نوجوانوں کی قرضہ سکیم

تحریر: نیاز مند کاظمی

ہمارے مقتدر طبقہ کے دماغ شاید کسی بالا جہان میں کام کرتے ہیں اور انہیں اپنے وطن ، قوم کے، مظلوم ، بے نوا، لاچار و بے بس عوام کے تلخ حقائق نظر نہیں آتے ……………… ہمارے حکمران اس طرح دھواں دھار تقریریں کرتے اور اعلانات کرتے نظر آتے ہیں جیسے ان کی جنبش انگشت سے بس ملک و وطن میں تو کیا پورے جہاں میں دودھ و شہد کی نہریں بہہ جائیں گی ……………… ’’ وزیراعظم قرضہ سکیم‘’ ایک ایسا ہی ’’ ہُوا‘‘ نظر آتا ہے، جو اپنی افادیت میں مکمل ڈھکوسلہ ہے اور اس کا زمینی حقائق سے کسی بھی قسم کا کوئی تعلق نظر نہیں آتا ……………… ایسا لگتا ہے کہ جیسے ہمارے حکمران پرستان کے حکمران ہیں اور ملک کے نواجوان اس پرستان کے شہزادے ……………… اور …………………… اور …………………… ان پرستان کے شہزادوں کو حکمرانوں کے غیر حقیقی ، احمقانہ، مضحکہ خیز اعلانات سے افسر شاہی سر آنکھوں پر بٹھا لے گی او رانہیں دھڑا دھڑ وزیراعظم کے قرضہ سکیم سے قرضے ملنے شروع ہو جائیں گے ……………… ایسا لگتا ہے کہ ہمارے حکمران سٹھیا گئے ہیں اور اس قدر اندھے پن کا شکار ہیں کہ انہیں د ن کی چکا چوند روشنی میں بھی ہر سو اندھیری رات ہی نظر آتی ہے۔ پی پی پی کے گزشتہ دور میں بے چارے، لاچار ، بے بس و بھوکے ننگے ہڈیوں کے ڈھانچے بنے مظلوم و بے نوا طبقہ سے ایسا ہی سلوک کیاگیا اور انہیں’’ وسیلہ حق پروگرام‘‘، ’’بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام‘‘ جیسے ڈھکوسلوں سے تنگ و پریشان کیاگیا۔ اسی اسی، نوے نوے سالہ بوڑھی عورتیں اور بوڑھے مرد دفتروں کے چکرل گا لگا کر عاجز آگئے۔ لاٹھیاں ٹیکتے اونگھ اونگھ کر پھولے ہوئے سانس کے ساتھ چلتے جب وہ بے نظیر انکم سپورٹس پروگرام کے دفتر پہنچتے تو انہیں وہاں سے بے عزت کرکے دھتکار دیا جاتا ……………… یہ بوڑھے اور بڑھیائیں روتی، سسکیاں بھرتی جب حکمرانوں کو بددعائیں دیتیں تو زمین کانپ کانپ جاتی ……………… اور وہ کچھ لینے کے بجائے سفر ی اخراجات کی مد میں اپنی دھیاڑیاں ضائع کرنے کے علاوہ اپنی جمع شدہ پونجی بھی گنوا بیٹھتے۔

حکمران سمجھ رہے تھے کہ انہوں نے عوامی فلاحی کے پروگرام کے ذریعے عوام کی خدمت کی ہے حالانکہ یہ خدمت ہرگز نہ تھی بلکہ عوام پر ایک عذاب مسلط کیاگیا تھا۔

دراصل ’ ’ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام‘’ اور ’’ وسیلہ حق پروگرام‘‘ مفقود العقل شخص کی اختراع تھی اور اب ایک ایسی ہی اختراع ’’ وزیراعظم کی قرضہ سکیم‘’ کے نام سے نیا لبادہ پہن کر پھر منظر عام پر آگئی ہے ………………حکمرانوں کو یہ تک نظر نہیں آتا کہ اول تو یہ قرضہ کسی اصل مستحق کو کسی صورت مل ہی نہیں پاتا ……………… اگرملے بھی، تو یہ بہت طویل اورپیچیدہ اور مہنگے عمل سے ملے گا وہ بھی چند خوش نصیبوں کو ……………… وگرنہ ملک میں جو بے روزگاری کا سیلاب ہے ، اس کو دیکھتے ہوئے یہ قرضہ سکیم اونٹ کے منہ میں زیرے کے علاوہ کچھ نہیں ہے………………

میر ے وطن کے سادہ لوح باسی ……………… ان پرستان کے حکمرانوں سے کیوں آس لگائے بیٹھے ہیں!……………… کیوں ان کی تعریف و توصیف میں رطب اللسان رہتے ہیں! ……………… ان میں سے کوئی بھی عوام کا ، ملک و ملت کا خیر خواہ نہیں ہے ……………… نہ قادری ، نہ تحریک انصاف کے مقتدر لوگ اور نہ ن لیگ ……………… یہ سب ایک ہی تھیلے کے کھوٹے سکے ہیں……………… کبھی کس چال سے اورکبھی کس حیلے سے سادہ لوح عوام کو ورغلاتے ہیں……………… ان سے ٹھگاکرتے ہیں ……………… ان کے پاس ایسی کوئی سوچ ، لائحہ عمل اور عظمت کردار نہیں ہے جو عوام کی قسمت بدل دے………………

غریب آدمی، بے نوا آدمی نادار آدمی بہت ہی غریب ہوتا ہے۔ بمشکل دن دن گزارتا ہے۔ لاکھوں کروڑوں لوگوں کو دو وقت کی روٹی نصیب نہیں ہوتی ۔ قلت غذا سے لوگ طرح طرح کی بیماریوں کا شکارہوکر موت سے ہم آغوش ہو رہے ہیں۔بھلا ایک غریب آدمی کو ’’ وزیراعظم قرضہ سکیم‘‘ سے استفادہ کون کرنے دے گا؟؟؟ ……………… پٹواری جو زمین کی قیمت کا تعین کرتا ہے ……………… اس کی فیس ہزاروں میں ہے……………… بھلا غریب آدمی وہ رقم کہاں سے لائے گا؟؟؟……………… دیگر جو شرائط ہیں ، ان کے کاغذات تیار کروانے پر ہزاروں روپے کا خرچہ آتا ہے ………………بھلا کوئی تو بتاؤ یہ پیسے غریب کو کون دے گا؟؟ ……………… ڈی سی آفس کی NOC ، NEC بھلا مفت بنتی ہے؟ یا ڈی سی آفس کے اہلکار اور دیگر رپورٹس تیار کرنے والے لوگ ’’غریب ‘‘ کے چاچا ، مامالگتے ہیں جو اس سے رقم نہیں اینٹھیں گے!!……………… بھلا وزیراعظم کی قرضہ سکیم کے پالیسی سازوں نے ان حقائق کو پیش نظر رکھا ؟؟؟ ……………… ہرگز نہیں ……………… ایسالگتاہے کہ یہ بالادست لوگ اپنے دل و دماغ کہیں گروی چھوڑ آئے ہیں ……………… او راپنے سر کے خالی استخوان بجا بجا کر عوام کو تماشا دکھا رہے ہیں۔

مخلص لیڈر ، عوام کا خیر خواہ لیڈر عوام کو قرضے نہیں دیتا، وہ عطیہ دیتا ہے۔ اگر جاگیردار ہے تو اپنی جاگیر بانٹتا ہے……………… اگر صنعت کار ہے تو اپنی صنعتیں بانٹتا ہے ……………… مفت تقسیم کرتا ہے ……………… اگر سرمایہ دار ہے تو اپناسرمایہ بانٹتا ہے ……………… پہلی صدی ہجری میں مسلمانو ں کا یہی وتیرہ رہا ہے ۔

ہمارے قرن اولیٰ کے اسلاف نے سودی قرضہ سکیمیں شروع کرکے لوگوں کی گردنیں نہیں دبوچی ہیں۔ سچا لیڈر افراد کو لینے والا نہیں بلکہ دینے والا بناتا ہے ……………… سچے لیڈر کا کچھ اورہی انداز و طریقہ ہوتا ہے ……………… وطن عزیز میں جب کوئی باریک بین آدمی سیاسی لیڈروں کے طور طریقوں ، انداز واطوار اور لچھنوں کو دیکھتا ہے تو اسے ہر سو دور دور تک کانٹوں کی کھیتی ہی نظر آتی ہے ……………… کانٹوں بھرے ریگزار میں اسے ہریالی کی ایک بھی کونپل نظر نہیں آتی۔ اسے مقتدر طبقہ میں کوئی ایک فرد بھی ایسا نظر نہیں ااتا کہ جس کی شخصی عظمت کی چھاؤں میں قوم دم لینے کے لیے سستا سکے ……………… اور چند گھڑیاں اطمینان کی گزار سکے۔

اس مقتدرطبقے کو یہ تک بھی نہیں سوجھتا کہ ہمارے ادارے اس قابل نہیں ہیں کہ وہ غریب و بے نوا مجبور وبے بس طبقہ کے لیے کسی فلاحی پالیسی کا نفاذ کرکے اس کے ثمرات ان تک پہنچا سکیں ……………… گھوم پھر کر بات بیوروکریسی تک پہنچتی ہے اور بیورو کریسی اپنے مخصوص مزاج و فطرت کی بدولت اس پالیسی اور منصوبہ کے ثمرات کو نچوڑ کر اسے کھوکھلا کر دیتی ہے اور تمام فلاحی سکیموں کے ثمرات خود ہڑپ کرلیتی ہے ……………… وزیراعظم کی قرضہ سکیم کا بڑا غلغلہ ہے، لیکن یہ عقل و فہم کی پٹری سے اترے ہوئے کسی شخص کی اختراع ہے اور وقت یہ ثابت کر دے گا۔
Safeer Raza
About the Author: Safeer Raza Read More Articles by Safeer Raza: 44 Articles with 48167 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.