ایک سال کی کارکردگی دیکھنے کے بعد ماہرین کی یہ رائے
بنتی جارہی تھی کہ اگر آئندہ بھی معیشت کو آگے بڑھانے کا عمل جاری رہا تو
معیشت کے حالات بہتر ہونا شروع ہوجائیں گے۔اور معیشتTake offکی پوزیشن میں
آجائیگی۔لیکن اڑان بھرنے سے پہلے ہی پرکاٹ دیئے گئے۔حکومت کا چین کی طرف
بہت زیادہ جھکاؤ کچھ طاقتوں کو پسند نہ آیا۔ایک سال کے عرصے میں موجودہ
حکمرانوں نے چینی کمپنیوں اور سرمایہ کاروں کو پاکستان کی طرف رخ کرنے کے
لئے بڑی جدوجہد کی تھی۔آپریشن ضرب عضب شروع ہونے کے بعد چینی کمپنیوں اور
حکومت کو بھی یقین ہوگیاتھا۔کہ اب پاکستان کے حالات امن و امان کے نقطہ نظر
سے نارمل ہوجائیں گے۔دنیا دیکھ رہی تھی کہ آپریشن شروع ہونے کے بعد پاکستان
کے طول وعرض میں خودکش دھماکے اور حملے کافی کم ہوگئے تھے۔قوم نے امن وامان
کی منزل کی طرف تیزی سے بڑھنا شروع کردیاتھا۔انہیں حالات کو دیکھ کر چینیوں
نے پاکستان میں بڑی سرمایہ کاری کے لئے رخ کیاتھا۔شمالی وزیرستان کے
Clearہونے کے بعد ہر شخص کو امن نظر آرہاتھا۔چینیوں کو اپنی سیکیورٹی کی
فکر رہتی تھی۔صوبائی وزراء اعلیٰ نے بھی چینیوں کو نارمل حالات کا یقین
دلایاتھا۔لیکن وہ طاقتیں جو پاکستان کے حالات نارمل نہیں دیکھنا چاہتیں۔
انہوں نے نے منصوبہ بنایا اور اسلام آباد میں نافذکر دیا۔منصوبہ پر عمل
درآمد کے لئے بیرونی طاقتوں کو ملک کے اندر سے ہی لوگ مل گئے۔اپنے مضموم
عزائم کے لئے کام اندر کے لوگوں سے ہی لیاجاتا ہے۔اور یہ ایک ماہ گزرنے کے
بعد بھی لیا جارہا ہے۔نواز شریف جیسے کمزور لوگوں سے اسلام آباد میں جاری
ناٹک ختم ہوتا نظر نہیں آتا۔اس پوری صورت حال کو دیکھ کر ہی چینی صدر نے
اپنا دورہ ملتوی کیا ہے۔جب اسلام آباداور ملک کی بڑی شاہراہوں پر کنٹینرز
لگے ہوں اور 2لیڈر ملک کے لوگوں کو موجودہ حکمرانوں کے خلاف تسلسل سے
بھڑکارہے ہوں۔ایسی صورت حال میں کوئی بھی بیرونی شخصیت پاکستان آنے کے لئے
رضامند نہ ہوگی۔دھرنوں سے ہونے والے اربوں روپوں کے نقصانات کے ساتھ ہی
چینی صدر کے دورے کے ملتوی ہونے سے امید،ناامیدی میں بدل گئی ہے۔32۔ارب
ڈالرز کے منصوبوں میں زیادہ رقم گوادرکی ترقی سے متعلق تھی۔اور یہ رقم چینی
یہاں لگا دیتا ہے۔تو گوادر ایک بین الاقوامی بندرگاہ بن جاتی ہے۔اور گوادر
کا چین کے شہروں سے موٹروے سے ملاپ استعماری طاقتیں کبھی بھی پسند نہیں
کریں گی۔چین نے گوادر کی ترقی کے لئے بے شمار منصوبے بنائے ہوئے ہیں۔گوادر
بندرگاہ میں مزید گودیوں کی تعمیر۔گوادر کا ہوائی اڈا،گوادر شہر کی از سر
نو تعمیر،گوادر فری زون،اور برآمدات کے لئے اشیاء سازی کے کئی یونٹس،گوادر
میں ایک بڑے ہسپتال کی تعمیر،ایک بین الاقوامی معیار کا ہوٹل،کوئلہ سے چلنے
والا ایک بڑا انرجی پروجیکٹ۔اگر یہ بڑی بندرگاہ اور شہر بن جاتا ہے اور اس
پر کنٹرول پاکستان اور چین کا ہوتا ہے تو اسے عالمی استعماری طاقتیں کبھی
بھی پسند نہ کریں گی۔چین کوتو اپنے ہی جنوبی چینی سمندر میں عالمی طاقتیں
کنڑول دینا نہیں چاہتیں۔گوادرکے علاوہ بھی چین پاکستان میں بڑے بڑے کام
کرنا چاہتا ہے۔لاہور کراچی موٹروے،جس کا ملتان اور سکھر کا حصہ
موجودہ32۔ارب ڈالر کے پیکج کا حصہ ہے۔ایسے ہی کوئلہ سے چلنے
والے9000میگاواٹ کے منصوبوں کی بنیاد بھی رکھی جانی تھی۔یہ تمام 2018ء تک
مکمل ہوجاتے۔پن بجلی کے1400میگاواٹ کے پروجیکٹ2020ء تک مکمل ہوجانے
تھے۔قراقرم ہائی وے کا دوسرا مرحلہ2017ء تک مکمل ہوناتھا۔ملتان ۔لاہور
ریلوے لائن کی upgradationبھی اسی پروگرام میں شامل تھی۔اگر یہ تمام منصوبے
جلد از جلد شروع ہوجاتے تو پاکستانی معیشت اڑان بھرنے(Take off)لگ جاتی۔یہ
بات عالمی استعماری طاقتوں کو پسند نہ تھی۔اسی لئے اسلام آباد میں دھرنے
والا ڈراما رچایاگیا۔ترقی کے منصوبے اگر نواز شریف دورکے آخر تک مکمل
ہوجاتے ہیں تو آئندہ بھی ووٹ انہیں کو ملتے۔عمران خان اسی لئے DoاورDieکی
حالت میں ہیں۔انہیں اپنی اگلی باری کا یقین نہ تھا۔موجودہ حکمرانوں کو ابھی
گراؤتاکہ بڑے بڑے پروجیکٹ مکمل ہونے سے پہلے ہی دوبارہ الیکشن ہوجائے اور
عمران خان کا وزیراعظم بننے کا خواب پورا ہوجائے۔جن پراجیکٹس کا اوپر ذکر
کیاگیا ہے ان میں سے اکثر2018ء تک مکمل ہوجانے تھے۔یا کم ازکم انکا بڑا حصہ
مکمل ہوجاتا۔نوازشریف کے لئے اگلے الیکشن میں عوام کو بتانے کے لئے کچھ
ہوتا۔بجلی کا بحران تو لازمی طورپر ختم ہوجاتا۔کیونکہ کوئلہ سے شروع کئے
گئے پروجیکٹس 2018ء تک بجلی پیداکرنی شروع کردیتے۔امن وامان تو اب آپریشن
ضرب عضب سے ہوتا ہوا نظر آرہا ہے۔بجلی کا بحران اگر2018ء کے شروع میں حل
ہوجاتا تو پاکستان کے2بڑے مسلۓ حل کرنے کا Creditنواز شریف کو ہی ملنا
تھا۔دھرنوں سے چینی صدر کے دورے کا التوا بھی سکرپٹ کا لازمی حصہ ہے۔بجلی
کے بحران کے جلد حل ہونے سے صوبہ سرحد کی3500فیکٹریاں رواں دواں
ہوجاتیں۔ہزاروں لوگوں کو روزگار مل جاتا۔خیبر پختونخواہ اور فاٹا کے لوگ
اپنے اپنے علاقوں میں واپس آجاتے۔کراچی کے حالات بھی اس وقت درست
ہوجاتے۔کراچی کے حالات کے بگاڑ میں دوسرے صوبوں سے آئے ہوئے لوگوں کا بھی
حصہ بتایاجاتا ہے۔اگریہاں امن وامان ہوجائے تو اس کا کریڈٹ بھی موجودہ
حکمرانوں کوجاتا ہے۔آنے والے چارسالوں میں امن وامان کا قیام اور معیشت کے
اڑان بھرنے کے عمل سے صرف نواز شریف کوفائدہ ہونا تھا۔قارئین کو دھرنوں کی
وجہ اب سمجھ آگئی ہوگی۔2018ء کے الیکشن میں عمران خان کواپنی ناکامی واضح
نظر آرہی تھی۔لہذا بہتر یہی سمجھا گیا کہ ابھی پھڈا ڈال دو تاکہ موجودہ
حکمران اپنے منصوبوں پر عمل نہ کرسکیں ۔امریکہ کے بیانوں میں بھی اب تبدیلی
آرہی ہے۔اسے چین پیچھے ہٹتا نظر آرہا ہے۔یہ منظر نامہ امریکہ کے لئے بھی
خوش کن ہے۔اندرونی اور بیرونی عوامل نے بات کوواضح کردیا ہے۔اسلام آباد کے
دھرنوں میں تقریریں کرتے دونوں لیڈر اب کزن بھی بننے لگے ہیں۔دونوں کی
اجتماعی طاقت کے بعد وہ اپنے مقاصد کو کامیاب ہوتا دیکھ رہے ہیں۔چینی صدر
جب بھارت اور سری لنکا کے دورے کے بعد اپنے ملک پہنچیں گے تو پاکستان کے
مرکز اسلام آباد میں ہونے والے ڈرامے پر دوبارہ نظر گاڑیں گے۔مجھے نہیں
یقین جو کچھ انہوں نے اپنے پہلے طے شدہ دورے میں پاکستان کے لئے اعلان
کرناتھا۔دوبارہ اعلان بھی ایسا ہی ہو۔حالات کو دیکھتے ہوئے پالیسیاں بھی
تبدیل ہوجاتی ہیں۔پاکستانی معیشت اس سے پہلے بھی کئی دفعہ اڑان بھرنے کی
پوزیشن میں آگئی تھی۔لیکن کچھ نہ کچھ انہونی ہوجاتی ہے۔معاشی حالات پھر
ویسے کے ویسے ہی چلتے رہتے ہیں۔اگر ہم پاکستان اور ملائشیاء کا برآمدات کے
نقطہ نظر سے مقابلہ کریں تو صورت حال بہت ہی عجیب نظر آتی ہے۔پاکستانی
برآمدات1970ء میں200ملین ڈالر تھیں۔ملائشیاء صرف50ملین ڈالر کی برآمدات
کررہا تھا۔ملائشیاء میں مدتوں جمہوری حکومتوں کی وجہ سے اب برآمدات 650۔ارب
ڈالر ہیں۔پاکستان جیسا بڑا ملک ابھی صرف25۔ارب ڈالر پر ہی ہے۔اس طرح اگر ہم
باقی ایشیائی ملکوں کا موازنہ کریں تو پاکستان معاشی لہاظ سے بہت پسماندہ
نظر آتا ہے۔32۔ارب ڈالر کی سرمایہ کاری پاکستان جیسے ملک کے لئے کافی بڑی
تھی۔تمام منصوبے جن کا اوپر ذکر کیاگیا ہے۔وہ اس رقم سے مکمل ہوجاتے تو
معیشت اڑان بھرنے(Take off)کے لئے تیار ہوتی۔لیکن دھرنوں کی وجہ سے چینی
صدر کے دورے کے التوا سے معیشت کے پر کاٹ دیئے گئے ہیں۔دھرنوں کے لیڈر جتنا
چاہیں انکار کریں کہ یہ سرمایہ کاری ہماری وجہ سے ختم نہیں ہوئی۔لیکن ہر
پاکستانی سمجھتا ہے کہ یہ سارا کچھ انہیں 2لیڈروں کی وجہ سے ہوا ہے۔ماضی
میں اتنا بڑا معاشی نقصان کبھی سیاسی لیڈروں کی وجہ سے نہیں ہوا۔پہلے ہم
فوجی آمروں کا ذکر پاکستان کے جغرافیے کی وجہ سے کرتے تھے۔لیکن موجودہ
معاشی نقصان بھی جغرافیائی نقصان سے کم نہیں ہے۔ |