غالب کے گمشدہ مخطوطہ دیوان کی دریافت

غالب کا گمشدہ اصل مخطوطہ دیوان " نسخہء حمیدیہ" دریافت
1821ء میں سپرد قلم کئے گئے غالب کے اشعار پر مبنی اس نسخے کی پچاس برس قبل گمشدگی کے بعد اسے معدوم تصور کیا جاچکا تھا

لندن( اپنے ذرائع سے) مرزا اسد اللہ خان غالب کے چاہنے والوں کیلئے یہ اطلاع کسی سنسنی خیز خوشخبری سے کم نہ ہوگی کہ "نسخہ ء حمیدیہ" کا اصل مخطوطہ دریافت کرلیا گیا ہے۔ 1940ء کی دہائی میں برصغیر پاک و ہند کی تقسیم اور فسادات کے دوران اس نسخے کی گمشدگی کے بارے میں معلوم ہوا تھا۔ اردو زبان میں کی گئی مستند اور خوبصورت ترین شاعری کے حامل1821ء میں تحریر کیئے گئے اس نسخے کو نواب فوجدار محمد خان کے لئے مخطوطہ کیا گیا تھا جبکہ خطاطی کے ضمن میں معروف خطاط حافظ معین الدین کی خدمات حاصل کی گئی تھیں۔

اس معجزاتی دریافت کے پس پشت "حسینی آرٹس ڈاٹ کام" کے نام سے معروف آن لائن آرٹ گیلری اور عجائب گھر کی کوششیں کارفرما ہیں۔ اس حوالے سے ویب سائٹ سے وابستہ ترجمان کا کہنا تھاتھا کہ " یہ بجا طور پر ایک ناقابل یقین دریافت ہے اور ہم بہت پرجوش ہیں کہ اب ہم اصل مخطوطہ پڑھ سکیں گے ، جو کہ اب تقریباً دو سو برس قدیم ہوچکا ہے۔ اردو شاعری سے محبت کرنے والے اس خبر سے شادمان ہوں گے کہ اب نسخہ ء حمیدیہ کے اصل متن کو بھی غالب کی تصنیفات میں شامل کیا جاسکے گا"

انہوں نے مزید کہا کہ طویل عرصے تک اس خبر پر یقین رکھنے کہ اصل مخطوطہ ضائع ہوچکا ہے اور ترمیم و تبدیل شدہ نسخوں کو ہی ' مستند' سمجھنے کے بعد اب آخر کار ہم غالب کی اس ذہنی پرواز کو جان سکتے ہیں جس کے تحت یہ تحریر کیا گیا۔

یہ مخطوطہ دیوان غالب کے نو معروف مخطوطات میں سے اولین اور اس وقت مخطوطہ کیا گیا جب غالب کی عمر محض 24 برس تھی۔ دانشور حضرات اور اشاعت کنندگان کا کہنا ہے اصل مخطوطے میں تقریباً 18 سو اشعار تھے۔ یہ تعداد 1941ء میں شائع ہونے والے "مستند" نسخے میں موجود اشعار کے مقابلے میں تقریباً دوگناہے۔ ان اضافی اشعار کی دریافت بہت اہم ہے۔ اس دیوان سے منہا کئے جانے والے اشعار کو غالب نے اشاعت کیلئے موزوں تصور نہیں کیا تھا تاہم شاعری کے اصل شائق اس حذف کئے گئے متن کو پڑھنے کے مشتاق تھے۔ اس سے قبل1921ء غالب کے انتقال کے تقریباً پچاس برس بعد مفتی انواراالحق نے اس مخطوطے کو اہل ذوق کی خاطر دوبارہ سے شائع کرنے کا بیڑہ اٹھایا تھا تاہم انہوں نے اصل مخطوطے میں موجود کلام کو خالص نہ رہنے دیا بلکہ حاشیئے بھی متن کا حصہ بنا دیئے۔ حالانکہ یہ امر واضح نہ تھا کہ حاشیئے آیا غالب نے ہی تحریر کئے تھے یا کسی اور نے۔

بعدازاں، 1969ء میں، پروفیسر حمید احمد خان نے تحریر کیا کہ انہوں نے 1938ء میں اصل مخطوطے کا جائزہ لیا تھا تاہم انہوں نے حذف شدہ حصے کے بارے میں اپنے خیالات کی وضاحت نہیں کی، بعد میں انہوں نے شاعری کا" درست" متن شائع کیا تھا۔ جس وقت شاعری کا یہ " درست شدہ" متن شائع ہوا، اصل مخطوطہ غائب ہوچکا تھا، اس کی گمشدگی فرض کرلی گئی تھی یا ممکنہ طور پر 1947ء میں پاک بھارت تقسیم کے دوران ضائع ہوگیا تھا۔ اصل متن کی بطور ثبوت موجودگی نہ ہونے کے سبب قارئین کو تاحال پروفیسر خان کے شائع کردہ متن کو ہی مستند تسلیم کرنا پڑا ۔ اصل نسخہء حمیدیہ جلد منظر عام پر لایا جائے گا اور مستقبل قریب میں اس کا فیسیملی ایڈیشن (Facsimile Edition)بھی شائع کیا جائے گااور وہ تمام حضرات جو اردو شاعری کے مداح ہیں ، جلد ہی اس متن کو پڑھ سکیں گے کہ جس کو غالب نے انیسویں صدی کی اشرافیہ کے ذوق مطالعہ کی تسکین کیلئے تحریر کیا اور پھر خود ہی مستردکردیا۔ اصل مخطوطے کی دریافت سے تخلیقی گروہوں میں جشن کا سا سماں ہے بالخصوص وہ محققین جو مرزاغالب پر تحقیق کررہے ہیں، ان میں سے بہت سے اس بنا پر پرجوش ہیں کہ اب تاریخ میں ترمیم وتبدیل شدہ متن کو حتمی شاعری کے طور پر جگہ نہیں مل سکے گی۔
maleeha hashmi
About the Author: maleeha hashmi Read More Articles by maleeha hashmi: 2 Articles with 7404 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.