نئی جہت، نئی سوچ، نیے اِظہارکا امانت دار شاعر

صغیر اشرف وارثی ’’حرف سخن‘‘ کے آئینے میں
صغیر اشرف وارثی……

فیس بک، جسے ہم ازراہِ اُردو نوازی’’کتابِ رُخِ زیبا‘‘ بھی کہتے ہیں، اُردو شاعر وں اور اُردو شاعری کا ذوق رکھنے والوں کے لیے ایک ایسا پلیٹ فارم بن گئی ہے، جہاں اُردو کے شیدائیوں کامستقلاً تانتا بندھا رہتا ہے اور کوئی نہ کوئی شعر یا کسی شعر پر کسی نہ کسی کی آراء مانسون کے ابتدائی دنوں کی جھڑی کی طرح رُکے بغیر تھکے بغیر مسلسل برستی رہتی ہے۔شاعروں کی تخلیقات کی ایسی بھرمار رہتی ہے کہ بڑی مشکل سے کسی اچھے فن کارتک رسائی ہو پاتی ہے۔

لیکن کسی فنکار کے شعر کے حوالے سے کسی پر نظر جم جاتی ہے تو وہ شاعر واقعی ایک اچھا بلکہ بہت ہی اچھا شاعر نکلتا ہے۔اور کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے، کہ ہمارے اپنے شعروں پر کسی کی خوبصورت آراء بھی ہمیں اچھے اور باذوق قلمکاروں تک رسائی کا ذریعہ بن جاتی ہے ، کیوں کہ اِن آراء ہی سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہوتا کہ صاحبِ رائے واقعی صائب الرائے شخصیت کا مالک ہے۔ پھر جستجو ایک اچھے فنکا ر تک پہنچا کر ہی دم لیتی ہے۔

جناب صغیر اشرفؔ وارثی صاحب جیسے قلمکاروں تک ہماری رسائی بھی،ہمارے شعروں پر اُن کی آراء کے حوالے سے ہوئی اور ہماری چھٹی حس نے ہم سے کہاکہ اُن کی آراء اُن کے ایک اچھے قلمکار و فنکار ہونے کا پتہ دیتی ہے۔پھر کچھ دن بعداُن کا شعری مجموعہ’’حرفِ سخن(شعری مجموعہ) ‘‘ اِس نوٹ کے ساتھ ہمیں موصول ہواتو ہم چونک گیے،کہ اُن کی نظر میں ہمارا واقعی کچھ مقام و مرتبہ ہے: ’’ایک شعر بھی آپ کی پسند یدگی کو چھو گیا تو حرف سخن سُنہرا ہو اٹھے گا۔‘‘اس طرح اُن کے کلام کو اپنی نظروں کے سامنے پاکر ہم نے اپنے مذکورہ دعوؤں کا جائزہ لیا،نتیجتاًہم خود اپنی پیٹھ تھپک رہے تھے کہ وہ واقعتا ہمارے اندازوں کے عین مطابق نکلے ہیں اور ایک اور با کمال قلمکار و فنکار دوست نہ صرف ہمارے فیس بک کے دوستوں کی فہرست میں، بلکہ ہمارے ذاتی دوستوں کی فہرست میں بھی شامل ہو گیاہے۔ہم نے خدا کا شکر بجا لایا کہ اُن کی کتاب نے ہمارے اندازوں کی فی الواقع لاج رکھ لی ہے۔اب یہ چند سطور اُن کی خدمت میں نذرانۂ خراجِ عقیدت کے طور پر پیش کرکے ہم اُنہیں اِس حقیقت سے مطلع کرنا چاہتے ہیں کہ ’’حرف سخن کا ایک شعر نہیں بلکہ کئی کئی شعر اپنی سرشت میں خودہی سنہرے واقع ہوئے ہیں اوریہ کہ کسی کی پسندیدگی کے ذریعہ اِنہیں سنہرا کرنے کی اب کوئی ضرورت باقی نہیں رہ گئی ہے۔

لیکن ایک عجیب بات یہ ہوئی کہ جب ہم کتاب کے مطالعے میں غرق ہوئے تورفتہ رفتہ ہمیں محسوس ہونے لگا کہ ہمارے مذکورہ اندازے اُن کی اصل شخصیت کے مقابلے میں بہت چھوٹے دکھائی دینے لگے ہیں۔ ہم حیران تھے کہ ہم محض کسی شاعر کو نہیں پڑھ رہے ہیں بلکہ اُسے پڑھ رہے ہیں جو اپنی ذات میں ایک انجمن ہے۔یعنی ایک ہمہ جہت شخصیت ، ایک ہمہ گیر فن کارہے اور بقول راشدعارفی صاحب :’’(وہ صرف قلمکار نہیں)، بلکہ وہ فن مصوّری کے ماہربھی ہیں،دانشوربھی ہیں، نثر نگاربھی ہیں، افسانہ نگاربھی ہیں اورمبصر ومضمون نگارکے ساتھ وہ اخبار نویس بھی ہیں۔‘‘ہم آگے بڑھتے رہے اور اِس فنکار کی تہہ دار شخصیت پر سے عظمتوں کی پرتیں اُٹھتی چلی گئیں۔ پھر ڈاکٹرسردار ضیاؔصاحب کے اِن الفاظ نے تو اُن کے کلام کے مطالعے کی تڑپ کو اور بڑھا دیا۔دیکھیے ڈاکٹر صاحب کیافرماتے ہیں!:’’ صغیرؔ کی داستانِ حیات کچی مٹی کے گھڑے سے کورے برتن اور کورے برتن کی راہ سے چٹختے ہوئے گھر میں تبدیل اک شخص کی داستان ہے جس میں کبھی روح تک کو تازہ کر دینے والا ٹھنڈا پانی تھا اور آج جس کی ہر درار سے پانی کے بدلے خون رِس رہا ہے۔‘‘

اِن آراء کی روشنی میں ہم ہمہ تن چشمِ اشتیاق بن کر اُن کی کتاب کے مطالعہ میں ڈوب گیے۔اور جب اِس کتاب کی گہرائیوں سے اُبھرے تو احساسات و جذبات کی ایک سوغات ہمارے ساتھ تھی، جسے ہم من و عن اپنے قارئیں کی نظر کررہے ہیں:
صغیر اشرف کی شاعری کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنی شاعری کے درمیان سے خود کو ایک ایسا انسان بنا کر اُبھارتے ہیں جو اِس حد تک دردمندِ انسانیت ہے جوکسی اور کے آنسوؤں کو اپنی آنکھوں میں سمٹتا دیکھتا ہے۔ یہ اِنسانی غم خواری کی وہ بلندی ہے ، کہ پھر جس کے بعد اور کوئی بلندی باقی نہیں رہتی۔وہ انسانوں کے جم غفیر میں’’پہلے جیسے‘‘ انسانوں کو ڈھونڈ تے پھرتے نظر آتے ہیں، جن کو کبھی مان اور سمان کی قدر ہوا کرتی تھی۔اخباروں کی تازہ سرخیوں میں لاشوں کی برہنگی کا ذکر کرکے وہ خوابیدہ اِنسانی ضمیر کو بیدار کرنے کی ایک کرب ناک مگر ایک کامیاب کوشش کرتے ہیں۔ظاہر ہے ، اِس طرح کے طرز عمل کے مختلف مراحل میں طرح طرح کی مشکلات سے اُنہیں دوچار ہونا پڑتاہے ۔ سچائیوں کی جستجو میں اُنہیں کرب آسا مناظر سے سابقہ پیش آتا ہے۔وہ جھوٹ کے راستے پر سچ کی لاش کو دیکھ کر تڑپ اُٹھتے ہیں۔وہ ظالم انسانوں کو احساس دلاتے ہیں کہ آسمان پرایک خدابھی بیٹھاہوا ہے اور اِن کے کرتوتوں کو دیکھ رہا ہے۔اور ایک دِن اُس کے دربار میں حاضر ہوکر اِن ظالموں کو اپنے کرتوتوں کا حساب دینا ہے۔

ہمارا خیال ہے کہ ایک طرف وہ ایک باضمیر شاعر کی نظر سے چاروں طرفین میں خونی مناظر کو دیکھ کر بے چین ہو اُٹھتے ہیں ۔پھراِن مناظر کی بنیاد میں وہ دِلوں کے درمیان رشتوں کے ٹکراؤکو ایک سبب کے طور پر دیکھتے ہیں اوراُن کی نظر میں یہی ٹکراؤ اِن خوں چکاں مناظر کا پیش خیمہ قرار پاتا ہے۔نیز دورِ حاضر کے تلون مزاج انسان کی فطرت کو بھی وہ اِس منظر نامے کا ذمہ دار مانتے ہیں، کیوں کہ ذرا ذرا سی بات پر لڑتے مرتے رہنا اِس دور کے اِنسانوں کا شیوہ بن گیا۔وہ کہتے ہیں کہ یہ دورگلوں کو آتشدان میں رکھنے کا دورہے، یہاں مردہ جسموں کا گوشت کھانے کے لیے عقاب بازو کھولے بیٹھے رہتے ہیں۔اِن مناظرکے درمیان پربت جیسی اونچائیوں والے کردار کی دہائی دیتے ہوئے ، آدمی کے گھٹتے قد کا وہ ماتم کرتے ہیں۔دوسری طرف وہ مشرقی قدروں کو کھو کر برہنگی اِختیار کرنے والی نو خیز نسلوں کا ذکر بڑے ہی کرب آگیں لہجے میں کرتے ہیں۔مغرب زدہ فیشن کی ننگی ہوڑ سے وہ خوبصورت لڑکیوں کو بچنے کا مشورہ نہایت ہی دل پذیر لہجے میں دیتے ہیں۔چونکہ وہ ایک شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ ایک صحافی اور مضمون نگار بھی ہیں اِس لیے وہ کسی تصوراتی دُنیا میں رہ کر اپنے فن کے جوہر دکھانے پر اکتفاء کرنا نہیں چاہتے۔کیوں کہ ڈاکٹر غلام مصطفےٰ گل(علیگ)کے بقول :’’صغیر اشرف اِسی دنیا کا باشندہ ہے جس کے اعصاب پر خیالی و تصوراتی دنیا کی اڑتی دھند اثر انداز ہوتے ہوئے بھی نظر نہیں آتی۔‘‘

جہاں تک اُن کے فکر ی و فنی وسیلہ ٔ اِظہار کا تعلق ہے تو،وہ اِ ظہار کے لہجہ کی صدا ،سے سوچ کو واقف کرانا چاہتے ہیں،ہُنر کے لیے دیے کے ساتھ دِل کو جلانا ازحد ضروری سمجھتے ہیں ،نوک مژگاں سے دِل کی تختی پر اپنے نام کو لکھوانے کی خواہش اُن کے انسانیت کے تئیں خیرخواہانہ رویہ کی غماز ہے ۔ظاہر ہے فکر ونظر کی اِس منزل تک رسائی کے لیے لفظ و معانی کی جو بساط بچھانی ہوتی ہے ،اُس کا سلیقہ و شعور بہت حد تک اشرف صاحب کو حاصل ہے اور قارئیں کو اپنی جانب متوجہ کرتا ہے، جیسا کہ راشد جمال فاروقی فرماتے ہیں: ’’صغیر اشرف کی مخصوص لفظیات (Diction)اور تازہ کار لہجہ قاری کی توجّہ فوراً اپنی جانب کھینچ لیتا ہے۔‘‘
اگرچہ وہ گناہوں کی اُگتی فصل سے نالاں ضرور ہیں لیکن اِن پر اُن کی تنقید کااسلوب اُنہیں زبان سے حرفِ غلط اداکرنے کبھی نہیں دیتا،کیوں کہ وہ بے مروتی کی دھوپ میں خلوص کی چادر تلاش کرنے میں سرگرداں رہتے ہیں۔ اُن کا اصل فکری سرمایہ یہی ہے۔ڈاکٹر مینا نقوی نے کتنی سچی بات کہی ہے: ’’ ایک دیانت دار فنکار کی طرح وہ اپنے ماحول سے شعر کا خمیر اٹھاتے ہیں۔ آسودہ ، نا آسودہ زندگی کے عکس ، جبر و مشیّت کی تصویریں اور جذبات و احساسات کے آئینے ان کی شاعری کا سرمایہ ہیں۔‘‘

نپی تلی گفتگو اُن کی شعر گوئی کا خاصہ ہے، کیوں کہ وہ خودگفتگو سے پہلے لفظ و حرف کی گہرائیاں تو لنے کا مشورہ د یتے ہیں ۔ دوسروں پر اُنگلیاں اُٹھا کر خود کی خامیوں کو آشکارہ کرنے کا وہ کبھی جوکھم اُٹھانا نہیں چاہتے کیوں کہ بقول سیّد حلیم حسین زیدی: ’’ تمام ادبی اصناف کے اوصاف میں ڈھلا یہ پیکر ، بیکراں سمندر سے سیپیاں چننے حروف کے موتیوں کی تلاش میں فکر کی گہرائی میں اترنے ، تلخیوں کا نمک لیے اس فن کار کی شخصیت کے مختلف پہلو ایسے ہیں، جنہیں پڑھتے رہنے یا محسوس کرنے سے من نہیں بھرتا۔‘‘

پھروہ صورتحال سے مایوس بھی نہیں ہوتے۔ قنوطیت اُن سے دور بھاگتی ہے۔وہ ایک پر عزم انسان ہیں اور کشتی کولب ساحل پہنچا نے والے اُس ملاح کی طرح ہیں جو ہواؤں سے بھنور مانگتا ہے۔وہ گھٹاؤں کا انتظار کیے بغیر ناؤ کو ریت میں چلانے کا عزم رکھتے ہیں۔یہاں تک کہ یہ قلندر مزاج شاعر کوڑے کرکٹ میں روزی تلاش کرنے والے بچوں میں ’’سکندر ‘‘دیکھتا ہے۔کیوں کہ وہ غریبوں کی دُعاؤں کا طلبگارہے اور ، امیروں کی مصاحبی سے گریز اُس کا شیوۂ زندگی ہے۔اپنے ہدف کے حصول میں وہ کبھی اپنے معیار کو گرنے نہیں دیتا۔ اِس دعویٰ کی صداقت کا ثبوت یہ ہے کہ اِس بات کی گواہی خود اُن کی اہلیہ محترمہ جمیلہ صغیر صاحبہ اِن الفاظ میں دیتی ہیں (اور شریک زندگی کی گواہی کس قدر مستندہوتی ہے ، یہ بتانے کی مطلق ضرورت نہیں ): ’’صغیر صاحب نے ’’گھمنڈ‘‘ کو اپنی فتوحات پر کبھی حاوی نہیں ہو نے دیا۔ اور جو کچھ لکھا اپنے معیار سے گرنے نہیں دیا۔ ‘‘
دورِ حاضر کا شاعر و فن کار خوش نصیب ہے کہ آج اُس کے فن پاروں کا ایک عالم منتظر نظر آتا ہے۔انٹر نیٹ کی دُنیا نے اُسے قارئین کی ایک ایسی وسیع دُنیا عطا کی ہے جو ہمہ دم و ہمہ تن اُس کے کلام کو پڑھنے کی مشتاق رہتی ہے۔ عالمی سطح پر اُس کے فن کی پذیرائی کے امکانات اِس قدر بڑھ گیے ہیں کہ اب کوئی بدقسمت ہی اِس کی قدر و قیمت سے ناآشنا رہ جائے گا۔ اِس حقیقت کو خو دصغیر اشرف وارثی صاحب جیسی ہمہ جہت اور تہہ دار شخصیت خوب محسوس کرتی ہے اور اِس کے تقاضوں کا بھی خوب ادراک رکھتی ہے، وہ کہتے ہیں:’’عالمی سطح پر آج، شعر و ادب کو ضرورت ہے نئی جہت کی، نئی سوچ اور نیے اظہار کی، جو شاعری میں ایک ایسی شعری ترتیب مرتب کرے جس کے بیان میں تہہ داری ہو اور موضوع کے گرد معنی کی ایک غیر متوقع دنیا آبا دہو۔!‘‘
آخر میں ہم اُن کے مجموعۂ کلام سے اپنی پسند کے کچھ شعر پیش کرتے ہیں:
پھول گلدانوں میں رکھنے کی کہاں ہے رسم آج
لوگ غنچوں کو بھی رکھ دیتے ہیں آتشدان میں
……
آنکھ بہتے ہوئے آنسو کے سوا کیا جانے
سوچ اظہار کے لہجہ کی صدا کیا جانے
……
طوفاں کی موج سر سے ہوئی اونچی جس گھڑی
اشرفؔ ندی نے اپنے کنارے گرادیے
……
آواز دیتی رہ گئیں دنیا کی ظلمتیں
دیکھا نہ چاند تاروں نے مڑ کر تمام رات
……
محبت کا حسیں جذبہ چھپائے سے نہیں چھپتا
زباں چپ ہو تو اشرفؔآنکھ ہی سب کچھ بتا تی ہے
……
آؤ ایسے میں کہیں دور تلک ساتھ چلیں
خوبصورت ہے سماں رات ہے تنہا تنہا
……
ہمارے قتل کی سازش میں وہ بھی ہیں اشرفؔ
ہماری بزم میں جو منہ چھپاکے بیٹھے ہیں
……
سب کو تبسّم بانٹنے والا
دِل میں روتا سا لگتا ہے
……
تو امیروں کا مصاحب ہے مبارک ہو تجھے
میرے حصّے میں غریبوں کی دُعا رہنے دے
……
اِس قدر گرمی ہے خوں میں آج کے انسان کے
اک ذرا سی بات پہ لڑتے مر جاتے ہیں
……
گفتگو کرنے سے پہلے تول لو
اپنے لفظ و حرف کی گہرائیاں
……
باڑھ کے رُخ کو موڑنے کے لیے
ہم ندی میں چٹان بوتے ہیں
……
فصل روحانیت اُگانے کو
ہم ہوا میں اذان بوتے ہیں
……
بہر کیف ، غموں کو اپنے دِل کی امانت بنائے ملت کا یہ غمخوار شاعر اپنے تخلیقی سفر میں آگے ہی آگے بڑھتا نظر آتا ہے۔ اِس دورِ شاعرانہ کے وجود سے خود اعتمادی لے کر وہ شعر کہنے کا ہنر جان گیا ہے۔وہ متنوع یادوں کے دیپ کی روشنی میں ساری ساری رات لفظوں کی چادر بُنتے ہوئے اپنے کمالِ فن کا مظاہرہ کرتا ہے ۔کاغذوں پر لکھا ہوا نظر آنے کے لیے وہ حروف کے برتنے کا ہنر وہ حاصل کر چکاہے۔اِس کے لیے وہ فنکارانہ سطح پر ہر اُس تدبیر کو آزما نا چاہتا ہے، جس کے ذریعہ کامیابی کے امکانات روشن ہوجاتے ہیں، جیسا کہ راجیش آنند اسیرؔنے بجا طور پر اِس حقیقت کا اِن الفاظ میں اعتراف کیا ہے:’’……تشبیہات و استعارات کی ندرت ، قوت مشاہدہ کی تیزی ، اور زبان و بیان کی قادر الکلامی صغیر اشرفؔ کی شاعری کے وہ Shadesہیں جو تخلیقی قوت کا بہترین اظہار ہیں…… ‘‘
خدا کرے کہ ملت کے اِس وفا شعار شاعر کے علم و فن میں برکت ہو۔ آمین۔
۱۹۲ صفحات پر مشتمل کتاب’’صغیر اشرف وارثی، کھٹاری،رام نگر، نینی تال ،اُترا کھنڈ‘‘ سے حاصل کی جاسکتی ہے۔
Azeez Belgaumi
About the Author: Azeez Belgaumi Read More Articles by Azeez Belgaumi: 77 Articles with 83283 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.