رقبہ کے لحاظ سے پاکستان کے سب
سے بڑے صوبے اور پوری دنیا کے لئے انتہائی اہم حصہ زمین ”بلوچستان“ کے سابق
وزیر اعلیٰ، سابق گورنر اور سابق وفاقی وزیر دفاع نواب اکبر بگٹی کا قتل
پاکستان کی سالمیت کے لئے کسی زہر قاتل سے کم نہ تھا۔ اکبر بگٹی کو جس طرح
بغیر کسی فرد جرم کے ماورائے عدالت و قانون اور بہیمانہ طریقہ سے قتل کیا
گیا وہ انتہائی شرمناک کے ساتھ پاکستان کو توڑنے کی سازش بھی تھی جس کے ما
بعد اثرات (اگر مداوا نہ کیا گیا) پاکستان کے لئے بہت خطرناک ہو سکتے ہیں
خصوصاً جس طرح کے حالات سے اس وقت پوری قوم اور ملک خداداد کو درپیش ہیں۔
اس وقت بلوچستان کی نوجوان نسل ”آزادی یا موت“کا نعرہ بلند کرتی نظر آتی ہے۔
اگر بلوچستان کے حالات پر ایک نظر ڈالی جائے تو یہ حالات ایک دم پیدا نہیں
ہوگئے بلکہ لمحہ بہ لمحہ بلوچستان میں زہر کی فصل کاشت کی گئی جس کا کڑوا،
کسیلا اور زہریلا پھل اس وقت پکنا شروع ہوگیا ہے۔ محب وطن اور ذہن رسا
رکھنے والے لوگ بلوچستان کے موجودہ حالات کی زہرناکیوں سے بہت پریشان اور
دہلے ہوئے ہیں۔ ہر لمحہ انہیں ایک نئی اذیت اور اس ملک کے مستقبل کے لئے
نئی نئی پریشانیاں اور سوچیں ”دان“ کرجاتا ہے اور وہ پاکستان کی سیاسی
جماعتوں کی قیادت اور حکومت کی طرف دیکھتے ہیں لیکن کسی جانب سے امید کی
کوئی کرن انہیں نظر نہیں آتی!
جس وقت مشرف نے اپنی ”مادر پدر آزاد“ قوت کے ساتھ نواب اکبر بگٹی کو محصور
کیا اور پھر انہیں حب الوطنی کی سزا دی اس وقت پوری فوج بھی ان کے پیچھے
کھڑی تھی اور اس وقت کی فوجی قیادت جو آج کیری لوگر بل پر اپنے تحفظات
میڈیا کے ذریعہ حکومت تک پہنچانے میں بھی کوئی آر محسوس نہیں کرتی، کی جانب
سے کوئی ایسا بیان سامنے نہیں آیا تھا کہ وہ اس آپریشن کے خلاف ہے اور
بلوچستان میں پاکستان اور اس کے وفاق کی حمایت کرنے والے نواب اکبر بگٹی کو
محفوظ راستہ دینے اور ان سے مذاکرات کے حق میں ہے۔ اگر اکبر بگٹی کے
مطالبات ناجائز بھی تھے تو بغیر کسی قسم کا مقدمہ چلائے، آئین اور قانون کی
دھجیاں اڑاتے ہوئے ان کا قتل کسی طور بھی صحیح اور جائز عمل نہیں تھا اور
اس پر فوجی آمر کی طرف سے ایسے بیانات دینا کہ ”یہ 71ء کا زمانہ نہیں ہے
اور یہ کہ ہم انہیں ایسی جگہ سے ”ہٹ“ کریں گے کہ انہیں پتہ بھی نہیں چلے گا“!
آج کے موجودہ پاکستان کو جس طرح کے حالات سے گزرنا پڑ رہا ہے اور خصوصاً
بلوچستان کے جو حالات ہیں اس کی بہت بڑی ذمہ داری مشرف اور فوج پر بھی ہے۔
وہ فوج جس نے باسٹھ برسوں میں سے تقریباً پینتیس سال بلا شراکت غیرے
پاکستان پر حکومت کی ہو اور جب وہ حکومت میں نہ بھی ہو تو پالیسیاں مرتب
کرنے اور ان پر عملدرآمد کرنے میں آزاد ہو اور ملک توڑنے کی سازشیں کرنے
والے آمر مشرف کو اس کی رخصتی پر ”گارڈ آف آنر“ دے تو وہ کیسے خود کو بری
الذمہ قرار دے سکتی ہے۔ آئین کے مطابق صدر مملکت اور گورنرز کو عدالتی
استشناء حاصل ہوتا ہے لیکن کیا وہ استشناء اب بھی موجود ہے؟ کیا عدالتیں
آزاد نہیں ہیں؟ اگر ایسا ہے اور مشرف کو اس وقت کسی قسم کا کوئی عدالتی اور
آئینی استشناء موجود نہیں ہے اور اس سے بھی بڑھ کر مشرف کے خلاف نواب اکبر
بگٹی کے قتل کا مقدمہ بھی درج کرلیا گیا ہے تو فوج کیوں اس بے حمیت اور
ظالم شخص کو عدالت میں پیش کرنے کے لئے اپنا اثر و رسوخ اور کردار ادا نہیں
کررہی؟ اگر فوج کو اپنی ساکھ بچانی ہے اور بقول شخصے ”روگ“ آرمی سے دوبارہ
”پاک “ فوج بننا چاہتی ہے تو اسے نواب اکبر بگٹی کے قاتل کو قانون کے کٹہرے
میں لانے کے لئے اپنا کردار لازماً ادا کرنا چاہئے۔
مشرف کو کٹہرے میں لانا اس لئے بھی ضروری ہے کہ اس نے پاکستان کے انتہائی
اہم صوبے کو جہاں کے لوگ انتہائی محبت کرنے والے اور ملنسار ہیں، دہشت کی
فضاء میں دھکیلا ہے اور پاکستان کی بقاء کے سامنے ایک بہت بڑا سوالیہ نشان
لگا دیا ہے۔ دنیا کے تمام ممالک کی حکومتیں اور ادارے پالیسیاں ترتیب دیتے
وقت سب سے پہلے اپنے عوام کو سامنے رکھتے ہیں، ان کی خواہشات کا احترام
کرتے ہیں، اس کی ایک حالیہ مثال فرانس کی ہے جس نے مساجد میں میناروں کی
تعمیر پر باقاعدہ ایک ریفرنڈم کرایا ہے کہ کیا مسلمانوں کی مساجد میں مینار
تعمیر ہونے چاہئیں یا نہیں؟ اور عوام کی اکثریت نے میناروں کی تعمیر کے
خلاف ووٹ دیا ہے، اگر فوج کسی قسم کے معاہدے یا گارنٹی کی ”ڈور“ میں بندھی
ہے تو اسے پاکستان بالخصوص بلوچستان کے معروضی حالات کو سامنے رکھ کر اس
”ڈور“ کو توڑ دینا چاہئے اور بدنام زمانہ سابقہ آمر مشرف کو انٹر پول کے
ذریعہ گرفتار کر کے وطن میں لانا چاہئے اور عدالت کے رحم و کرم پر چھوڑ
دینا چاہئے تاکہ اس کو اپنے کئے کی کچھ تو سزا مل سکے حالانکہ مشرف کے
جرائم اور سیاہ کاریوں کی فہرست اتنی طویل ہے کہ اس کی تفصیل کے لئے ہزاروں
بلکہ لاکھوں صفحات کالے کئے جاسکتے ہیں۔ اگر فوج بطور ادارہ ایسا کرنے میں
ناکام رہتی ہے تو بلوچستان کے عوام اور خصوصاً وہ نوجوان جنہوں نے آج ایسی
ہی ”حرکات“ کی وجہ سے کتابیں چھوڑ کر اسلحہ اٹھا لیا، وہ فوج کو مورد الزام
ٹھہراتے رہیں گے اور فوج کے پاس ایک ادارہ کے طور پر اس کا کوئی مؤثر جواب
نہیں ہوگا، اس لئے اس سے پہلے کہ بلوچستان میں بسنے والے لوگ نعرہ لگائیں
کہ
یا لا کے قاتل پیش کرو، یا مانو ہم خود قاتل ہیں
فوج کو چاہئے کہ ان کا مجرم ان کے حوالے کردے، اللہ کا قانون بھی یہی ہے
اور پاکستان بچانے کا راستہ بھی، ہماری سلامتی بھی اور آنے والی نسلوں کی
بقاء بھی اسی سے وابستہ ہے! کیانی صاحب خدارا سوچئے! |