڑ بھارتی
روپے خرچ کئے گئے۔ 158 افراد پر مشتمل پچھلی کابینہ کے مقابلے میں ایوانِ
زیریں کے 34 فیصد اراکین پر جرم کے الزامات ہیں۔ یہ تنظیم گڈ گورننس اور
صاف حکومت کی وکالت کرتی ہے اور اسی کے لئے تحقیق کرتی ہے۔ 543 اراکین پر
مشتمل کابینہ کے کئی اراکین پر سنگین جرائم کے الزامات ہیں۔ بی جے پی کے نو
میں سے چار اراکین پر قتل کے مقدمات ہیں، جبکہ سترہ میں سے دس پارلیمانی
اراکین پر اقدامِ قتل کے الزامات ہیں۔نریندر مودی کے دور میں 2002 میں
گجرات میں مسلم کش فسادات کے دوران 26 ہزار کے لگ بھگ مسلمانوں بشمول
خواتین بچوں کی شہادت کے بعد ان کے وزیراعظم بننے سے لاکھوں مسلمانوں کی
نسل کشی، ہجرت اور بے سروساماں ہونے کا خطرہ ہے یہ سانحہ گجرات سے بھی بڑا
المیہ ہو سکتا ہے۔ بی جے پی مسلم دشمنی اور مسلم نسل کشی کے باعث پوری دنیا
میں بدنام ہے۔اس بار بھارت کی 16 ویں منتخب پارلیمنٹ میں مسلمانوں کی تعداد
تاریخ میں سب سے کم ہے اور حالیہ انتخابات میں 543 نشستوں میں سے صرف 20
مسلمان کامیابی حاصل کر پائے۔ ریاست اترپردیش کی 80 نشستوں میں سے کوئی بھی
مسلمان امیدوار کامیابی حاصل نہ کر سکا۔ مغربی بنگال سے کانگریس کے ٹکٹ پر
2، کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے 2 اور ترینامول کانگریس کے 3 ،جبکہ ریاست
بہار سے راشٹریہ جنتا دل، نیشنلسٹ کانگریس پارٹی، لوک جنشکتی پارٹی اور
کانگریس کے ایک، ایک مسلمان امیدوار کامیاب ہوئے۔ اسی طرح مقبوضہ جموں
کشمیر سے پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کے ٹکٹ پر 3، آسام سے آل انڈیا یونائٹڈ
ڈیموکریٹک فرنٹ کے 2، لکشدویپ سے نیشنلسٹ کانگریس پارٹی کے ایک ، ریاست
تامل ناڈو کے شہر رماناتھاپورم سے ’’اے آئی اے ڈی ایم کے’’ کے ایک اور حیدر
آباد دکن سے مجلس اتحاد المسلمین کے رہنما لوک سبھا میں جگہ بنانے میں
کامیاب ہوئے، تاہم 30 سال بعد ایوان میں تنہا حکومت بنانے والی بھارتیہ
جنتا پارٹی کے 282 کامیاب امیدواروں میں سے کوئی ایک بھی مسلمان نہیں جس سے
انتہا پسند جماعت کی مسلمانوں سے نفرت کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔ساری دنیا
میں بھارت کی بڑی دھوم ہے کہ یہ سب سے بڑی جمہوریت ہے۔ بھارت کی تعریف کرنے
والے یہ راگ بھی الاپتے سنائی دیتے ہیں کہ آبادی کے لحاظ سے دنیا کے دوسرے
سب سے بڑے ملک، بھارت، میں کبھی فوجی حکومت نہیں آئی۔ لیکن ’’دنیا کی اس سب
سے بڑی جمہوریت‘‘ کا باطن کس قدر تاریک ہے اور اس کی پارلیمنٹ کے درجنوں
ارکان کتنے بدعنوان ہیں، اس کا بھانڈا بھارت ہی کے اخبارات نے پھوڑدیا ہے۔
نریندر مودی وزیراعظم بن چکے ہیں لیکن ان کی تشدد پسند اور مسلمان دشمن
پارٹی، بی جے پی، کے منتخب درجنوں ارکانِ اسمبلی جرائم پیشہ بھی ہیں، اس کا
انکشاف بھی بھارتی میڈیا اور بھارت کی طاقتور این جی اوز کررہی ہیں۔ بھارت
کی دو غیر سرکاری تنظیموں نے موجودہ بھارتی لوک سبھا یعنی بھارت کی قومی
اسمبلی کے 53منتخب سیاستدانوں کی فہرست شایع کی ہے جو نہایت سنگین جرائم
میں ملوث رہے ہیں اور ان کے خلاف کئی اعلیٰ بھارتی عدالتوں میں اب بھی
مقدمات زیرِ سماعت ہیں۔بھارت کے نامور قانون دان اور دانشور جناب اے جی
نورانی نے بھی اپنے ایک حالیہ انگریزی آرٹیکل میں انکشاف کیا ہے کہ ان 53
سیاستدانوں میں 24ایسے ارکانِ اسمبلی ہیں جو ’’بھارتیہ جنتا پارٹی‘‘ کے ٹکٹ
پر منتخب ہو کر آئے ہیں اور کریمنل کورٹس میں ان کے خلاف سنگین جرائم کے
تحت مقدمات چل رہے ہیں۔ اگر فیصلہ ان کے خلاف آتا بھی ہے تو انھی ملزم
ارکانِ اسمبلی کو اطمینان ہے کہ انھیں پانچ سال تک تو کوئی بھی عدالت ڈس
کوالیفائی نہیں کرسکے گی کیونکہ بھارتی قوانین کے تحت عدالتوں میں کسی بھی
مقدمے کو دس سال تک آسانی کے ساتھ کھینچا جاسکتا ہے۔
گویا بھارتی جمہوریت کو داغدار کرنے میں کرپٹ بھارتی سیاستدان اور عدالتیں
یکساں کردار ادا کررہی ہیں۔ اس سے قبل 19مئی 2014 کو ممتاز بھارتی اخبار
’’انڈین ایکسپریس‘‘ نے بھی انکشاف کیا تھا کہ جو بھارتی سیاستدان منتخب
ہوکر لوک سبھا میں بیٹھنے جارہے ہیں، ان میں ایک سو بارہ افراد ایسے ہیں جن
کے خلاف مختلف بھارتی عدالتوں میں نہایت سخت الزامات کے تحت مقدمات
زیرسماعت ہیں۔ ان مقدمات میں قتل، اقدامِ قتل، اغواکاری، عورتوں کی عصمت
دری اور فرقہ وارانہ فسادات کروانے ایسے سنگین الزامات شامل ہیں۔
بھارتی اخبارات ہی کی شایع شدہ رپورٹوں کی بنیاد پر یہ بات کہی جارہی ہے کہ
اگر بھارت دنیا کا سب سے بڑا جمہوری ملک ہے تو پھر حقائق کی بنیاد پر یہ
بھی کہنا پڑے گا کہ بھارتی پارلیمنٹ دنیا کی سب سے بڑی بدعنوان اور داغدار
پارلیمان ہے۔ بھارت ہی کے ایک نامور جریدے ’’انڈیا ٹوڈے‘‘ نے یہ بھی انکشاف
کیا ہے کہ دولتمند اور سرمایہ دار بھارتی سیاستدان اپنے ملک کے موثر اخبار
نویسوں اور اینکر پرسنوں کو رشوت دے کر اپنے سیاسی مخالفین کو بدنام اور
ذلیل کرنے کی سازشیں کرتے رہتے ہیں۔ بھارت کی مبینہ کرپٹ پارلیمان اور
منتخب بدعنوان ارکانِ پارلیمنٹ کے خلاف بھارت ہی کے ایک سابق چیف جسٹس،
محمد ہدایت اﷲ، کئی برس قبل کہہ چکے ہیں کہ اب تیزی سے بدلتے حالات میں
کرپٹ سیاستدانوں کو لوک سبھا میں آنے سے روکنا ناممکن ہوتا جارہا ہے۔
وزیراعظم نریندر مودی کی قیادت میں بی جے پی کے کئی بدنامِ زمانہ ارکان جس
طرح بھاری اکثریت سے جیت کر لوک سبھا کے رکن بنے ہیں، تقریباً چار عشرے قبل
جسٹس ہدایت اﷲ کے کہے گئے یہ الفاظ آج پوری صحت کے ساتھ بھارتی پارلیمنٹ پر
منطبق ہورہے ہیں۔ بھارت ہی کے ایک نامور بیوروکریٹ بی کے نہرو نے 1981 میں
کہا تھا کہ آ یندہ ایام میں بھارت کے دولتمند اور کرپٹ افراد ہی منتخب ہوکر
رکنِ پارلیمنٹ بنا کریں گے۔ انھوں نے ایک بھارتی صوبے کا ذکر کرتے ہوئے یہ
بھی کہا تھا کہ یہاں تو تیس فیصد سے زائد ارکان اسمبلی قاتلوں اور
اغواکاروں میں شامل ہیں۔بھارت کے سابق چیف جسٹس جناب ہدایت اﷲ نے برسوں قبل
بھارتی سیاستدانوں کے بارے میں جو پیشگوئی کی تھی، وہ اپریل/مئی 2014 کے
عام بھارتی انتخابات کے نتائج کی روشنی میں بالکل سچ ثابت ہوئی ہے۔ گزشتہ
دنوں بھارتی اخبار ’’انڈین ایکسپریس‘‘ نے دل دہلا دینے والی ایک اور رپورٹ
شایع کرتے ہوئے لکھا ہے کہ موجودہ بھارتی پارلیمنٹ، جہاں بی جے پی کو
اکثریت حاصل ہے، کے ارکان میں جس سیاستدان کے پاس کم سے کم سرمایہ ہے، اس
کی مالیت بھی پندرہ کروڑ ہے۔ان کروڑ پتی بھارتی سیاستدانوں میں بی جے پی کے
237، کانگریس کے 35، تامل ناڈو کی آئی اے ڈی ایم پارٹی کے 29اور مغربی
بنگال کے ترنمول کانگریس پارٹی کے اکیس ارکان شامل ہیں۔ ان حقائق کی روشنی
میں یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ بھارت کا نہ صرف نہایت دولتمند طبقہ پہلی بار
خود رکنِ پارلیمنٹ بنا ہے بلکہ بھارت کے ارب پتی تاجروں نے دانستہ اپنے
چندے کی طاقت سے نریندر مودی اور بی جے پی کو جتوایا ہے تاکہ بھارت میں
سرمایہ دار طبقات کے مفادات کو نہ صرف تحفظ دیا جائے بلکہ انھی کی پسندیدہ
پالیسیاں بنائی جائیں۔یہی وہ طبقہ ہے جو صوبہ گجرات میں مسلسل پندرہ برس
نریندر مودی کی طاقت کا نہ صرف محور تھا بلکہ اسی طبقے نے نریندر مودی کو
ایک کامیاب وزیراعلیٰ بنانے میں مرکزی کردار ادا کیا۔ اسی دولتمند اور کرپٹ
طبقے کی پشت پناہی سے دنیا بھر میں نریندر مودی کی نام نہاد کامیاب معاشی
پالیسیوں کی گونج سنائی دیتے رہی۔ یہاں تک کہ اسے ایک ’’دیوتا‘‘ بنا کر پیش
کیا گیا کہ اب وہی پورے بھارت کو بنا اور سنوار سکتا ہے؛ چنانچہ اسی طاقتور
لہر پر سوار ہو کر چائے فروش کا بیٹا، نریندر مودی، بھارت کا وزیراعظم بن
گیا۔سوال یہ ہے کہ بھارت کے اس بدعنوان اور کرپٹ منتخب طبقے کی موجودگی میں
بھارت کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہا جاسکتا ہے؟ بھارتی جمہوریت کے فریم
آف ورک میں رہتے ہوئے ایک طرف ایک غریب اور تہی دامن چائے فروش کا بیٹا ملک
کا چیف ایگزیکٹو بن گیا لیکن دوسری طرف یہ بھی ہے کہ بھارت کے اکثریتی طبقے
میں احساسِ محرومی مزید پھیل رہا ہے اور دلی سے ناراضیاں بڑھتی جارہی
ہیں۔یہ احساس بڑھ اور پھیل کر بھارت کی یک جہتی میں دراڑیں ڈالنے کا موجب
بھی بنے گا۔ نریندر مودی اور ان کے ارب پتی مگر بدعنوان اور جرائم پیشہ
ساتھی کب تک لوک سبھا میں رہ کر بھارت کو اکٹھا رکھنے میں کامیاب رہ سکیں
گے۔ بھارتی پارلیمنٹ کے یہ داغدار ممبر ہی بھارت اکائی کو بکھیرنے میں عمل
انگیز کا کام کریں گے۔ بھارت کی شمالی ریاستوں میں یہ عمل تو شروع بھی
ہوچکا ہے، پارلیمنٹ میں اس اکثریت کی یہی جرائم پیشہ ذہنیت ہے جس نے بھارت
کے فلم سازوں سے درجنوں پاکستان مخالف فلمیں بنوائی ہیں، اور یہی ذہنیت ہے
جس نے نریندر مودی جیسے شخص کو ملک کا وزیراعظم بنوایا ہے۔ بھارت کی سیاست
پر جرائم پیشہ افراد کے غلبے کا ایک زاویہ یہ ہے کہ بھارت کے عوام کیا خواص
کو بھی بھارتی سیاست کے جرائم پیشہ افراد کے نرغے میں چلے جانے پر کوئی خاص
تشویش نہیں ہے۔ بلکہ بھارت کے عوام ہی جرائم پیشہ افراد کو منتخب کرکے
منتخب ایوانوں میں بھیج رہے ہیں۔ بلاشبہ اناہزارے کی تحریک اس رجحان کے
خلاف ایک احتجاج تھا، مگر اس احتجاج کا رخ صرف مالی بدعنوانی کی طرف تھا۔
اس صورت حال کا مفہوم واضح ہے۔ پاکستان ہو یا امریکہ‘ فرانس ہو یا بھارت…
سیاست کو اخلاقیات اور علم کے تابع کیے بغیر سیاست میں خرابیوں کا راستہ
نہیں روکا جاسکتا۔
|