بَن کے رہے گا ’’نیا ‘‘پاکستان
(Prof Riffat Mazhar, Lahore)
ہم تودھرتی ماں کے پیارمیں ڈوب
کراُس کی فریادپرلبیک کہتے ہوئے انقلاب کے لیے نکلے تھے لیکن حکمرانوں
کوہماری یہ اداپسندنہیں آئی اوربالآخراُنہوں نے وسیع پیمانے پرپکڑدھکڑشروع
کردی۔شیخ الاسلام کہتے ہیں کہ حکومت نے عوامی تحریک کے 30ہزارکارکُن
پکڑلیے۔وہ کہناتوتیس لاکھ چاہتے تھے لیکن کسی نے مولاناکے کان میں کہہ
دیاکہ تیس لاکھ کچھ زیادہ ہی ہوجائیں گے اِس لیے تیس ہزار پرہی
اکتفاکرنابہترہے لیکن حکمرانوں کوتیس ہزاربھی ’’چبھنے‘‘لگے اوراُنہوں نے
کہہ دیاکہ پاکستان کی کل 31جیلوں میں قیدیوں کورکھنے کی گنجائش ہی تیس
ہزارنہیں توپھرمولاناکے کارکُن کہاں گئے؟۔یہ ہم نہیں جانتے کہ ہمارے قیدی
کارکُن کہاں ہیں لیکن مولاناجوکہتے ہیں،ہمیشہ سچ ہی کہتے ہیں اِس لیے حکومت
کوہمارے یہ تیس ہزارکارکُن توپورے کرکے دینے ہی ہونگے۔اگرحکومت نے ایسانہ
کیاتوہمارااگلادھرناوزیرِاعظم ہاؤس کی چھت پرہوگا۔اِس کایہ مطلب ہرگزنہیں
کہ ہم اسلام آبادکے ڈی چوک میں دھرنے سے دستبردارہورہے ہیں۔یہ دھرناتواُس
وقت تک جاری رہے گاجب تک دھرنے میں شریک آخری شخص بھی کھسک نہیں جاتا۔
ہم تویہی سمجھتے تھے کہ ایک دوروزبعدہی حکومت کا’’پھینٹی‘‘پروگرام شروع
ہوجائے گاکیونکہ حکومت کے پاس گُلوبِلّو،پومی نومی بٹوں کی کمی نہیں لیکن
حکومت کاپیمانۂ صبرلبریزہوتے ہوتے ایک ماہ بیت گیااوراب اسلام آبادکی پولیس
دھرنادینے والوں پرایسے جھپٹ رہی ہے جیسے شاہیں کبوترپر۔اُس نے توہمارے ڈی
جے بَٹ کوبھی نہیں چھوڑا۔قصوراُس کافقط اتناتھاکہ جب سارے’’بَٹ‘‘حکومت کے
ساتھ ہیں توپھروہ اکیلاتحریکِ انصاف میں کیوں گھُسابیٹھاہے؟۔ہمارے بیچارے
عوامی تحریک کے ڈپٹی سیکرٹری تاریخ بھگتنے گئے اوردھرلیے گئے۔وہ تواﷲ
بھلاکرے الیکٹرانک میڈیاکاجس نے شورمچادیااورعوامی تحریک کے کارکن اُنہیں
چھڑالائے۔ہم پہ الزام ہے کہ ہم نے PTVپرقبضہ کیا،پارلیمنٹ کاگیٹ
توڑااورریڈزون کے درختوں کوآگ لگادی۔یہ بجالیکن پوری قوم جانتی ہے کہ
مُرشدنے صرف گملے نہ توڑنے کااعلان کیاتھا،باقی کسی شے کانہیں۔کوئی بھی
غیرجانبدارمبصرآکردیکھ سکتاہے کہ اسلام آبادمیں ایک گملابھی نہیں ٹوٹااوروہ
جوریڈزون کے سارے فُٹ پاتھ اُدھیڑکے رکھ دینے کاالزام ہے،تووہ توہم نے
حفاظتِ خوداختیاری کے تحت کیاکیونکہ اسلام آبادمیں پتھردستیاب نہیں
تھے۔اگرہم فُٹ پاتھ توڑکرپتھرحاصل نہ کرتے توپولیس کے ’’کھُنے‘‘کیسے سینکتے؟۔
ہم توبڑے سکون سے اسلام آبادمیں بیٹھے تھے لیکن ’’شریر‘‘حکومت نے’’ایویں
خوامخواہ‘‘ہم سے’’پنگا‘‘لے کر ہمارے پُرسکون دھرنے کوتہس نہس کرکے رکھ
دیا۔سوہم نے بھی سوچاکہ
عجزونیازسے تووہ آیانہ راہ پر
دامن کواُس کے آج حریفانہ کھینچئے
اب جس تھانے میں بھی ہمارے ساتھی قیدہوتے ہیں،ہم وہاں دھاوابول کراپنے
ساتھیوں کومکھن میں سے بال کی طرح نکال لے جاتے ہیں۔ابھی کل ہی ہمارے کپتان
صاحب نے بھارہ کہوکے تھانے پردھاوابولااوراپنے 11ساتھیوں کونکال لے
گئے۔سونامیوں کاتویہ اصراربھی تھاکہ تھانے کے تمام اہلکاروں کومعطل
کردیاجائے لیکن خاں صاحب نے کمال مہربانی کرتے ہوئے صرف اپنے ساتھیوں کی
ہتھکڑیاں کھلوانے پرہی اکتفاکیا۔وہ اگرآئی جی سمیت تمام اہلکاروں کومعطل
کردیتے توملک میں انارکی پھیل جاتی جوخاں صاحب کوہرگز منظورنہیں
تھاکیونکہ’’نئے پاکستان‘‘میں انارکی کی کوئی گنجائش نہیں۔اب ہم جمعے
کوپاکستان کی تاریخ کاسب سے بڑااجتماع کرنے جارہے ہیں اورایک محتاط ترین
اندازے کے مطابق اِس اجتماع میں کم ازکم 50لاکھ انقلابیے اورسونامیے
توہونگے ہی ۔کیااب بھی حکومت کو پتہ نہیں چلاکہ ہم بھی کسی سے کم
نہیں؟۔اگرطالبان بنّوں جیل توڑکراپنے تین سوساتھیوں کو چھڑواسکتے ہیں
توکیاہم اتنے’’گئے گزرے‘‘ہیں کہ کسی چھوٹے موٹے تھانے سے اپنے ساتھیوں
کوچھڑابھی نہیں سکتے؟۔
ہم نے توپارلیمنٹ پرقبضہ کرلیاتھااورپی ٹی وی کی نشریات بھی بندکروادی تھیں
تاکہ ’’اُن‘‘کوسہولت رہے لیکن چودھری شجاعت صاحب ’’اُدھر‘‘سے حکم لے آئے
اورہمیں طوہاََوکرہاََڈی چوک پرواپس آناپڑا۔ہمیں تواب بھی پختہ یقین ہے
کہ’’وہ‘‘ہمارے ساتھ ہیں کیونکہ ہمیں اِس کی گارنٹی چودھری برادران اورشیخ
رشیدنے دی ہے لیکن پتہ نہیں پاک فوج کے ترجمان میجرجنرل عاصم باجوہ صاحب
کیوں’’اوکھی اوکھی‘‘باتیں کرنے لگے ہیں۔کل بھی اُنہوں نے برطانوی نشریاتی
ادارے کوانٹرویودیتے ہوئے فرمایا’’فوج سیاست میں ملوث ہے نہ ہی ملک میں
جاری سیاسی بحران میں کسی فریق کی حمایت کررہی ہے۔فوج کاشروع سے ایک ہی
موقف رہاہے کہ یہ ایک سیاسی مسٔلہ ہے اوراسے سیاسی طریقے سے ہی حل
کیاجاناچاہیے۔فوج کسی ایک فریق کاساتھ دینے کی متحمل نہیں ہوسکتی کیونکہ یہ
پوری قوم کی فوج ہے۔ہم نے نہ پہلے کسی ایک فریق کی حمایت کی ،نہ آئندہ کریں
گے‘‘۔پاک فوج کے ترجمان کے اِس بیان پرہم پریشان توبہت ہوئے لیکن پھرچودھری
شجاعت صاحب نے ’’اندرکھاتے‘‘ہمیں تسلی دے دی کہ جنرل صاحب’’ایویں
مخول‘‘کررہے ہیں۔
اگرکوئی یہ سمجھتاہے کہ ہم کسی کمزوری کے تحت پارلیمنٹ سے واپس ڈی چوک آئے
تو یہ اُس کی بھول ہے ۔اصل معاملہ یہ تھاکہ ایک توہم وہاں محصورہوکررہ گئے
تھے اوردوسرے اعلیٰ عدلیہ دھمکیوں پراُترآئی تھی اِس لیے ہم نے’’کھلی
ڈُلی‘‘جگہ پرجانے میں ہی عافیت جانی۔اب وہاں تنوربھی لگ گئے ہیں،تازہ
سبزیوں اورگوشت کی دوکانیں بھی،موچی نائی بھی اپنی دوکانداری چمکارہے ہیں
اورپکی پکائی تازہ روٹی بھی مل جاتی ہے البتہ ’’بیوٹی پارلر‘‘ابھی تک نہیں
کھلے جس سے خواتین میں بے چینی پائی جاتی ہے۔دروغ بَرگردنِ راوی ہمارے
رہنماؤں نے دو،چاربیوٹی پارلروالوں سے رابطہ بھی کیالیکن فی الحال کوئی
اپناپارلرکھولنے کوتیارنہیں۔لیکن کوئی بات نہیں ہم کونساڈی چوک سے جارہے
ہیں۔چھوٹے اوربڑے بھائی کاحکم ہے کہ وزیرِاعظم کے استعفے تک ہمیں یہیں
رُکناہے اوراتناتوہمیں بھی معلوم ہے کہ وزیرِاعظم صاحب کبھی استعفیٰ نہیں
دیں گے اِس لیے جب بیوٹی پارلروالوں کوپکایقین ہوگیاکہ ہم یہاں سے جانے
والے نہیں تودو،چارپارلرکھُل ہی جائیں گے۔
ہم نے توپارلروالوں کے لیے ہزارروپے کانوٹ ابھی سے سنبھال کررکھ لیاہے جس
پر’’گونوازگو‘‘لکھاہے کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ بازارمیں تواب اِس نوٹ
کی’’کَکھ‘‘قیمت نہیں البتہ ڈی چوک میں کھلے بیوٹی پارلر والوں
کوڈرادھمکاکریہ نوٹ’’چلا‘‘ہی لیں گے۔ہم نے توشیخ الاسلام کے حکم پراپنے
کرنسی نوٹوں پر’’گونوازگو‘‘لکھ لیالیکن علامہ نے اگلے دِن ہی کرنسی نوٹوں
پرنعرے لکھنے کی مہم واپس لے لی۔باخبر’’ذرائع‘‘کے مطابق علامہ صاحب کوخواب
میں یہ ڈانٹ پڑی کہ’’کبھی ریسرچ بھی کرلیاکرو‘‘۔جس پرعلامہ ہَڑ بڑاکراُٹھے
اورریسرچ کرنے پرپتہ چلاکہ کوئی سیاسی یاغیرسیاسی نعرہ لکھنے سے کرنسی نوٹ
محض کاغذکابیکارپُرزہ رہ جاتاہے۔اِس لیے اُنہوں نے اگلے ہی دن یہ حکم واپس
لے لیالیکن عقیدت مندوں کوتو’’چُونا‘‘لگ گیا۔ |
|