بی جے پی کی ہار فرقہ پرستی کا نتیجہ

لوجہادکی حدت اور سرمستیوں کا اس طرح بی جے پی پراثرپڑا کہ جہاں کثیر ووٹوں کے ساتھ انتخابات کے رخ،مزاج اور تصویر بدل گئی تھی اب وہیں مذکورہ یرقانی گروہ کوسانس لینا بھی مشکل واقع ہورہا ہے کیو نکہ حدت عشق اور سرمستی سودا کا یقین اب موہوم ہوتا جارہا ہے اور یہ بات بھی واضح طور سے تسلیم شدہ ہے کہ جب تک عوام اور وہ بھی اکیسویں صدی کے افراد کو وعدوں کے وفا کی تصویر عیاں نہ دکھائی جائے ،اس کو عملی جامہ نہ پہنائے جائے نیزسوداکی سرگرانی کے ساتھ ساتھ مقتضیات عشق کو پورے نہ کیے جائیں عوام کو لفظوں کے جال او رمعموں میں الجھاکر نہیں رکھا جاسکتااور کب تک اس صدی کے عوام کو فریب خوردگی کا شکاربنا یا جاسکتاہے ؟بی جے پی نے عام انتخابات میں وہی کیا تھالیکن بیدارعوام کو آخرش کب تک دھوکہ اور فریب میں مبتلا کیا جائے لازماًعوام نے اپنے غصہ اورعدم تکمیل وفاکے اضطراب کا یوں اظہارہواکہ ’اچھے دنوں‘کا نعرہ تو کجا’’لوجہاد‘‘کی حدت وکلفت بھی د م توڑتی ہوئی نظرآئی واقعتہً اگرموجودہ ’’ستادھاری‘‘جماعت اپنے وعدوں کو وفاکرتی تویوپی میں تاریخ سازجیت کے باوجو د اس شرمناک شکست سے دوچارنہ ہوتی ۔قارئین اور ارباب فکر و دانش اتراکھنڈمیں بی جے پی کی شکست یاد ہو گی کہ کچھ ہی دنوں میں ہی جس طوفان کا دعوی کیا جارہا تھااتر اکھنڈکے کو ہستانی اور برفانی سیا سی میدان میں اس کا خاتمہ ہو گیا تھااور اس خاتمہ سے مو جودہ حکمراں جماعت کو بھی ایک خاموش پیغام ملا تھا کہ اگر اسی نفاق پر عمل ہوتا رہا تو نتائج کا رخ دوسری سمت بھی ہو سکتا ہے لیکن مسلسل غفلت ،فرقہ پرستی ،اشتعال انگیزی اور خود اعتمادی کے زہر نیزفتح کے جنون نے آج یو پی میں اس مقام میں لا کھڑاکیا ہے اب سوائے بغلیں جھانکنے کے کو ئی دوسرا متبادل موجود نہیں ہے ۔پہلے مرحلہ میں تبدیلی امکاں کا انتباہ دیا گیا تھامگر جیت کے غرور نے سنبھلنے کا موقع نہ دیا، دوسرے مرحلہ میں بھی انتباہ کی گھنٹی بجی تھی بہار ،کرناٹک،مدھیہ پردیش،پنجاب وغیرہ میں بھی اس انتباہی کاروائی کاشورغل سنائی دیا تھامگر تغافل کیشی جاری رہی اب تیسرے مرحلہ میں انتباہ نے واضح پیغام دے دیا ہے کہ غفلت اور فتح کے گھمنڈاور فرقہ واریت کی اشاعت کے باعث حاشیہ برداری کا ’’تحفہ حرمانی‘‘عطاکیا گیا ہے ۔

کیا یہ حکمراں جماعت کیلئے تازیانہ نہیں ہے کہ تیسرے مرحلہ کے ضمنی انتخابات کی ۳۳/سیٹوں میں سے محض ۱۳/سیٹ پرہی سمٹ جانا پڑ ااور مزید حسرت اور چاک گریبانی کی بات تو یہ ہے کہ ۲۶/سیٹیں بی جے پی کے قبضہ والی تھیں اب ان سیٹوں سے ہاتھ دھونا پڑرہا ہے ۔یو پی میں گیا رہ سیٹ کیلئے ضمنی انتخابات ہوئے ان ۱۱/میں سے ۸/سپاکے ہاتھ لگیں تو وہیں بی جے پی کو اپنی فرقہ وارانہ کارستانیوں کے باعث ۳/پرہی اکتفاکرناپڑایوپی کے نتائج بی جے پی اور یرقانی مریضوں کیلئے شاید ایک نسخہ مجرب ہو۔

آخر بڑی حیرانی ہوتی ہے کہ یہ وہی اترپردیش ہے جہاں۱۶/مئی کو انتخابی نتائج نے ایک عجیب رخ اختیا رکیا تھااور جہاں’’ کمل‘‘کے کھلنے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگادیا جاتا تھا،وہاں زبردست اکثریت اور کثیر ووٹوں کے ساتھ ایوان تک پہونچاگیا تھالیکن آج محض چار ماہ کے اندر ہی واضح ہوگیا کہ وہ نتائج صرف ایک آوارہ ہواکا جھونکا تھے اس کے پس پردہ کوئی اور بھی مضمرات تھے جو کاربند تھے۔حتی کہ چشم فلک نے بی جے پی کو اپنے یرقانی خول میں چھپتے ہوئے بھی دیکھا گیا اس مو قعہ پرنہ تو لو جہاد کا رہریلا ایجنڈہ کام آیااور نہ ہی فرقہ واریت کی بلاخیزتخم ریزی اپنا پھل دے سکی۔اب اس زعفرانی جماعت کیلئے صرف ایک ہی مو قعہ کہ وہ خود احتسابی کاعمل شروع کرے اور جہاں تک ہوسکے اس نکتہ پرغور کرے کہ اس شرمناک شکست کی وجہ کیا تھی ؟؟جب کہ انھوں نے اپنی تمام تر کوششوں کو بروئے کاربھی لایا اپنی مکروہ شرست کایوں اظہار کیا کہ فائربرانڈ یو گی آدتیہ ناتھ کو ہی اس ضمنی انتخابات کی مہم سپرد کردی اس امیدکے ساتھ کہ جس طرح حالیہ گذشتہ عام انتخابات میں فرقہ پرستی کا زہر ہلاہل اور نفرت انگیزبیانات کے ذریعہ ماحول کو متعفن اور فرقہ وارانہ بناکر نیزرام مندر کے فرضی اور گمراہ کن پروپیگنڈہ کے ذریعہ عوام کو بہکا کرووٹ حاصل کیا تھااس ضمنی انتحابات میں بھی ان ہی فریب کا ریوں کے ذریعہ ووٹ حاصل کیا جائے تاہم جو نتائج سامنے آئے اس سے یرقانی گروہ حیران ہی نہیں ہے بلکہ اپنی ناکامی کی خفت کو مٹانے کی کوشش بھی ناکام نظرآتی ہے ۔تنائج کے معاًفائربرانڈیوگی آدتیہ ناتھ نے اپنی خفت مٹانے کی یوں کوشش کی کہ اس ناکامی کا سارا ٹھیکراپارٹی اور دیگررہنماؤں کے سر پھوڑدیا اور کہا کہ ہمارے جو منصوبے ،عزائم تھے ان میں خامیوں کاوجود تھالہذا’’آتم ویش لیشن ‘‘کی ضرورت ہے ،ٹکٹ کی تقسیم میں بھی جانبداری اپنائی گئی ہے مگریوگی یہ کیوں بھول رہے ہیں کہ ان کی زہر افشانیوں نے ہی ان کی ساری جدوجہد پر پانی پھیردیا اور ناکامی ان کے ہاتھ لگی آخر یوگی مان ہی گئے کہ کہیں نہ کہیں ہمارے عزائم میں خامیوں کا وجود تھا۔مگریہ اقرار کرلینے میں کو ن سی قباحت ہے کہ ساری غلطی ہماری نہیں بلکہ ہمارے سینئر لیڈران اور ان کے آقاؤں کی ہے جوباربار عوام کومختلف نام اور مختلف جہات سے گمراہ کرنے اور سماج میں بھیدبھاؤپھیلانے کا ہنر خوب جانتے ہیں۔عوام نے جس امید اور یقین کے ساتھ مودی کو وزیر اعظم کیلئے منتخب کیا تھاوہ امید اور یقین تو دم توڑہی گئی ’’اچھے دنوں‘‘کا فریبی نعرہ بلندکر نے والے بھی ’’اچھے دن‘‘کو لانہ سکے ،عوام کوکیا ملا؟سوائے نقصان کے کچھ بھی ہاتھ نہ لگا،تحفتہً مہنگائی اور بھکمری ۔پہلے ایک غریب خاندان رات کو بھوکا نہیں سوتا تھالیکن اچھے دنوں کی ایسی آمد ہوئی ہے کہ یہ غریب اوریومیہ اجیر ایک وقت کی روٹی کیلئے بھی تڑپ کر رہ گئے سب سے زیادہ اس مہنگائی کا اثر متوسط طبقہ پرپڑاہے تنخواہ تواتنی ہی رہی مگرجیب پر اضافی بوجھ نئی سرکار نے جبراًڈال دیا ذرائع نقل وحمل کا کرایہ بھی حسب عادت بڑھادیا گیاالغرض نئی سرکار کو کرسی پربیٹھتے ہی محض چارماہ کا ہی عرصہ ہواان ہی چارماہ کے عرصہ میں عوام مہنگائی سے اس قدر نالاں ہو چکی کہ شدید اضطراب پھیل گیاجس کا نتیجہ تینوں مراحل میں منعقدہ اسمبلی کے ضمنی انتخابات کے نتائج میں ظاہر ہوگیا۔اس دوران جی بھر کے فرقہ پرست اوریرقانی مریضوں نے دل کی بھڑاس نکالی سوشل میڈیا تو کجاپروین تو گڑیا ،موہن بھاگوت ،اشوک سنگھل،یوگی آدتیہ ناتھ اورساکشی مہاراج جیسے لوگوں نے سرعام قتل وخون ،مارکاٹ او رنفرت انگیزبیانات اور شعلہ نوا تقاریر کیے جس کا حاصل اور مقصد یہی تھاکہ ضمنی انتخابات میں بھی ووٹ اور بھاری اکثریت حاصل کی جائے تاہم نتائج ان کے توقعات کے بالکل ہی خلاف برآمد ہوئے اور ان کی ساری یرقانی کوشش رائیگاں گئیں۔

تینوں مراحل میں ہوئے انتخابات کے نتائج سے جو امیدیں چارماہ قبل دم توڑگئی تھیں وہ دفعتہ زندہ ہو گئیں اور عوام نے ایک بار پھر یہ ثابت کردیاکہ ہندوستانی کی ’’بھارتیتہ‘‘اور آپسی محبت بلکہ سیکولرزم ابھی زندہ ہے اور یہ بھی پرزورانداز میں واضح ہو گیا کہ لوجہاد کے فرضی شوشہ اور مکروہ پروپیگنڈہ کے ذریعہ ملک اور سماج کو بانٹنے کی کوشش کی جارہی ہے ہم اس کوشش اور مکروہ اقدام کے خلاف سینہ سپر ہیں یہ نتائج دراصل ایک خاموش پیغام ہے کہ ملک میں جمہوریت اور سیکولرزم کو اپنی بقاء اور امید زیست پرخوشیاں مناناچاہیے کہ سیکولرزم کی بنیاد مودی لہر سے کمزور نہیں ہوئی ہے اور ساتھ ہی ساتھ یرقانی مریضوں کیلئے بھی ایک نسخہ حیات بھی ہے کہ اپنی ضد،کبر،نخوت،فرقہ پرستی اور شرانگیزی کو مادر وطن کی خاطر چھوڑدیں اور تمام گذشتہ گناہوں سے توبہ کرلیں کیونکہ یہ وقت کاتقاضابھی ہے او رہندوستان کے اصل معانی کے فہم و ادراک کی سمت ایک مثبت قدم بھی ہوگا۔
Iftikhar Rehmani
About the Author: Iftikhar Rehmani Read More Articles by Iftikhar Rehmani: 35 Articles with 26522 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.