موروثی امراض سے شفاء کاملہ کی طرف آئیں

تپ دق کا مریض حکیم صاحب کے پاس گیا۔ حکیم صاحب نے مریض کے والدین بارے دریافت کیا کہ کیا انہیں بھی یہ مرض تھا، جواب ملا جی ہاں۔ پھر سوال کیا تمہارے نانکے دادکے میں بھی کیا یہ مرض تھا اس نے بتایا کہ اسکے دادا دادی اور نانا نانی بھی اسی مرض میں تازیست مبتلارہے ۔ایک اور دل کا مریض تھااس سے بھی ایسے ہی سوالات کیئے گئے اور ایسے ہی جوابات ملے۔ حکیم صاحب نے کہا کہ یہ تمام بیماریاں ذہنی دباؤ کا نتیجہ ہیں۔ جب انسان اپنی ہزاروں خواہشوں کے برآنے پر بھی مطمئن نہیں ہوتااور مزید کے حصول کا روگ دل میں لے بیٹھتا ہے تو اسے اختلاج قلب اور تپ دق جیسے امراض ہی ملتے ہیں۔ ہمارے ملک میں موروثی امراض بھی ایسے ہیں کہ انکی تعداد اﷲ ہی جانتا ہے۔ ان میں سے کچھ امراض کی تشخیص اور علاج کے بارے جرات رندانہ کروں گا۔ اخیارو اغیارکی جانب سے سنگ باری کا امکان بھی ہے۔ تاہم حق بات کہتے ہوئے ان خطرات کو ملحوظ خاطر نہیں لایا کرتے۔ ایسے موروثی امراض سے ہمارا معاشرہ تباہ ہوچکا ہے۔ ایک مرض تو سیاست ہے۔ پاکستان بننے کے بعد انگریز کا مراعات یافتہ یا مراعات یافتوں کا طفیلی ایک دفعہ عوام کی بھول چوک سے عوامی نمائیندگی کے کسی منصب پر فائز ہوگیا تو بس اس کا نام سیاست دان پڑگیا۔ اس نے اپنی سیاست کے استحکام کے لیئے اپنے گروپ لیڈر کو مجازی خدا بنالیا۔ پھر انفرادی اور اجتماعی حیثیت میں زمینوں پر قبضے کیئے جبکہ کئی خاندان تو فرنگی کی وفاداری کا صلہ نوازشات کے نتیجہ میں پہلے سے ہی سردار،چوہدری، نواب اور وڈیرے تھے۔ سرکاری زمینیں لیزپرکوڑیوں داموں حاصل کیں۔ اسکے دو فائدے ہوئے آمدن میں اضافہ اور زمینوں پر کام کرنے والے ہاریوں کے پکے ووٹ۔ یہ تجربہ بہت کامیاب ہے۔ کچھ لوگوں نے سرکاری خزانے سے ملیں لگانے اور ملک کو ترقی دینے کے نام پر کروڑوں اربوں روپے لیئے۔ ان بھاری رقومات کو ہڑپ کرنے کے لیئے آئین کے تحت قانون سازی کی گئی۔ سرکاری خزانے سے حاصل کردہ رقم سے ذاتی کارخانے لگائے گئے اور جن پراجیکٹس کے نام پر لیئے گئے اس رقم میں سے بیوروکریٹس کو کچھ حصہ دے کر کارخانہ کو دیوالیہ قرار دلاکر قرضہ معاف کرالیا ۔ صنعت کاروں نے شروع شروع میں تو اپنی سیاست کو مضبوط کیا مگر کارخانوں میں کام کرنے والے مزدوروں نے ضمیر فروشی نہ کی ۔ اس طرح رفتہ رفتہ صنعت کار کی سیاست ماند پڑگئی۔ لیکن اس میں ایک نئی راہ تلاش کرلی گئی ۔ بڑے صنعتکاروں نے معقول معاوضہ کے بدلے عوام کے مینڈیت سے سودا کیا۔ سیاستدان کے مرنے پر اسکا بیٹا گدی نشین ہوا، اب یہ کام نسل درنسل جاری ہے۔ جس طرح سعودی عرب میں آل سعود کے افراد جملہ حکومتی مناصب پر جلوہ افروز ہیں بعینہ ہمارے ملک میں اسکے جلوے نظر آتے ہیں۔ وزیراعظم ،صدر، گورنرکے بھائی، بیٹے،بھتیجے، بھانجے، بیٹیاں، بیگمات، سمدھی،داماد،پھر بہوؤں کے خاندان بھی استحقاق رکھتے ہیں۔مری میں گرل فرینڈز کا معاملہ علیحدہ ہے۔ پہلے لوگ اپنی برادری میں رشتے کیا کرتے تھے۔ پاکستان میں سیاسی خاندانوں کے جنم سے برادری میں رشتے کرنے کا رواج بہت حد تک ختم ہوگیا ہے۔ موجودہ پارلیمنٹ بھی اسی عمل کا مثالی نمونہ ہے۔ ملک کے اقتصادی وسائل پر اسی طائفہ کا قبضہ ہے۔ زرعی اجناس، پھل،سبزیاں عوام کے لیئے انتہائی مہنگی، کارخانوں کی پیداوار بھی اسی طائفہ کے پاس ہونے کی وجہ سے عوام سے من مانے دام وصول کرتے ہیں۔ دوسری طرف تیل اور اسکی مصنوعات کے ٹھیکے بھی اراکین پارلیمنٹ کے پاس ہیں۔ لوٹ مار اور اپنے کاروبار کی وسعت کے لیئے قومی خزانے کو پدری وراثت سمجھ کر بے دریغ استعمال کیا جا رہاہے۔ لٹیرا طائفہ ہزاروں میں ہوکر کروڑوں کو زندہ درگور کررہا ہے۔ عوام کا عرصہ حیات تنگ کردیا ہے۔ اراکین پارلیمنٹ کی بدولت آج کتنے لوگ سیلاب سے تباہ ہوگئے، شہید ہوگئے، بے خانماں و بے سروساما ں ہوگئے۔ اندریں حالات ہاتھ اوپر اٹھتے ہیں اور اپنے رب سے ہی مدد کے طلبگار ہیں۔ ستم بالائے ستم کہ وزیر اعلیٰ شہباز شریف کے متاثرہ علاقوں کے دورے کاشیڈول ملتے ہی ضلعی انتظامیہ وزیر اعلیٰ کی خوشنودی کے حصول کے لیئے متحرک ہوجاتی ہے۔ وزیر اعلیٰ انتظامیہ کے فراہم کردہ افراد کو کچھ سامان عنائت فرماتے، ٹی وی کیمرہ سے استفادہ کرتے واپس اور ساتھ ہی تمام امدادی سامان ضلعی افسران، اہلکاران اور سیاسی رہنماؤں کی نذرہورہاہے۔ بعض مقامات پر تو ایسا بھی ہوا کہ وزیراعلیٰ کا دورہ منسوخ ہوا اور موقع پر پہنچا ہوا سامان جوں کا توں ضلعی افسران اور منتخب عوامی نمائندگان کے گھروں میں پہنچا دیاگیالیکن یہ حرام خوری میڈیا کے ٹی وی کیمروں سے پوشیدہ نہ رہ سکی۔ امدادی سامان خیراتی سامان ہے اسے ہڑپ کرنے والے بڑے حرام خور ہیں۔ کھلے آسمان تلے پڑی عوام سسک رہی ہے۔ خادم اعلیٰ فرماتے ہیں ایک پائی امانت سمجھ کر خرچ کی جائے۔ محترم آپنے پائی کو امانت فرمایا اور اربوں کھربوں روپیہ خزانے کا جو شریف فیملی نے لیا کیا وہ قوم کی امانت نہیں؟ سیلاب زدگان کا امداد ی سامان جو آپکی جماعت کے لوگوں اور انتظامیہ کے گھروں میں چلاگیا اور جارہاہے ، اسکے بارے بھی کچھ ارشاد فرمائیں۔درحقیقت سیلاب ایک بہت بڑی آزمائش ہے۔ اﷲ تعالیٰ کی سنت ہے کہ وہ لوگوں کے اعمال کے اظہار کے لیئے انہیں فتنوں میں مبتلا کرتا ہے۔ لوگوں کی بداعمالیوں کے چرچوں کو عام کرنے کے لیئے خالق کائنات نے میڈیا کے مختلف الاقسام شعبوں کو وجود دیا۔ اب انتہائی پوشید کرتوت سرعام میڈیا پر نشر ہورہے ہیں اور سادہ لوح عوام حکمرانوں اور اشرافیہ کی غیر انسانی ،غیر اسلامی اور غیر اخلاقی کاروائیاں دیکھ کر ان سے متنفر ہوچکے ہیں۔عوامی لاوہ پھٹنے کو ہے جو ظالموں ،لٹیروں اور عوام کا استحصال کرنے والوں کو کیفرکردار تک پہنچائے گا۔بہتر ہے کہ وہ اپنی کامل اصلاح کرلیں۔
AKBAR HUSAIN HASHMI
About the Author: AKBAR HUSAIN HASHMI Read More Articles by AKBAR HUSAIN HASHMI: 146 Articles with 140908 views BELONG TO HASHMI FAMILY.. View More