لانگ مارچ اور انقلاب مارچ اپنے منطقی انجام……؟

دھرنے والوں سے مذاکرات اور وزراء کے سخت بیانات کے تبادلے سمجھ سے باہر ہیں۔وزیر اعظم اور وزیر اعلی دھرنوں کے قائدین کو مشورے دے رہے ہیں کہ وہ دھرنے ختم کرکے سیلاب زدگان کی مدد کریں……جواب میں علامہ انقلاب القادری فرماتے ہیں۔ حکمران بتائیں کہ انہوں نے اپنے ذاتی خزانے سے سیلاب زدگان کی کیا خدمت اور مدد کی ہے؟ مطالبات اور الزامات کے سیلابی ریلے اپنی پوری حشر سامانیوں کے ساتھ قوم کی امیدوں کے دیہاتوں کو بلیا میٹ کیے جا رہے ہیں۔ شام محمود قریشی دھرنے کے میدان سے براہ راست میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ معاملات حل ہونے والے ہیں۔قوم جلد خوشخبری سنے گی۔جبکہ عمران خاں اور علامہ انقلاب القادری دھرنے والوں اور قوم کو نوید دیتے ہیں کہ ’’ ستمبر میں حکومت چلی جائیگی۔ اور ہم سب قربانی اپنے اپنے گھروں میں کریں گئے۔

عمران خا ں روزانہ رات کو اعلان کرتے ہیں کہ ہم استعفی لیے بنا نہیں جائیں گے۔ مجھے تحریک انصاف کی اس دو غلی پالیسی سے بڑا دکھ ہوا ہے۔کہ قوم میں دئیے گے یا موجود تاثر کہ عمران سچ بولتا ہے ۔ اور ادھر تحریک انصاف کے وائس چئیرمین شاہ محمود قریشی جو الحمد ﷲ خیر سے ملک کی ایک بہت بڑی درگاہ کے سجادہ نشین ہیں۔ مریدین کی ایک بڑی تعداد کے پیر و مرشد بھی ہیں۔ یقیننا وہ بھی جھوٹ نہیں بولتے ہوں گے۔ ۔ پھر انکے اس بیان سے کیا مطلب لیا جائے کہ مذاکرات کامیابی کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ اور قوم کو جلد خوشخبری دیں گے؟جب مذاکرات اس بات پر منجمند ہیں تو پھر روزانہ مذاکرات کی میز کیوں سجائی جاتی ہے۔میری طرح کے کڑوڑوں محب وطن پاکستانی ایسا ہی سوچتے ہیں۔کہ آخر کب تک یہ چوہے بلی کا کھیل کھیلا جاتا رہے گا؟ کب تک کڑوڑوں پاکستانیوں کے اعصاب شل کیے رکھیں جائیں گے؟
حکومتوں کی تبدیلی کے لیے چلائی گئی تحریکوں ،مظاہروں میں اور دیہاتوں میں ہونے والے میلوں کے موقعہ پر لگائے گئے تھیٹروں کے سٹیج پر پرفارمنس دینے میں بڑا فرق ہوتا ہے۔ اسلام آباد میں ایک ماہ سے جاری دھرنوں کے مظاہروں کے طور طریقے عوامی تھیٹروں سے مختلف نہیں…… عالم لوہار۔بشیر لوہار اور عاشق جٹ کی طرح سٹیج پر گھوم پھر کر…… میوزک کی لے پر تھرک تھرک کر تقریریں کرنے سے انقلاب نہیں آیا کرتے……عوامی تحریکیں دن کو آرام نہیں کرتیں بلکہ وہ تو دم ہی اس وقت لیتی ہیں جب وہ اپنے مقاصد میں کامیابی حاصل کرلیتی ہیں۔لیکن اسلام آباد میں نئے پاکستان کے قیام اور انقلاب کے نام پر جو کچھ ہو رہا ہے سمجھ سے بالا تر ہے۔

ذرا سے معاملات کے حل کی امید پیدا ہوتی ہے تو علامہ انقلاب القادری کو خواب میں حکومت رخصت ہوتی دکھائی دیتی ہے اور وہ صبح اپنے لشکریوں کو نوید دیتے ہیں کہ ستمبر میں حکومت ختم ہو جائے گی اور ہم قربانی اپنے اپنے گھروں میں کریں گے……علامہ انقلاب القادری کے خوابوں کے متعلق بہت پیارا تبصرہ اپنے باغی فیم مخدوم جاوید ہاشمی نے کیا ہے۔وہ کہتے ہیں ’’مجھے علامہ انقلاب القادری نے اپنی جماعت میں شمولیت کی دعوت دیتے ہوئے کہا تھا کہ میں وزیر اعظم ہوں گا۔لیکن میں نے انہیں جواب میں کہا کہ اگر آپ کو کسی روز خواب میں پتا چلا کہ میں مرتد ہو گیا ہوں تو میرا تو کام ہوگیاناں……اس لیے سوری‘‘
مطلب میرا یہ ہے کہ صورت حال کی اندرونی کیفیت کیا ہے؟ کوئی تو ہو جو قوم کو سچ سے آگاہ کرے۔ اگر مذاکرات وزیر اعظم کے استعفی پر لٹکے ہوئے ہیں تو پھر مذاکرات اور مذاکرات کرنے والوں کی آنی جانیاں کیا عوام کو بے وقوف بنانے کے لیے ہیں؟

حکومت مذاکرات کو طول دیکر دھرنے والوں کے اعصاب شل کرنے کرنے خواہاں ہیں تو انکے لیڈر اور میزبان اپنے دعووں اور لچھے دار تقریروں سے انکے حوصلے بلند کرکے حکومت کے اعصاب پر سوار رہنا چاہتے ہیں…… دونوں طرف کے اداکاروں سے کہنا چاہتا ہوں کہ وہ ایک دوسرے کے اعصاب کا امتحان لیتے لیتے عوام اور پاکستان کا امتحان لینے سے باز رہیں……ایسا نہ ہو کہ مذاکرات مذاکرات کھیلتے ہوئے آپ دونوں پاکستان اور جمہوریت کے مستقبل سے ہی کھیل جائیں……بیس پچیس دن عید قرباں میں باقی رہ گئے ہیں۔ دیکھتے ہیں کہ کون کس کا دھرن تحتہ کرنے میں سبقت لیجاتاہے…… مقدر کا سکندر حکمران قرار پاتے ہیں یا مسٹر کنٹینرز ،علامہ انقلاب القادری فاتح اسلام آباد بن کر لوٹتے ہیں؟ ایک کو تو برحال شکست سے’’ گھٹ کے جھپی‘‘ ڈالنی ہوگی……

اسلام آباد میں دھرنے کے شرکاء کی دہشت گردی ایکٹ تحت گرفتاریوں کے حوالے سے نئی ہونے والی ڈیویلپمنٹ سے حالات نئی کروٹ لیتے دکھائی دیتے ہیں۔علامہ انقلاب القادری نے حکومت سے مذاکرات معطل کرنے کا اعلان کیا ہے……دوسری طرف پاک فوج کے ترجمان صاور آئی ایس پی آر کے ڈی جی جناب عاصم باجوہ نے پاک فوج کے اس موقف کا ایکبار پھر اعادہ کیا ہے کہ’’ فوج آئین اور جمہوریت کے ساتھ ہے ۔ اور فوج کا ملک کی موجودہ سیاسی صورت حال سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔‘‘تیسری جانب تحریک انصاف سے معاملات طے پانے کے آثار نمایاں ہونے کی خبریں بھی گردش میں ہیں۔ اس نئی ڈیویلپمنٹ سے لگتا ہے کہ حکومت نے دھرنے والوں سے دو دو ہاتھ کرنے کی ٹھان لی ہے۔اب قوی امید پیدا ہونے لگی ہے کہ عید سے پہلے پہلے اسلام آباد سے لشکری واپس آ جائیں گے۔ اور دل و دماغ پر لگنے والے زخموں پر’’ گرم روڑوں کی ٹکور‘‘ کریں گے۔اور ساتھ میں گرم دودھ میں ہلدی ملاکر پئیں گے تاکہ زخموں کے درد سے افاقہ ہو……بے وقت کی راگنیوں کا اور ضدی پن کے مظاہروں کا ایسا ہی انجام ہوتا ہے۔

Anwer Abbas Anwer
About the Author: Anwer Abbas Anwer Read More Articles by Anwer Abbas Anwer: 203 Articles with 161121 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.