یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی پشاور کے
ڈیپارٹمنٹ آف کمپیوٹر سسٹم انجینئرنگ کے تین طالب علموں نے ایک ایسی ریسکیو
روبوٹ کشتی بنائی ہے جس کی مدد سے سیلاب میں ڈوبنے والے افراد کو آسانی کے
ساتھ بچایا جا سکتا ہے۔
پاکستان میں تقریباﹰ ہر سال طوفانی بارشوں کی وجہ سے آنے والے سیلابوں سے
نہ صرف قیمتی املاک کا نقصان ہوتا ہے بلکہ ہزاروں انسانی جانیں بھی ضائع
ہوجاتی ہیں۔ ان میں ایسے لوگ بھی شامل ہوتے ہیں، جو دوسرے ڈوبتے ہوئے افراد
کی مدد کرتے ہوئے خود بھی ہلاک ہوجاتے ہیں۔
|
|
یہ روبوٹ بوٹ یا ریسکیو کشتی بنانے والی تین رکنی ٹیم میں شامل ایک طالب
علم بشیر خان نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایک پروٹوٹائپ (ابتدائی
نمونہ) روبوٹ کشتی ہے، جس کو ایک ریموٹ کے ذریعے کنٹرول کیا جاسکتا ہے اور
اس کی مدد سے سیلاب کے پانی میں پھنسے ہوئے لوگوں کا بحفاظت باہر نکالا
جاسکتا ہے۔ وہ مزید کہتے ہیں: ”لوگ سیلاب کے پانی میں ڈوب رہے ہوتے ہیں،
کوئی غوطہ خور بھی ان کو نہیں بچا رہا ہوتا، کیونکہ اس سے اس کی زندگی بھی
خطرے میں پڑسکتی ہے۔ تواس صورت میں اس کشتی کو ہم آسانی کے ساتھ کنارے پر
بیٹھ کرریموٹ کے ذریعے کنٹرول کرسکتے ہیں، اور ان ڈوبتے ہوئے لوگوں کے پاس
بھیج کر اور ان کو اس میں بٹھاکر، ان کی جانیں بچاسکتے ہیں۔“
شیر خان کا کہنا ہے کہ اس تین فٹ لمبی اور دو فٹ چوڑی کشتی کوپانی میں
چاروں اطراف چلایا اور گھمایا جاسکتا ہے۔ اس کے نچلی سطح میں ایک وائرلیس
ویڈیو کیمرہ بھی نصب ہے جس کی مدد سے دور بیٹھ کر پانی کے اندرونی حصے کا
براہ راست معائنہ کیا جا سکتا ہے۔
ٹیم کے ایک اور رکن ایاز خان کا کہنا ہے کہ بنیادی طور پر اس ریسکیو کشتی
کا کام لوگوں کی قیمتی جانیں بچانا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہم اس کشتی میں
لگے ہوئے میٹل ڈیٹیکٹر(Metal Detector) کی مدد سے یہ پروٹوٹائپ کشتی پانی
میں بیس انچ تک دھاتی اشیاء کی نشاندہی بھی کرسکتی ہے۔ ایاز کا کہنا ہے زیر
آب کشتی کے نیچے بیس انچ کے میگنیٹک فیلڈ میں جو چیز بھی آجاتی ہے تو
مایئکرو پروگرام کے تحت، ریموٹ پر ایک بزر سگنل آجاتا ہے، جس کے بعد وہاں
پر ریسکیو کام سرانجام کرکے اشیاء کو نکالا جاسکتا ہے۔
|
|
یو ای ٹی (UET) کے کمپیوٹر سسٹم انجینئرنگ ڈیپارٹمنٹ کے چیئرمین ڈاکٹر لائق
حسن کا کہنا ہے کہ اس قسم کی ایجادات کو کمرشل سطح پر متعارف کرانا چاہیے۔
وہ اس روبوٹ بوٹ کے حوالے سے مزید کہتے ہیں کہ اس کشتی کی مدد سے ریسکیو
آپریشن میں بہت مدد مل سکتی ہے: ”بجائے اس کے کہ پولیس، فوج یا نیوی کے
جوان اس جگہ پر جاکر یا پھر غوطہ خوروں سے مدد لیں، ان کا بھی اس میں جانی
نقصان یا زخمی ہونے کا خدشہ ہوتا ہے، اس کشتی کے ذریعے اس قسم کے خدشات کو
نکال کر ٹیکنالوجی کے مدد سے ایک محفوظ طریقے سے ریسکیو آپریشن کیا جاسکتا
ہے۔“
|
|
ڈاکٹر لائق حسن کے مطابق ان کے شعبے کے طلبہ کی اس کوشش کو قومی سطح پر
سراہا گیا ہے اور منسٹری آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کی طرف سے نیشنل آئی سی
ٹی آر اینڈ ڈی (National ICT R&D) سے اس پراجیکٹ کے لیے فنڈنگ کے علاوہ
طلبہ کی اس کاوش پر انہیں اسناد بھی دی گئی ہیں۔
بشیر خان کہتے ہیں کہ چونکہ یہ محض ڈگری کے حصول کے لیے ایک نمونہ تیار کیا
گیا ہے، تاہم اگر اس کی تیاری موجودہ صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے کی جائے
تو اس کی مدد سے قیمتی انسانی جانوں کو بچایا جا سکتا ہے۔ |