مو دی لہر غائب سیکولر پارٹیوں کی شاندار واپسی

لوک سبھا انتخابات میں بی جے پی کی شاندار کامیابی اور سیکولر پارٹیوں کی افسوسناک ناکامی کے بعد مایوسی کی شکار سیکولرپارٹیوں کی امید یں اب برلانے لگی ہیں ۔عام الیکشن کے بعد ہونے والے ضمنی انتخابات میں مسلسل سیکولر پارٹیوں کو کامیابی مل رہی ہے اور بھگوا پارٹی شکست کا سامنا کررہی ہے ۔بہار میں ہوئے ضمنی الیکشن کے بعد جہاں بی جے پی کو توقع کے مطابق کامیابی ملنے کے بجائے شکست فاش کا سامنا کرناپڑا تھا ۔دس سیٹوں میں سے صرف چار پر کامیابی ملی تھی ۔اس کی نگاہیں یوپی کے ضمنی انتخاب پر تھی ۔بھاجپا لیڈران نے یہ سوچا تھا کہ جس طرح عام انتخاب میں رام مندر کی تعمیر کی وعدہ کرکے فرقہ پرستی کو پھیلاکر اور مسلمانوں کے خلاف زہر افشانی کرکے ہمیں تاریخ ساز کامیابی ملی تھی اسی طرح ضمنی الیکشن میں بھی اس طرح کے ایجنڈا پر عمل کرنا ہوگا چناں چہ یوپی کی گیارہ اسمبلی سیٹوں پہ ہونے والے انتخاب کے لئے انہوں نے اس ایجنڈے بھر پور عمل کیا ۔اتر پردیش میں انہوں سیریل بم بلاسٹ کی طرح سیریل فرقہ وارانہ فسادات کرائے ۔لو جہاد کی اصطلاح قائم کرکے ہندو طبقے کے لوگو ں کومسلمانوں او رسیکولر ذہن کے حامل لوگوں کے خلاف اکسایا ۔ فرضی واقعات گڑھ کے مسلمانوں کی خلاف سازش رچی ۔بی جے پی صدر امت شاہ ،آرایس ایس سربراہ موہن بھاگوت ،ایم پی یوگی آدتیہ ناتھ ،شاکسی مہاراج منیکا گاندھی ،پروین توگڑیا اور دیگربھاجپا رہنماؤں نے خوب زہر افشانی کی۔مدرسہ کو نشانہ بنایا،قربانی پہ پابندی عائد کرنے کا مطالبہ کیا لیکن ان کی یہ تدبیرں کامیابی سے ہم کنار نہیں ہوسکی ۔ملک کی سب سے بڑی ریاست کی عوام نے یہ ثابت کردیا کہ ہم سیکولزرم پہ یقین رکھتے ہیں۔نفرت اور فرقہ پرستی کی سیاست ہماری تہذیب و ثقافت کے خلاف ہے۔

13 ستمبر کو ہندوستان کے کل نو صوبوں میں کل 33 اسمبلی کی سیٹوں کے لئے ووٹنگ ہوئی تھی جس میں سے 32سیٹوں کا نتیجہ 16 ستمبر کو آچکا ہے ایک سیٹ کا نتیجہ 20ستمبر کو آئے گا ۔نتیحہ دیکھنے کے بعد یقینی طورپر بی جے پی کو 16مئی کی تاریخ یاد آئی ہوگی کہ’’ تاریخ وہی ہے صرف ایک سو بیس دن کا عرصہ گذرا ہے جس میں ہمارے عروج کی تاریخ زوال میں تبدیل ہوگئی ۔16مئی کو کاؤنٹنگ ہوئی تھی تواس یو پی سے ہمیں لوک سبھا کی 73 سیٹیں ملی تھیں لیکن آج کے 16 ستمبر میں ہمیں گیارہ میں سے صرف تین سیٹیں ملیں ۔سات سیٹیں ہمارے ہاتھوں سے نکل گئی۔وارنسی جو اپنا علاقہ تھا وہاں بھی کامیابی نہیں مل سکی‘‘۔

33سیٹوں پر ہوئے الیکشن میں بی جے پی کو14 سیٹوں پر کامیابی ملی ہے 12سیٹوں کو اسے نقصان ہواہے ۔سماج وادی پارٹی کو یوپی کی گیارہ سیٹوں سے میں سے 8پر کامیابی ملی ہے 7 سیٹوں کا فائدہ ہوا ہے ۔کانگریس کو 7سیٹوں پر کامیابی ملی ہے 5سیٹوں کا فائدہ ہوا ہے۔اس کے علاوہ دارالعلوم کی مجلس شوری کے رکن او ر ممبر پارلیمنٹ حضرت مولانا بدرالدین اجمل صاحب کی پارٹی یو ڈی ایف کو بھی آسام میں ایک سیٹ پر کامیابی ملی ہے ۔جہاں مولانا کی پارٹی اپوزیشن میں ہے ۔اور کشمیر کو چھوڑ کر آسام تن تنہا ایک ایسی ریاست ہے جہاں ایک مسلم پارٹی اپوزیشن میں ہے اور جس کے تین ممبران پارلیامنٹ ہیں۔آسام کی دودیگر دو سیٹوں میں سے ایک پہ بی جے پی اور ایک پہ کانگریس قابض ہوئی ہے ۔افسوسناک پہلو یہ رہا ہے کہ سہارنپور میں قاضی خاندان کی آپسی خانہ جنگی کی وجہ سے لوک سبھا کی طرح اس مرتبہ بھی ووٹوں کی تقیسم ہوگئی ہے اور بھاجپا امیدوار کو وہاں کی سیٹ آسانی سے مل گئی ۔ چچا بھتیجا کی آپسی خانہ جنگی کی وجہ سے لوک سبھا الیکشن میں عمران مسعود کو صرف چالیس ہزار ووٹوں سے شکست ملی تھی ۔حالیہ الیکشن میں بھی وہی ہوا ۔ساتھ ہی بنگال میں بھی بی جے پی کی انٹری ہوگئی ہے جو افسوسناک ہے ۔وہاں کی دوسیٹوں پر ضمنی الیکشن ہواتھا جس میں ایک پہ ترنمول کو کامیابی ملی اور ایک بی جے پی کو۔گجرات میں بھی بی جے پی کا جادو کامیا ب نہیں ہوسکا جہاں کی تین اسمبلی سیٹوں پر کانگریس نے کامیابی حاصل کی ہے ۔ لوک سبھا کی سیٹوں کا بھی نتیجہ بہتر رہا ۔اتر پردیش کی مین پوری سیٹ سپا کو ملی ۔تلنگانہ کی سیٹ پر بی جے پی کا جادو نہیں چل سکا البتہ گجرات میں مودی کی وڈورا سیٹ پر بی جے پی ہارتے ہارتے بچ گئی ۔خاص طورپہ یوپی کی گیارہ سیٹوں کا نتیجہ مجموعی طو رسب سے بہتر رہا ۔بہار میں ہوئے ضمنی الیکشن کے مقابلے میں زیادہ بہتر ثابت ہواہے جہاں دس میں بی جے پی چار سیٹوں پر کامیابی ملی تھی اور چھ پر سیکولراتحادکو ۔

ضمنی الیکشن کے نتائج نے یہ ثابت کردیا ہے ہندوستان میں فرقہ پرستی اور نفرت بھری سیاست کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے ۔لوک سبھا الیکشن میں بی جے پی کو فرقہ پرستی کے ایجنڈے پر عمل کرنے کی وجہ سے نہیں بلکہ کانگریس کی خراب کارکردگی کی وجہ سے کامیابی ملی تھی ۔بی جے پی کے سینئر لیڈر ایل کے اڈوانی نے خود بارہا اس کا اعتراف کیا ہے کہ ہماری کامیابی کانگریس کی خراب کردگی کی دین ہے ۔عوام کرپشن ،مہنگائی اورفسادات کی وجہ کانگریس کے مخالف ہوچکی تھی اس لئے اس نے متبادل کے طو رپر بی جے پی کو حکومت کا موقع دیا ہے ۔بی جے پی کی جیت میں اہم کردا رکانگریس کا ہے کسی اور کا نہیں یہ اعتراف اڈوانی کا ہے کسی اور کانہیں۔لوک سبھا الیکشن میں بھی بی جے پی کو صرف 30فی صد ووٹ ملاتھا 70فی صد ووٹ سیکولر پارٹیوں کو ملاتھا جو اس بات کاثبوت ہے ہندوستان کی عوام سیکولر ہے ۔اسے سیکولرزم پہ یقین ہے اسی کو اپنانے میں ملک اور سماج کی ترقی ہوسکتی ہے ۔اس کے علاوہ کوئی اور چارہ نہیں ہے ۔

بی جے پی کے لئے یہ احتساب کا موقع ہے کہ وہ ان انتخابات کے نتائج سے سبق سیکھیں ۔اپنے ممبران کو کنٹرول میں رکھیں ۔اشتعال انگیزی اور نفرت بھری سیاست سے انہیں دور رکھنے کی تلقین کریں ۔ نفرت اور فرقہ پرستی کی سیاست سے باز آئے ۔امن ومحبت کی سیاست کا آغاز کرے ۔ہندوستان کی تمام آبادی کو ایک نگاہ سے دیکھے ۔مذہبی تعصب سے توبہ کرے ۔ملک کی ترقی اسی میں ممکن ہے ۔بصورت دیگر ملک کا خسارہ ہے ۔گنگا جمنی تہذیب کی خلاف وزری ہے ۔ہندوستان کے سیکولزم کو خطرہ ہے ۔ملک کی تقسیم کا اندیشہ ہے۔ سیکولرزم کے ایجنڈے پہ عمل کرنے والوں کو ہی یہاں کامیابی ملتی ہے۔
Shams Tabrez Qasmi
About the Author: Shams Tabrez Qasmi Read More Articles by Shams Tabrez Qasmi: 214 Articles with 163709 views Islamic Scholar, Journalist, Author, Columnist & Analyzer
Editor at INS Urdu News Agency.
President SEA.
Voice President Peace council of India
.. View More