’روحِ انقلاب‘ نظم وغزل کے شاعر
اور شاگردِ جوش زاہد کلیم کی نعتیہ مسدس ہے۔اس کی کتابت جمیل
الحسن(تلمیذسیدانورحسین نفیس رقم)نے کی ہے اور اس شعری مجموعے کی پہلی خوبی
یہ ہے کہ ا س میں کتابت کی کوئی غلطی نہیں۔زاہد کلیم نظم وغزل کے نامورشاعر
محمدخاں نشترکے صاحبزادے ہیں ۔ان کی اس مسدس کو پڑھ کر ذہن علامہ اقبال کی
مسدس ’شکوہ‘ اور ’جواب شکوہ‘ کی طرف مڑتا ہے اور زاہد کلیم کا تاریخی
شعوربھی سامنے آتا ہے۔ماضی میں انسانی تاریخ کی غلام گردشوں سے گزرتے ہوئے
زاہد اسلام کے عروج وزوال کی داستانیں سمیٹتے آج کے اس دورفتن تک آتے ہیں
اورانقلابِ محمدی ؐکی چاپ اس قدرقریب سے آتی ہے کہ بے اختیاردل چاہتا ہے کہ
چودہ صدیوں کا فاصلہ لمحوں میں طے کرتے ہوئے اس ماحول میں جاپہنچیں جس کی
عکاسی زاہد نے کی ہے۔میں اس مسدس کو لسانی حوالے سے جانچناچاہتا ہوں اور
کہیں کہیں اقبال اور زاہد کی مسدس کا تقابل بھی کیا ہے ۔مجھے اس مسدس میں
زاہد کی تراکیب سازی نے متاثر کیا ہے جن میں انھوں نے تلمیحات ،استعارات،تشبیہات
اور علامات کو کمال خوبصورتی سے پرو دیا ہے۔علامہ اقبال کی مسدس کا صرف ایک
بندلیتے ہیں
امتیں گلشنِ ہستی میں ثمرچیدہ بھی ہیں
اورمحرومِ ثمربھی ہیں،خزاں دیدہ بھی ہیں
سیکڑوں نخل ہیں،کاہیدہ بھی،بالیدہ بھی ہیں
سیکڑوں بطنِ چمن میں ابھی پوشیدہ بھی ہیں
نخلِ اسلام نمونہ ہے بردمندی کا
پھل ہے یہ سیکڑوں صدیوں کی چمن بندی کا
اور زاہدکلیم کی مسدس سے ایک بندملاحظہ ہو
چمکا چراغِ عقل سے ہر جادۂ حیات
ظاہر ہوئی حقیقتِ ارژنگِ کائنات
معدوم ہو کے رہ گیا بحرِ تعصبات
پامال ہو کے رہ گیا ہر اک زبوں صفات
ذہن وذکا پہ غایتِ ارض وسما کھلی
دوشِ عمل پہ علم کی زلفِ رسا کھلی
دونوں بندوں کے مطالعے سے اشعارمیں تراکیب کا خوب صورت استعمال نظرآتا ہے
اور یہی خوبصورتی زاہدکلیم کی اس پوری مسدس میں نظر آتی ہے۔زاہد کی اس
نعتیہ مسدس کے ایک سوبیس بند ہیں ۔شاعر نے اس کو چارحصوں میں تقسیم کیا
ہے۔روحِ انقلاب،ذوق وشوق،لعل فشاں صباخرام اور عالمِ شوق۔زاہدکلیم نے اس
خوب صورت مسدس میں جو تراکیب استعمال کی ہیں ان دیکھ کر آپ اندازہ کر سکتے
ہیں کہ زاہد نے کلاسک سے اپنا رابطہ استواررکھتے ہوئے اپنے خیالات کو کمال
مہارت سے بیان کیا ہے۔ان تراکیب میں سے بعض نئی ہیں اور اردوزبان کے دامن
کو وسیع کرتی ہیں ۔ان تراکیب سے زاہدکلیم کی لفظیات کا مطالعہ بھی کیا
جاسکتا ہے۔ان تراکیب کی تعدادچارسوسے زیادہ ہے۔اس قدرتراکیب کا استعمال
اقبال کے ہاں تو ہے لیکن حالی کے ہاں نہیں ۔زاہد نے مرکب تراکیب کا استعمال
بھی کیا ہے جیسے سرِ کوہِ طور اور یہ بھی اقبال کے ہاں ملتا ہے جیسے محوِ
غمِ دوش۔زاہدکلیم کی ان تراکیب میں اجنبی الفاظ کی آمیزش نہیں اور سمجھنے
میں بھی آسانی محسوس ہوتی ہے۔زاہدنے ترکیب کے اندرتلمیح کو پرونے کا
خوبصورت تجربہ کیا ہے جیسے جیحونِ انتشار۔
کچھ تراکیب نذر قارئین ہیں۔تب وتابِ زندگی،گلبانگِ بے خودی،اسبابِ
ظاہری،ربابِ وہم وگماں،سحرِجانکنی،گلِ تر،شورِ نشاط،ابرِبہار،افسونِ جاں
کنی،چشمانِ تر،وقتِ گریزاں،آبِ بقا،اہلِ جہاں،بادِ صبا،اشکِ غم،خونِ رگِ
جاں،خنجرِ براں،رخشِ ظلم وستم،نیرنگِ روزگار،نوکِ خار،شیرِ نر،آوازِ
الاماں،آوازِ جاں نواز،خواب گاہ ِ ناز،نذرِ سمومِ غم،گلستانِ عیشِ دل،تہِ
نقاب،تاریخِ روزگار،نخلِ تمنا،زہرِ قہر،موج ِ مئے غدیر،داستانِ عمرِ
دوروزہ،زیرِ آسماں،کشتِ شکوہ،قعرِ حکومت،افراطِ زر،دستورِ ظلم،رسمِ
شقاوت،صحنِ زمیں،ضمیرِ زندہ،عرفانِ زندگی،دیوِ توحش،دستِ حنانواز،آوازِ جاں
گداز،عصفورِ گل بدن،برقِ ظلم،برسرِبازار،آتشِ دوزخ،بزم ِ ہست
وبود،دورِفلک،دولتِ برق وشرار،تیغِ ستم ہائے روزگار،میدانِ زندگی،زندانِ
تنگ وتاروغیرہ۔
اب اگر ’روحِ انقلاب‘ کا مختصرمطالعہ کیا جائے تو زاہد کلیم نے اس کا آغاز
انسانی زندگی کی بے مقصدیت سے کیا ہے۔قوموں کی زندگی میں مقصد ہی ان کے
مستقبل کا تعین کرتا ہے۔جو انقلاب محمدؐعربی لے کر آئے وہ انسانوں کو ایک
مقصدیت اور وقت کی قدرسکھاتا ہے۔یہ انقلاب تھا بھی time oriented یعنی صرف
۲۳سال کی مختصر مدت میں مکمل ہوگیا۔جزیرہ عرب اس نورسے جگمگا اٹھا اور پھر
جو توسیع شروع ہوئی تو افریقہ،یورپ اور ایشیاتک پہنچ گیا۔لیکن اچانک یہ پیش
قدمی رک گئی کہ میرِ کاررواں مقصدکو بھولنے لگے اور دنیادی عیاشی ہی میں
مگن ہوگئے اور منزل کو کھو بیٹھے۔اگرچہ اس مال وزرنے ان کو دیاکچھ نہیں کہ
خاکستری ہے کچھ نہیں دنیا کا مال وزر
کس سمت جا رہا ہے کوئی،کیا کسے خبر؟
ہماری اس تگ وتاز سے دنیاے ہست وبود میں سکون ختم ہوگیا۔ایک واضح نصب العین
بھلانے کے بعد رنگ ونسل وعلاقہ اور دولت کے بت ہمارا مقدربن گئے۔سکون ختم
ہوا۔وقت کی قدرنہ رہی۔ہمارے سامنے تہذیبیں عروج کی جانب گامزن ہوتی رہیں۔ہم
کو اس کا احساس نہ تھا۔اس بے حسی نے ہماراسماجی نظام تلپٹ کردیا۔ہرسطح پر
بے حسی اور بے قدری چھاگئی۔انسان نفس کے کتے ہوگئے۔
جاتے ہیں سوئے شیب جوانی کے قافلے
کس کی مجال؟وقتِ گریزاں کو روک لے
ہم نے اس غریب وسادہ ورنگین تہذیب کی قدرنہ کی کہ ہم اس انقلابِ محمدیؐ کی
حقیقتوں کے قدرشناس ہی نہ تھے۔اس انقلاب نے ان کی زندگیوں کو تبدیل کیا
جوتبدیلی چاہتے تھے اور ہم تو کسی تبدیلی کے خواہش مند ہی نہیں۔زاہد کلیم
کا تاریخی شعوربھی اس مقام پر سامنے آتا ہے۔ وہ تاریخ کے انقلابات کو
تراکیب واستعارات و تلمیحات کی صورت میں پروتے چلے گئے ہیں۔انھوں نے ان
تمام تبدیلیوں کا تذکرہ کیا ہے جو عرب سماج میں آئیں۔ایک نیا آئین بنا۔نئی
اقدار سامنے آئیں۔یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ انسان ناآسودہ خواہشات کے
طلسم میں اسیررہتا ہے۔اناپرستی اس کو حقائق کا شعورہی نہیں کرنے دیتی۔یہی
حال اس دورکے انسان کا تھا۔وہ جو ایک دوسرے کے خون کا پیاسا تھا اور صرف
گھوڑا آگے بڑھانے پر عشروں جنگیں کرتا،تویہ سب اناپرستی نہ تھی تو کیا
تھی۔انسان نے اپنے راحت وسکون کے لیے محل تعمیر کیے،دولت کے انبارلگائے
لیکن سکون اس سے دور ہی رہا۔حرص وہوس نے سوچنے کی صلاحیتوں کو سلب ہی کیے
رکھا۔محبت اور وفا نام کو نہ رہی۔تعصب،عدم رواداری اور فرقہ پرستی نے انسان
کو انسان کے خون کا پیاسا بنا دیا۔
ان حالات میں اصلاح کاروں کو تختہ دار پر لٹکایا گیا،پس دیوارزنداں کیا
گیا۔دنیاتاریکیوں میں ڈوب گئی۔دنیاجب ظلم وجبرکے اندھیروں میں ڈوب گئی تو
مشیت ایزدی کو پھران پر رحم آیااور محمدؐعربی تشریف لائے۔زاہد کلیم نے
والہانہ انداز میں آمد مصطفٰے ؐ کو بیان کیا ہے اوریہ اظہار بہت کم شعراء
کے ہاں ملتا ہے۔یہ انداز صرف عقیدت کو بیان نہیں کرتا بلکہ اس کے ساتھ ساتھ
اس مقصدیت کو سامنے لاتا ہے جو اس رسالت کی صورت میں سامنے آئی۔آپؐ مساوات
لے کر آئے،اوہام کے چراغ گل کرنے اور علم کی تحریک لے کر آئے۔ایوانِ ظلم
وجورکو مسمار کرنے اور انسانوں کو انسانوں کی غلامی سے نکال کر اﷲ کی غلامی
میں دینے کے لیے آپؐ آئے۔
ظلمت کدوں کو نور کا آغوش کردیا
محمود کو ایاز کا ہمدوش کردیا
صحرائے بے گیاہ کو ، گل پوش کردیا
اوہام کے چراغ کو خاموش کردیا
حکمت سے جس کی دامنِ شب چاک ہو گیا
حرص و ہوا سے صحنِ زمیں پاک ہوگیا
آپؐ کے آنے سے انسانیت کا وقار قائم ہوا۔بے توقیر انسان باتوقیرہوا۔انسانی
زندگی جنسِ معتبرقرارپائی۔حراسے نکلنے والے انقلاب نے پوری دنیا کو لپیٹ
میں لے لیا۔مشرق ومغرب اس انقلاب کے نور سے جگمگا اٹھے۔انسان نے سکون کا
سانس لیا۔
انسانیت کا دہر میں قائم ہوا وقار
پائے نخیلِ امن وشرافت نے برگ وبار
ہرسنگ ریزہ بن گیا یاقوتِ آبدار
شاخیں ہلیں،چمن کھلا ، رقصاں ہوئی بہار
بدلا نظامِ دہر ، درخشاں ہوئے علوم
ذرے زمیں کے نازسے بننے لگے نجوم
عقائدِ کہنہ میں زلزلہ آیا۔وہ جو اپنے جیسے انسانوں کے سامنے جھکتے تھے اب
وہ صرف ایک اﷲ کے سامنے جھکنے لگے۔جو ایک دوسرے کی جان ومال اور عزت
وآبروکے درپے تھے وہ اب ایک دوسرے کے محافظ بن گئے۔تاہم اس انقلاب نے
معاشرے کو حق اور باطل کی بنیاد پر دو حصوں میں تقسیم کردیا۔حق غالب آیا
لیکن دھیرے دھیرے انقلاب کی گرفت سماج پر کمزورپڑتی گئی اور جہل دوبارہ
چھانے لگا۔اب اہل شعورہی بے شعور ہو گئے۔تہذیب ہی تخریب میں ڈوبنے
لگی۔شریعت کی پیروی ختم ہوئی اور قرآن طاقِ نصیاں بن گیا۔یہ وہ دورتھا جب
مسلمانوں کی حالت یہ ہو گئی کہ
پابندشرع کے ہونہ صوم و صلوٰت کے
مردوں کو مانتے ہو وسیلے نجات کے
اسرارتم پہ کھل نہ سکے کائنات کے
پاؤں اکھڑگئے ہیں تمھارے ثبات کے
لیکن ، ہزارحیف کہ ، اب تک خبرنہیں
اپنی تباہیوں پہ تمھاری نظر نہیں
اس دورمیں صرف منصب ومرتبہ مقصدحیات رہ گیا۔نوجوان علم وادب سے دوراور
عیاشیوں کے قریب ہوگیا۔اس حالت میں کسی قوم کی حالت کیسے سنورسکتی تھی۔اس
دورفتن میں سیاست عیاریوں کا نام قرارپائی ۔جھوٹ سیاست کا مرکزہ بن
گیا۔عریانیت اب جزوثقافت تھی۔رشوت اور دھونس دھاندلی کو تجارت قراردیا
گیا۔بے جا تصرفات اب حاجت قرارپائے۔یہ عجب دورتھا جس میں غیروں سے تعلقات
گوارااور اپنوں سے ناگوارتھے۔چھوٹی چھوٹی باتوں پر اختلافات نے سماج کا حسن
گہنا دیا۔غیبت فیشن بن گئی اور حمیت و غیرت نام کی چیزنہ رہی۔شرافت گالی بن
گئی۔معاشرے کے لٹیرے امام قرارپائے۔باطل کو حق،حق کو باطل،سچ کو جھوٹ اور
جھوٹ کو سچ ، معیارزندگی قراردیا گیا۔
ذلت کے درپہ خم سرِ تسلیم ہو گئے
تم رنگ ونسل وخون میں تقسیم ہوگئے
ان حالات میں قوم میں تجزیے کی کسوٹی کہاں سے آئے۔زندگی کیا ہے،ہم کون
تھے،کیا ہو گئے،ہمارااور ہماری نئی نسل کا مستقبل کیا ہوگا۔اس طرح کے
سوالات عیاشیوں میں کہاں ذہن میں آتے ہیں۔دورکہیں سے صداآرہی ہے کہ
دیکھو،اجڑچکی ہے ہراک مسند ِخیال
اٹھوکہ،بزمِ عیش ہوئی عرصہء قتال
ہشیار،نغمہ اوج کا ہے نوحہء زوال
چونکوکہ،موت سہل ہے اور زندگی محال
مہمان یک نفس کی ہے دنیا کی ٹیم ٹام
لمحوں کے ہاتھ رخشِ تغیرکی ہے زمام
ان مایوسیوں میں بھی امیدکا دیاروشن ہے کہ زندگی اضدادسے آگے بڑھتی
ہے۔انسان مرمرکے جیتا اور جی جی کے مرتا ہے لیکن ہمت نہیں ہارتا۔اگرثابت
قدم رہو تو انقلاب تم ہی لاسکتے ہو۔ان حالات میں اتحاداور بیداری کی ضرورت
ہے۔خدانے پھرابھرنے کا موقع دیا ہے اور ہمارا مقصدحیات اسرارِ
بحروبرکودنیاپر واضح کرنا ہے۔حرص وہوس کے بتوں کو توڑدواور تبدیلیوں کی اس
آوازپرلبیک کہو
آؤ کہ،غولِ حرص کی سانسیں اکھاڑدیں
اٹھو کہ ، تیرہ شب کا گریباں پھاڑدیں
چونکو ، اٹھو کہ ، وقت نہیں ہے یہ خواب کا
آؤ کریں بلندعلم انقلاب کا
ہم ظلمت کی داوری کو دہرسے ایک بار پھرجڑسے اکھاڑسکتے ہیں اور اس کے لیے
ضروری ہے کہ وہ جو ہمت ہاربیٹھے ہیں ان کے دلوں میں نئی امنگ اور جوت جگائی
جائے۔چراغ سے چراغ جلانے کی ضرورت ہے۔دنیاکی جہالت کو علم کے چراغ جلا کر
ہی ختم کیا جاسکتا ہے۔اس بے چراغ رات کو زرتاردھوپ ہم ہی دے سکتے ہیں لیکن
اس کے لیے شعورذات کا ہونا ضروری ہے ۔ہم جو اسیرِ ظلمتِ رنگ ونسل ہیں ہم کو
اس اسیری سے رہائی حاصل کرناہوگی۔گم گشتہ منزل کا سراغ ڈھونڈنا ہمارا فرض
ہے اور اس کے لیے ذاتِ واحدکا ادراک اور اس پر اعتماد ضروری ہے۔ایک وہی
ہماری ڈوبتی نیا کو پارلگاسکتا ہے اور سموم قعر سے نجات دلا سکتا ہے۔اور اس
کے بعد اس بات کا شعور کہ ہم نبی امی کی امت سے ہیں اور قیامت کو ان کے
سامنے اپنے آپ کو شرمندگی سے بچانا ضروری ہے۔
مانا کہ ،ہم زمین کی چھاتی پہ بار ہیں
مانا سیاہ کار ہیں ، غفلت شعار ہیں
یہ جانتے ہوئے بھی کہ ، رسوا ہیں خوار ہیں
امیدوار رحمتِ پروردگار ہیں
مانا اسیرقعرِ مذلت ہیں کردگار
لیکن ترے حبیبؐ کی امت ہیں کردگار
زاہدکلیم کی اس مسدس کے بند ۰۵ا تا ۲۰احمدیہ ہیں اور حمدیہ کا یہ انداز کم
شعراء کو نصیب ہے۔ذات بار ی کا ادراک اور پہچان اور اس پر غیرمشروط ایمان
کم شعراء کوملا ہے کیونکہ شعراء توکل الی اﷲ کم ہی کرتے ہیں اور اکثر قسمت
اور کردگارسے شاکی ہی رہتے ہیں لیکن زاہد کلیم کی تربیت جس ماحول میں ہوئی
اس نے ان کو استغنا،فقراور توکل سکھایا ہے۔وہ اپنی ہر خواہش کا
اظہارپروردگارہی سے کرتے ہیں۔یہ دعائیں فردسے لے کر امت تک کے لیے ہیں یعنی
خزاں گزیدہ چمن اور دلِ حزیں سب کے لیے ہیں اور دلوں کی کدورت کی دوری کے
لیے ہیں
پروردگار ارضِ فلسطین کو چھڑا
صرصرکی رو کو موجہء باد صبا بنا
افغانیوں کو ان کے وطن سے نہ کرجدا
کشمیریوں کو خطہء کشمیرسے ملا
یارب نگاہ لطف بہ فیضِ رسولؐ کر
مظلومیت کی ساری دعائیں قبول کر
ملت اسلامیہ میں نفاق سے دوری کی دعائیں ہیں تو ملت کے دوبارہ عروج کی
التجا بھی ہے۔ایک طرف عدل و مساوات کی بہارکے لیے ملتجی ہیں تو دوسری طرف
سمومِ وقت کو باد شمال کے لیے دعاگو بھی۔اندازبہت عاجزانہ ہے اور تراکیب
بہت خوب صورت
ہمسرنہیں کوئی ، ترا کوئی بدل نہیں
ترے نظامِ شمس و قمرمیں خلل نہیں
زاہدنے اپنے لیے بھی دعاکی تو علم ،عقل اور شعورکی کی ہے۔ان کو اپنی کم
مائیگی کا احساس ہے اور یہی احساس ان کو بڑا شاعر بناتا ہے۔انھوں نے اس
پروردگارکا شکراداکیا ہے جس نے ان کو زباں دی اور پھر طرزِ بیاں دی اور اس
طرزِ بیاں کو فکرِ فردا دیا۔اس سے خوب صورت اشعار ممکن نہیں
یارب سکونِ خاطرِ ناشاد کرعطا
چہرے کو پھر رعونتِ اجداد کرعطا
اس زندگی کا فہم دے ،ادراک دے مجھے
پروردگارجراتِ بے باک دے مجھے
زاہدکلیم نے اس مسدس میں چودہ صدیوں کو پرو دیا ہے اور داستانِ زوال کو
پڑھتے ہوئے آج کا دورسامنے آتا ہے۔یہی تو نقشہ ہے زوالِ امت کا۔مشرق سے
مغرب اور شمال سے جنوب مسلمان زوال کا شکار ہے۔غلامی اس کا مقدرہے۔کہیں
اغیار کی اور کہیں اپنوں کی۔فرقہ پرستی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں،کہیں
جدیدیت کے نعرے ہیں تو کہیں رجعت پسندی۔سکون کہیں نہیں۔نئی نسل تباہی کے
دھانے پر کھڑی ہے۔زندگی کا واضح نصب العین ان کے پاس تو کیا ان کے رہبروں
کے پاس بھی نہیں۔اقدارکا سوال ہے۔تہذیب کا سوال ہے اور ترقی کیا ہے ،بھی
ایک سوال ہے۔ہم کیا چاہتے ہیں اور کس طرح چاہتے ہیں۔مستقبل کیا ہوگا اور
کیا ہونا چاہیے۔ہماری جامعات سے نکلنے والی نسل جو پڑھی لکھی ہے اس کے پاس
کیا وژن ہے اور اس کا حصول کیا ہو گا۔یہ سب سوال جواب چاہتے ہیں۔ان سب
سوالوں کے لیے ضروری ہے کہ کائنات کا ایک واضح نصب العین ہو۔ایک خدا پر
غیرمتزلزل ایمان اور محمدؐعربی کی رسالت کی بنیادپر اس امت کو یک جا کرنا۔ |