15ستمبر کو پاکستان سمیت دنیا
بھر میں جمہوریت کا عالمی دن منایا گیا۔ورلڈ ڈیمو کریٹک ڈے ،منانے کا مقصد
جمہوریت کے لیے عوامی شعور پیدا کرنا اور غیر جمہوری قوتوں کا راستہ روکنے
کے لیے آواز بلند کرنا ہے،جمہوریت ایک بین الاقوامی ریاستی نظام ہے جس کی
ابتداء 17ویں صدی کے وسط میں ویسٹ فیلیا کے معاہدے سے ہوتی ہے۔1648 ء میں
ہونے والے اس معاہدے میں ریاست کی متعین حدود،ریاست اور شہریوں کے مابین
تعلق نیز ریاستی امور سے مذہبی پیشواؤں کی علیحدگی کے تصورات پیش کیے گئے
تھے جدید قومی ریاست انہی اصولوں کی بنیاد پر سامنے آئی تاہم ریاست کے اس
تصور کا ارتقاء قریب دو سو برس تک یورپ میں محدود رہا،بیسویں صدی شروع ہوئی
تو ایشیاء اور افریقا کے وسیع خطے نو آبادیاتی نظام کے تحت غیر ملکی غلامی
کا شکار تھے بہت سے ممالک میں بادشاہت برقرار تھی جمہوریت کا دعوی ٰ کرنے
والے بہت سے ممالک میں نسل،جنس ،عقیدے اور زبان یا ثقافت کی بنیاد پربہت سے
شہری گروہوں کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھا جاتا تھا۔ہندوستان نو آبادیوں
میں سب سے پہلا خطہ تھا جہان حق خود ارادیت کے اصول کی بنیاد پرپر امن
سیاسی مقالمے کے زریعے آزادی کی جدوجہد شروع ہوئی۔ گر اس دن کی تاریخ پر
نظر ڈالی جائے تو یہ آج سے کچھ سات برس پہلے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے
دو ہزار سات میں جمہوریت کا عالمی دن منانے کا اعلان کیا اور پندرہ ستمبر
دو ہزار آٹھ کو دنیا بھر میں پہلا عالمی یوم جمہوریت منایا گیا اس دن کی
مناسبت سے پاکستان سمیت دنیا بھر میں سیاسی تنطیموں اور سول سو سائٹی کے
زیر اہتمام سیمینارز،مذاکروں اور دیگر تقریبات کا انعقاد کیا جاتا ہے جن
میں ملک اور انسانی ترقی میں جمہوریت کے کردار اور اہمیت پر مقررین روشنی
ڈالتے ہیں اس دن کو منانے کا مقصد یہ بھی ہو سکتا ہے کہ لوگوں میں شعور
اجاگر ہو کہ وہ جمہوری تاریخ اور افادیت کو سمجھیں اور اس کی بنیاد
پرجمہوریت کو پروان چڑھانے کے عمل میں بہتر فیصلہ اور عمل کر سکیں۔کتابوں
میں لکھی گئی اور دنیا میں رائج جمہوریت کا خلاصہ تو یہ بیان کرتا ہے کہ
جمہوریت اس نظام کا نام ہے جس میں عوام اس توقع پر اپنے سے زیادہ زمہ
دار،معتبر اور قابل افراد کو با اختیار بناتے ہیں تاکہ وہ ایک مخصوص مدت کے
لیے منتخب ہو نے کے بعد عوام کی بنیادی ضرورتوں اور آزادیوں کہ بلا امتیاز
یقینی بناتے ہوئے عوام کے مفاد میں قانون سازی کریں،ریاستی اداروں کو مضبوط
کرکے ان کو اس قابل بنائیں کہ یہ ادارے خودکار طریقے سے ڈلیور کر سکیں،سروس
کی ڈلیوری میں ناکام رہنے والے اداروں کا ہر پہلو سے تجزیہ کر کے ان میں
موجود ایسی خامیاں تلاش کی جائیں جو ان اداروں کی استعداد کار میں رکاوٹ
بنی ہوئی ہوں،قومی وسائل جیسے جنگلات،معدنیات ،پانی اور سرکاری اثاثوں کی
حفاظت کے لیے موثر میکنزم ترتیب دے کر ان وسائل سے استفادہ کرنے کے کا
پرگرام تشکیل دے کر ملک سے ایسے با صلاحیت افراد کو مواقع فراہم کیے جائیں
جو ریاستی اداروں کو لاحق مرض کی تشخیص کر کے اس کی دوا تجویز کرنے کی
اہلیت رکھتے ہوں اور ان وسائل کو لوٹ مار سے بچا کر قومی ترقی کے لیے
استعمال میں لا سکیں اور روز مرہ اور دور رس داخلی اور خارجی مسائل کو
اخلاص کے ساتھ حل کرنے کی کوشش کریں جو اس میں پورے اترتے ہیں انہیں دوبارہ
موقع مل جاتا ہے جو نہیں اترتے انہیں ووٹر عارضی یا مستقل طور پر گھر یا
حزب اختلاف کی بینچوں پر بھیج دیتے ہیں جبکہ پاکستان میں رائج الوقت
جمہوریت ایک ایسے نظام میں ڈھل چکی ہے جس میں کچھ پیشہ ور خواب فروش عوام
کو بار بار سپنوں کا دھتورا پلا کر خود کو منتخب کرواتے ہیں اور ہر مرتبہ
نئے خوابوں میں نیا نشہ ملا کر بیچتے ہیں اور جب یہ نسخہ ایکسپائر ہو جاتا
ہے تو سیاسی و سماجی پلاسٹک سرجری کروا کر سادہ لوحوں کو کسی نئے سبز باغ
کا جھانسہ دیتے ہیں جب اس سے بھی کام نہیں چلتا تو خواب میں تعصب کی
اجوائن،تنگ نظر قوم پرستی کا معجون،جوشاندہ سازش،برگ رشوت،سفوف برادری ،شربت
وعدہ اور عرق بے ایمانی ملا کر خوب گھوٹتے ہیں یہ آمیزہ پی کر جب نشے میں
دھت ووٹر بیلٹ باکس کی طرف بڑھتا ہے تو بے چارے کا قدم کہیں پڑتا ہے اور
ووٹ کہیں،وہ خوش خوش گھر واپس آتا ہے اور سو جاتا ہے جب نشہ اترنے کے بعد
آنکھ کھلتی ہے تو وہی پرانے خواب فروش سامنے پاتا ہے جنہیں بدلنے کے لیے اس
نے مسائل کے کوہ قافوں میں چلے کاٹے تھے،پچھلے 67 برس سے یہاں ہر شیروانی
اور وردی والا اس نظام کی آڑھ میں ایک فر نچائز کھولے بیٹھاہے اور جمہوریت
کی آڑھ میں جمہورے متعارف کروا رہا ہے یہ جمہورے عالمی مداریوں کی فراہم
کردہ مصنوعات کا سٹال سجائے ڈگڈگی بھی بجا رہے ہیں اور آوازیں بھی لگا رہے
ہیں تم نے پچھلی دفعہ ووٹ دیا تھا تو قمیض ملی تھی نا اس دفعہ دو گے تو
شلوار بھی ملے گی ہم نے، استاد،، کے چرنوں میں بیٹھ کر یہ خدمت کا جذبہ
سیکھا ہے یہ سب، استاد،، کی خدمت کی وجہ سے ممکن ہوا ۔یہ جمہورے گزشتہ چھ
دہائیوں ننگ دھڑنگ اور بے کسوں میں عالمی مفاد کا زہر ہر بیماری کے لیے
نسخہ کیمیاء قرار دے کر بیچ رہے ہیں،آج دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی جدید
ریاستوں نے جمہوری نظام کی چھتری تلے جو سیاسی،سماجی اور معاشی آزادی اور
کامیابی کی سیڑھیاں طے کی ہیں وہ دراصل آزادی کی اس لڑائی کا ثمر ہے جو
اٹھارویں صدی کے روشن خیال فلسفے،انیسویں صدی کے انسان دوست سیاسی افکار
اور نشاۃ ثانیہ کے بعد سامنے آنے والے سائنس کے علمی منہاج کی بنیاد پر لڑی
جا رہی تھی۔ اس میں ہیرا پھیری اور مداریوں کو تماشے دیکھانے کا زیادہ وقت
نہیں دیا گیا۔اگر چہ اس نظام میں اختسابی عمل موجود ہے جیسے بے نظیر بھٹو
نے کہا تھا کہ کہ جمہوریت بہترین انتقام ہے ،لوگ جمہوریت کی اصل روح سے
استفادہ کرنے کے لیے اس شیطانی چکر سے واقعی چھٹکارہ حاصل کرنا چاہتے ہیں
لیکن مافیاز،کارٹیل اور دائروں میں سفر کی سفاکی سے کیسے چھٹکاہ پائیں؟جہاں
سائے نے بھی سائے سے گٹھ جوڑ کر رکھا ہے،جہاں وقت بھی اندر خانے پروفیشنل
خرکاروں سے ملا ہوا ہے۔رات اپنے شکار کو اگل کر جعلی دن کے حوالے کر دیتی
ہے اوردن اس شکار سے حساب چکتا کر رات کے سیاہ جبڑوں کے حوالے کر دیتا ہے۔
ان کروڑوں بے سکون اور بے چہرہ لوگوں کے ،جمہوریت کے لیے اتن زتن بھی اس
راہگیر کی پیشکش کی طرح ہیں جس نے ایک نشئی کو دیکھا جو ہاتھوں میں رعشہ کے
باعث تالہ کھولنے کی کوششوں میں ہلکان ہو رہا تھا رہگیر نے از راہ ہمدردی
تالہ کھولنے کی پیشکش کی تو نشئی نے نشاط انگیز نظروں سے راہگیر کو دیکھا
اور گویا ہوا، ابے ! تالہ تا میں بھی کھول لوں گا آپ زرا اس دیوار کو پکڑ
کر رکھنا یہ کافی دیر سے ہل رہی ہے ۔دھتورا نوش ووٹر کی عالمی ڈیمو کریٹک
ڈے منانے والوں سے یہی التجا ہے ،جمہوریت کے خزانے کی کنجی تو ہم دردمندوں
نے پچھلے سڑسٹھ برس سے تھام رکھی ہے بس زرا کوئی اس دیوار کو پکڑ کر رکھے
یہ کافی دیر سے ہل رہی ہے !۔ |