دھرنوں کی سیاست جاری....ملکی معیشت سنگین خطرات کی زد میں
(عابد محمود عزام, karachi)
ملک میں تحریک انصاف اور
عوامی تحریک کی طرف سے اسلام آباد میں دھرنے دیے کو ایک چلہ (چالیس دن)
مکمل ہونے کو ہے۔ ان دھرنوں کے نتیجے میں ابھی تک کوئی واضح صورتحال نظر
نہیں آرہی، بلکہ دن بدن ملک و قوم کے لیے نئے نئے مسائل جنم لے رہے ہیں اور
ملک ہر چڑھتے دن کے ساتھ مزید الجھن اور سیاسی طور پر عدم استحکام کا شکار
تو ہو ہی رہا ہے، اس کے ساتھ پوری قوم بھی غیر یقینی صورتحال اور کشمکش میں
مبتلا ہے اور سب سے افسوس کی بات یہ ہے کہ اسلام آباد میں دھرنے شروع ہونے
کے بعد سے ملک کو کھربوں ڈالرز کا نقصان ہوچکا ہے اور اس نقصان میں دن بدن
اضافہ ہورہا ہے۔ جبکہ دھرنا سیاست کرنے والے ابھی تک اپنی ”انا“ کے ہاتھوں
بے بس و مجبور ہوکر اپنی ضد پر قائم ہیں اور ملکی معیشت کی بربادی کا سامان
کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ خان صاحب نے تو ”سول نافرمانی“ کا اعلان اور پوری
قوم کو سول نافرمانی کی تلقین کر کے باقاعدہ ”مشن“ کے تحت ملکی معیشت کو
نقصان پہنچانے کی ٹھانی ہے۔ خان صاحب کے سول نافرمانی اعلان کے بعد ان کے
کارکنان گرتی ہوئی ملکی معیشت کو مزید گرانے کے لیے کمر بستہ ہیں۔ اقتصادی
ماہرین کے مطابق ملک میں جاری سیاسی بحران ملک کو کسی بڑے معاشی بحران سے
دوچار کر سکتا ہے، اگر سیاسی بحران پر جلدی قابو نہیں پایا گیا تو خطرہ ہے
کہ ملکی معیشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے، کیونکہ ملک میں سیاسی بحران کے
باعث غیر ملکی سرمایہ کاری کم ہو رہی ہے اور روپے کی قدر میں بھی دن بدن
کمی واقع ہو رہی ہے۔ دھرنوں کی وجہ سے ملک کو ہونے والے نقصان کی وضاحت
گزشتہ روز اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی آئندہ دو ماہ کے لیے اعلان کردہ
مانیٹری پالیسی سے بھی ہوتی ہے۔ مانیٹری پالیسی کے مطابق اگرچہ ملک کی
معاشی صورت حال بہتری کی جانب گامزن ہے، مالی سال 2014,15 کے آغاز سے اب تک
ملک کی معیشت میں بہتری آئی ہے، لیکن اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے ملک میں
جاری سیاسی تعطل کو ملکی معیشت کے لیے خطرناک قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ
عوامل نجی سرمائے کی آمد، پیداوار اور غذائی اشیا کی سپلائی چین کو متاثر
کر سکتے ہیں اور مہنگائی میں کمی کی کوششوں میں دشواری کا باعث ہے۔ اسٹیٹ
بینک نے پالیسی ریٹ میں کوئی تبدیلی نہ کرنے اور اسے 10 فیصد رکھنے کا
فیصلہ کیا ہے اور رپورٹ میں کہا ہے کہ جولائی کے زری پالیسی فیصلے کے بعد
کے دور میں مستحکم معاشی حالات برقرار رہے۔ نمایاں ترین پہلو عمومی
(headline) گرانی تھی، جو اگست 2014ءمیں کم ہوکر 7.0 فیصد سال بسال ہوگئی،
جو جون 2013ءسے اب تک پست ترین سطح ہے۔ مالی سال 14ءمیں 4.1 فیصد کی بہتر
شرح نمو ریکارڈ ہونے کے بعد حقیقی معاشی سرگرمی مالی سال 15ءمیں جاری رہنے
کی توقع ہے۔ رپورٹ کے مطابق موجودہ سیاسی تعطل، آئی ایم ایف کے چوتھے ریویو
کی تکمیل میں تاخیر اور موجودہ موسلادھار بارشیں اور سیلاب جو وسطی و جنوبی
پنجاب پر چھاگئے ہیں معاشی سرگرمی میں ابتدائی بحالی کے لیے خطرے کا باعث
بن رہے ہیں۔ دو اوّل الذکر عوامل نجی سرمائے کی آمد پر زیادہ اثر ڈالیں گے۔
مو ¿خر الذکر پیداوار اور تلف پذیر غذائی اشیا کی سپلائی چین کو متاثر
کرسکتے ہیں، جو گرانی کے بصورت دیگر بہتر منظر نامے کے لیے دشواری کا باعث
بن سکتا ہے۔
معاشی ماہرین کے مطابق وفاقی دارالحکومت میں جاری دھرنوں اور پنجاب میں
سیلاب کے سبب ملکی معیشت کو درپیش حقیقی خطرات اسٹیٹ بینک کی جانب سے ظاہر
کردہ خطرات سے کئی گنا زیادہ ہیں۔ گزشتہ 2 ماہ سے سرمایہ کاری اور ٹیکس
وصولی میں کمی، جب کہ زر مبادلہ کے ذخائر گررہے ہیں، جس کے پیش نظر خدشہ ہے
کہ کوئی بھی ایک بڑا اندرونی یا بیرونی دھچکا سب کچھ بہاکر لے جائے گا۔
معروف اقتصادی ماہر ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی کا کہنا ہے کہ مرکزی بینک کی جانب
سے دھرنوں اور سیلاب کے پیش نظر ملکی معیشت کو جو درپیش خطرات ظاہر کیے گئے
ہیں، حقیقت میں یہ خطرات کئی گنا زیادہ ہیں۔ زر مبادلہ کے ذخائر محفوظ حد
سے کم ہیں، جو کسی بھی اندرونی یا بیرونی جھٹکے کی صورت میں بھاپ کی طرح اڑ
سکتے ہیں۔ دھرنوں کی سیاست سے رواں مالی سال کے کوئی معاشی اہداف حاصل نہیں
ہوسکتے، جس کے پیش نظر یہ ایک ناکام سال ثابت ہوگا۔ دھرنوں کی وجہ سے نہ
صرف ملکی معیشت کو بلکہ ملکی سلامتی کو بھی خطرات لاحق ہوگئے ہیں۔ معاشی
اور سیاسی طور پر کمزور پاکستان امریکا کے گریٹ گیم کا حصہ ہے، جس کے نتیجے
میں پاکستان کو کمزور کرکے ڈکٹیشن قبول کرنے پر مجبور کرنا اور شام و عراق
جنگ میں پھنسانا ہے۔ ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی کا مزید کہنا تھا کہ سربراہ
تحریک انصاف کی جانب سے بیرون ملک پاکستانیوں کو ترسیلات زر قانونی ذریعے
سے بھیجنے سے روکنا انتہائی تشویش ناک اور عالمی جرم ہے، جس کے نتیجے میں
بیرون ملک پاکستانی تحقیقات کی زد میں آسکتے ہیں۔ ملک میں پہلے ہی ٹیکس
چوری عروج پر ہے۔ عمران خان کے بیانات سے ٹیکس چوری کی حوصلہ افزائی ہو رہی
ہے۔ اسی طرح خیبر پختونخوا حکومت سمیت چاروں صوبائی حکومتوں نے آئی ایم ایف
سے اتفاق کیا ہے کہ 3 برسوں میں بجلی کے نرخ بڑھائے جائیں گے، جس کی
دستاویز آئی ایم ایف کی ویب سائٹ پر بھی موجود ہے، لیکن اس اتفاق رائے کے
باوجود عمران خان نے بجلی کا بل جلاکر عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی
کوشش کی۔ دھرنوں کی سیاست کی وجہ سے سرمایہ کاری، بچتوں کی شرح اور ٹیکسں
میں کمی ہو رہی ہے، برآمدات میں اضافہ نہیں ہو رہا، معیشت کی شرح نمو متاثر
ہو رہی ہے اور جاری حسابات کا خسارہ بڑھ رہا ہے۔ زر مبادلہ کے ذخائر گراوٹ
کا شکار اور روپے کی قدر دباﺅ میں ہے۔ جبکہ معروف معیشت دان ڈاکٹر قیصر
بنگالی نے بھی دھرنوں کے ملکی معیشت پر پڑنے والے اثرات کو انتہائی خطرناک
قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ کراچی کے بعد لاہور، راولپنڈی اور درمیان کے کچھ
شہر معاشی لحاظ سے انتہائی اہم ہیں، لیکن حالیہ حکومت مخالف سرگرمیوں کی
وجہ سے 10 روز تو مکمل طور پر ان شہروں میں صنعتی اور تجارتی سرگرمیاں
متاثر ہوئیں اور اس کے بعد بھی تاحال تجارتی و صنعتی سرگرمیاں معمول پر
نہیں آسکیں۔ اس دوران 3، 4 کیسز ایسے سامنے آئے ہیں کہ برآمد کنندگان کا
مال بندرگاہ پر بروقت نہیں پہنچ سکا اور جہاز خالی روانہ ہوا، جس سے ان
برآمد کنندگان کو نقصان تو ہوا، لیکن اس کے ساتھ ہی ایسے کیسز میں خریدار
ہاتھ سے نکلنے کی صورت میں مستقل نقصان بھی اٹھانا پڑتا ہے۔ دھرنے جتنے طول
پکڑتے جائیں گے، اس قسم کے کیسز مزید بڑھتے چلے جائیں گے۔ اس وقت سب سے بڑا
نقصان غیر یقینی صورت حال کو دیکھتے ہوئے خریداروں کی جانب سے پاکستانی
برآمد کنندگان کو آرڈرز نہ دینے کا رجحان ہے، جس کا ملکی معیشت کو بڑا
نقصان اٹھانا پڑے گا۔ موجودہ حالات آئی ایم ایف کے حق میں ہیں، ملکی معاشی
صورت حال کو دیکھتے ہوئے آئی ایم ایف کو پاکستان کا ہاتھ مروڑنے میں آسانی
ہوگی۔ اسی طرح اقتصادی ماہر خرم شہزاد کے مطابق ملک میں جاری سیاسی صورت
حال کے باعث جولائی اور اگست کے دوران جاری حسابات کا خسارہ ایک ارب 37
کروڑ 20 لاکھ ڈالر ہوگیا ہے، جو گزشتہ سال اس عرصے میں 58 کروڑ ڈالر تھا۔
اسی طرح غیر ملکی سرمایہ کاری، معاشی شرح نمو اور دیگر معاشی اعشاریے بھی
دباﺅ کا شکار ہیں۔ موجودہ صورت حال جتنی جلد بہتر ہوگی، نقصان کم ہوگا اور
یہ حالات جتنے طول پکڑتے جائیں گے، نقصانات کا دائرہ بھی بڑھتا چلا جائے گا۔
مبصرین کے مطابق ملک میں جاری سیاسی غیر یقینی صورت حال کے منفی اثرات ملکی
معیشت پر دن بدن مرتب ہورہے ہیں۔ صنعت کار اور ملکی و غیر ملکی تجارتی
کمپنیاں سیاسی استحکام کے حوالے سے گومگو کی کیفیت کا شکار ہیں۔ انھیں یہ
خدشات لاحق ہیں کہ سیاسی صورت حال میں کسی قسم کی تبدیلی سے ان کے کاروبار
کو شدید نقصان پہنچے گا۔ جب سے حکومت کے خلاف دھرنوں اور مارچ کا آغاز ہوا
ہے، ملک بھر میں معاشی سرگرمیوں کی رفتار سست ہو گئی ہے۔ موجودہ حکومت کو
توانائی کے بحران، کمزور معاشی اشاریے اور امن و امان کی بگڑتی صورت حال
سمیت بہت سے چیلنج درپیش ہیں، اب سیاسی افق پر ابھرنے والے نئے چیلنجز نے
اس کے مسائل میں اضافہ کر دیا ہے۔ جس وقت موجودہ حکومت نے اقتدار سنبھالا
اس وقت ڈالر کی قیمت 110روپے سے تجاوز کر چکی تھی، جو اللہ اللہ کر کے
98روپے پر آئی تھی لیکن دھرنوں کی”برکت“ سے ایک بار پھر 103سے تجاوز کر چکی
ہے۔ گزشتہ چار ہفتوں سے پاکستان میں جاری سیاسی عدم استحکام اور دارالحکومت
اسلام آباد میں دیے گئے تحریک انصاف اور عوامی تحریک کے دھرنوں نے ملک کی
معیشت کو بحران سے دوچار کردیا ہے۔ وزارت خزانہ کے حکام کے مطابق روپے کے
قدر میں کمی اور ڈالر کی قیمت میں اضافے کی وجہ سے پاکستان کے ذمہ واجب ادا
قرضوں میں200 ارب روپے کا اضافہ ہوچکا ہے۔ دھرنوں کے سبب ملک کی معیشت کو
اب تک مجموعی طور پر کئی کھرب روپے کا نقصان ہوچکا ہے۔ اقتصادی امور پر
گہری نظر رکھنے والے تجزیہ کاروں کے مطابق دارالحکومت میں دیے گئے دھرنوں
نے ملک کی معیشت پر نہایت منفی اثرات مرتب کیے ہیں۔ اس بحران کے بعد ملکی
کرنسی کی قدر چار فیصد سے زیادہ گِر چکی ہے، زرمبادلہ کے ذخائر کم ہوئے اور
پھر آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے وفود نے پاکستان آنے سے انکار کیا۔ اس
صورت حال میں جہاں سرمایہ کار یہاں آنے سے گریزاں ہیں، وہیں تاجر سرمایہ
منتقل کرنے پر غور کرہے ہیں، جو کہ ملکی معیشت کے لیے خطرے کی علامت ہے۔اس
کے علاوہ دھرنوں کی وجہ سے ملکی معیشت کو کئی اور نقصانات بھی ہوئے ہیں، جن
کا تدارک ممکن نہیں ہے۔ |
|