حکومت متاثرین سیلاب کی مکمل بحالی کیلئے پرعزم ہے

پاکستان کو اس وقت سیلاب کی صورت میں بہت بڑی قدرتی آفت کا سامنا ہے۔ مون سون کی شدید بارشوں اور بھارت کی جانب سے سیلابی پانی چھوڑے جانے کے بعد دریاؤں میں شدید طغیانی ہے جس سے پاکستان کے مختلف علاقوں میں شدید جانی و مالی نقصان ہواہے۔خاص طور پر صوبہ پنجاب میں بڑے پیمانے پرتباہی کے اثرات چھوڑرہاہے۔سیلابی ریلہ سیالکوٹ، گوجرانوالہ، گجرات، سرگودھا، خوشاب کے بعد ملتان اور مظفر گڑھ میں داخل ہو چکا ہے۔حکومت نے اس مشکل صورتحال میں اپنے تمام وسائل اور کوششوں کو بروئے کار لاتے ہوئے سیلاب کے اثرات میں کمی لانے اور متاثرین کے دکھوں اور نقصانات کا مداوا کرنے کی کوشش کی ہے۔

وزیراعظم نواز شریف اور وزیراعلی پنجاب سیلاب زدہ علاقوں کا مسلسل دورہ کرکے ریسکیو اور ریلیف کی نگرانی کررہے ہیں۔خلاف توقع بارشوں کے بعد شدید تباہی کا اندیشہ تھا تاہم حکومت کے فوری اقدامات کی وجہ سے بہت سا جانی نقصان ہونے سے محفوظ رہا۔ 90 فیصد علاقوں میں پانی آنے سے قبل لوگوں کو محفوظ مقامات پر پہنچا دیا گیا۔ اس مقصد کے لئے 16 ہیلی کاپٹر استعمال کئے گئے۔سیلاب زدگان کو محفوظ مقامات پر پہنچانے میں پاک فوج کی خدمات ناقابل فراموش رہی ہیں۔ انہوں نے مختلف علاقوں میں جس جذبے اور ایثار سے سیلاب میں پھنسے لوگوں کی مدد ومعاونت کی اور انہیں محفوظ مقامات پر پہنچایا، پوری قوم انہیں خراج تحسین پیش کرتی ہے۔ ریسکیو اور ریلیف کے دوران پاک فوج کے دو اہلکار شہید بھی ہوئے اس طرح انہوں نے ثابت کردیا کہ وہ ملک کی حفاظت اور عوام کی خدمت میں کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کرتے۔

محفوظ مقامات پر منتقل کئے جانے والے افراد کے لئے خیمے لگائے گئے ہیں جہاں انہیں خوراک اور ادویات بھی فراہم کی جارہی ہیں۔ وزیر اعلیٰ پنجاب نے فوری طور پر ہر متاثرہ ضلع کے لئے100 ملین روپے فوری طور پر جاری کئے تھے تاکہ لوگوں کے ریلیف کی سرگرمیاں موثر طریقے سے جاری رہیں اور فنڈز کی کمی رکاوٹ نہ بنے۔ اس کے بعد سیلاب زدگان کے ریلیف اور بحالی کے لئے 2 بلین روپے جاری کئے گئے ہیں۔ حکومت نے عید الضحیٰ سے قبل ہر متاثرہ خاندان کو 20 ہزارروپے ادا کرنے کا اعلان کیا ہے۔ وزیر اعظم نے سیلاب سے متاثرہ تمام علاقوں کوآفت زدہ قرار دیتے ہوئے اپنے اس پختہ عزم کا اعلان کیا ہے کہ وہ متاثرین کی مکمل بحالی تک چین سے نہیں بیٹھیں گے۔مکانات کی تعمیر کے کام میں خود حصہ لیں گے۔انہوں نے متاثرہ کاشتکاروں کو کھاد اور بیج مفت فراہم کرنے اور متاثرین کے بجلی کے بل معاف کرنے کا اعلان بھی کیا۔

اس وقت ہر ضلع تحصیل کے ادارے اور سرکاری اہلکار اور پاکستان مسلم لیگ ن کی ہر سطح کی قیادت اپنے اپنے علاقوں میں سیلاب زدگان کی امداد اور بحالی میں مصروف عمل ہے۔متاثرین کو خوراک اور طبی سہولیات مہیا کی جارہی ہیں۔ حکومت نے اقوام متحدہ کے دفتر برائے رابطہ انسانی امور کے تعاون و اشتراک سے سیلاب کے نقصانات کا ابتدائی تخمینہ لگانے کا فیصلہ کیا ہے۔حقیقی نقصانات کا ابتدائی تخمینہ دو ہفتے میں پورا کرلیا جائے گا۔اس تخمینہ کے بعد حکومت یہ فیصلہ کرے گی کہ سیلاب کی تباہی سے نمٹنے کیلئے ڈونرز کے تعاون کی ضرورت ہے یا نہیں، بڑی ضرورت کی صورت میں حکومت ڈونرز سے مالی مدد طلب کرے گی۔ متاثرہ آبادی کی ضرورتوں کی ترجیحات کی نشاندہی کیلئے کمیونٹی کی سطح پر فیلڈ تخمینہ 7روز میں شروع کردیا جائے گا. تجزیاتی ڈیٹا ایک ہفتہ کے اندر شیئر کیا جائے گا۔ حتمی رپورٹ 2ہفتوں میں شائع کی جائے گی۔

جہاں ایک طرف عوام سیلاب میں گھرے ہیں اور حکومت مسلسل ان کی بحالی کے کام میں مصروف ہیں تو دوسری طرف اسلام آباد میں ایک تماشہ برپا ہے۔ عوام کے حقوق کے لئے دھرنا دینے والی جماعتوں کے قائدین اپنے کارکنوں کو ریاست پاکستان کے خلاف غیرآئینی اقدامات مسلسل اکسارہے ہیں۔ اس موقع پر ضرورت اس امر کی تھی کہ وہ سیلاب زدگان کی مدد و معاونت میں حکومت کا ہاتھ بٹاتے، اپنے کارکنوں کو بھی اس سلسلے میں کام کرنے کی تلقین کرتے مگر وہ تنقید کا بازار سجائے بیٹھے ہیں جہاں ہرروز جھوٹے الزامات لگائے جاتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اس وقت جب لوگوں کو ان کی ضرورت ہے، وہ کنٹینر پر بیٹھ کر عوام کی مدد کا عندیہ دے رہے ہیں۔ انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ حقیقی لیڈرشپ وہی ہوتی ہے جو مشکل میں اپنے عوام کے ساتھ کھڑی ہو۔ الحمدﷲ حکومت اور پاکستان مسلم لیگ ن کی پوری قیادت اور کارکن اس وقت سیلاب زدگان کی مدد میں پیش پیش ہے اور وہ اس طرح کے حربوں پر کسی دباؤ میں آنے کی بجائے عوام کے فلاح و بہبود کا مشن جاری رکھے ہوئے ہے۔ میاں نواز شریف اور میاں شہبازشریف نے دن رات عوام کی خدمت کرکے ثابت کردیا ہے کہ وہی درحقیقت عوامی لیڈر ہیں۔

اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ احتجاجی دھرنے والوں کااصل ایجنڈہ قوم کے سامنے آچکاہے۔ وہ ہر رات کو جو اسٹیج سجاتے ہیں وہ ملک اور قوم کے حقوق کے لئے نہیں بلکہ اپنے مفادات کے حصول کا ڈرامہ ہے بلکہ اب تو عمران خان خود یہ کہہ چکے ہیں کہ ملک خانہ جنگی کی طرف جارہا ہے۔ان کا یہ بیان دوسرے بیانوں کی طرح انتہائی غیر ذمہ دارانہ ہے۔ اسی طرح پاکستان عوامی تحریک کے ایجنڈے کی قلعی بھی کھل گئی ہے۔ ڈاکٹر طاہرالقادری نہ اس ملک کے شہری ہیں اور نہ ہی پارلیمنٹ کا حصہ ہیں۔ انہوں نے جس طرح لوگوں کو اکٹھا کرکے یہاں پارلیمنٹ پر چڑھائی کی وہ قابل افسوس ہے۔ انہوں نے معصوم بچوں اور عورتوں کو جس طریقے سے اپنے مفادات اور ایجنڈے کے لئے بطور ڈھال استعمال کیا ہے وہ قابل مذمت ہے۔ اس کی تصدیق تو اب غیر ملکی ذرائع ابلاغ بھی کر چکے ہیں کہ کس طرح چھ چھ اور دس دس ہزار روپے پر کرائے کے انقلابی لائے گئے تھے اور شیرخوار بچوں اور عورتوں کو زیادہ قیمت پر لایا گیا جو اب اسلام آباد میں محبوس ہر کررہ گئے ہیں۔ ڈاکٹر قادری اگر واقعی عوام کے مسائل حل کرنا چاہتے ہیں توپہلے ان بچوں اور عورتوں کو گھر واپس بھیج کر ان کی اذیت دور کریں ۔

دھرنوں سے جہاں پاکستان میں جمہوریت کوڈیل ریل کرنے کی کوشش کی گئی وہی احتجاج اور سول نافرمانی کے اعلانات سے ریاست کو معاشی طور پر بھی بہت زیادہ نقصان پہنچایا گیا۔ اب تک 800ارب روپے سے زیادہ نقصان ہو چکا ہے۔ زرمبادلہ کے ذخائرمیں کمی ہوئی ہے۔ اسٹاک مارکیٹس میں مندی کے رجحان کے باعث ساڑھے تین سو ارب روپے کا نقصان ہوا۔ اسلام آباد کی املاک کو اب تک پانچ سے سات ملین روپے کا نقصان پہنچ چکاہے۔ پی ٹی وی پر حملے کے دوران بڑے پیمانے پرآلات کو نقصان پہنچایا گیا۔ اسلام آباد کے تاجروں کا بھی 10 سے 12 ارب روپے کا نقصان ہو چکا ہے۔ روپے کے قدر میں کمی اور ڈالر کی قیمت میں اضافے کی وجہ سے پاکستان کے ذمہ واجب ادا قرضوں میں 180 ارب روپے کا اضافہ ہوچکا ہے۔

یہ ہیں آزادی اور انقلابی مارچ اور دھرنے کی ’’ثمراتــــ‘‘ جن کا بوجھ ملک کو اٹھانا پڑے گا۔ پہلے ہی سیلاب کی تباہ کاریوں سے بہت سا نقصان ہوچکا ہے۔ معاشی نقصانات کے اثرات بہت گہرے ہیں۔ سیلاب سے چونکہ فصلوں کو بھی نقصان پہنچاہے اس طرح معاشی نقصانات کی شرح خطرناک حد تک پہنچ چکی ہے۔ ان حالات کا تقاضا ہے کہ ملک کو تقسیم کرنے کی بجائے دھرنے کو ختم کرکے ملک کی ترقی اور استحکام میں ہاتھ بٹایا جائے۔پاکستان پہلے ہی بہت سے نقصانات اٹھا چکا ہے۔ دہشت گردی کی جنگ بھی جاری ہے، لاکھوں آئی ڈی پیز کی دیکھ بھال اور بحالی کا معاملہ ایک طرف ہے، سیلاب سے املاک اور فصلوں کو جو نقصان پہنچا ہے اور لوگوں کی دوبارہ آباد کاری بھی انتہائی کٹھن کام ہے۔ یہ حالات ہمیں یکجہتی اور سیاسی مفادات سے بالاسوچ رکھنے کا تقاضا کرتے ہیں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ سیلاب ہر سال آتے ہیں اور ان سے نمٹنے کے حکومتی اقدامات کم بھی پڑ جاتے ہیں۔حالیہ سیلاب سے سبق سیکھتے ہوئے حکومت نے مزید موثر حکمت عملی مرتب کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ جس کے مطابق سیلابی پانی کو نئے آبی ذخائر میں محفوظ کرنے کی پالیسی کو ترجیحی بنیادوں پر عملی جامہ پہنایا جائے گا ۔اس کے علاوہ ڈیموں کی تعمیر، طغیانی والے دریاؤں مثلاََ چناب، جہلم اور سندھ کے ساتھ حفاظتی بند اور دیواریں، نہروں کے نظام میں بہتری اور آئندہ جانی و مالی نقصانات میں کمی لانے کے اقدامات بھی حکومت کی ترجیحات ہیں۔ مشکلات اور رکاوٹیں موجود ہیں تاہم حکومت دھرنوں، فنڈز کی قلت اور ماضی کی فروگزاشتوں کے باوجود متاثرین کی بحالی کے لئے ترجیحی بنیادوں پر جدوجہد کر رہی ہے اور ان کی مکمل بحالی تک کام جاری رکھنے کے لئے پرعزم ہے۔
Amna Malik
About the Author: Amna Malik Read More Articles by Amna Malik: 80 Articles with 73414 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.