اسلام آباد میں د ھرنوں کا آنکھوں دیکھا حال
(Haq Nawaz Jilani, Islamabad)
اسلام آباد میں جاری د ھر نوں نے
ملک کے ہر طبقے کو اپنی طرف راغب کیا ہوا ہے ۔ عمران خان اور طاہر القادری
سے لا کھ اختلافات کیے جاسکتے ہیں ‘ ان کی سیاسی زندگی اور فیصلوں پر بھی
سوالات اٹھا ئیں جا سکتے ہیں لیکن یہ حقیقت ہے کہ موجودہ نظام سے کو ئی بھی
خوش نہیں ، سیاسی پارٹیوں سمیت کوئی بھی مکتب اس نظام کو صحیح نہیں ما نتا‘
ہر گھر اور دوکان میں یہ بات کی جارہی ہے کہ ملک کانظام تبدیل ہونا چاہیے‘
حکمرانوں کواپنا نہیں‘ عوام کا خیال کر نا چاہیے ‘نعروں سے بڑ ھ کر اب
حقیقی معنوں میں عوام کی خدمت کر نے کی ضرورت ہے۔
ان د ھرنوں کی وجہ سے عوام سمیت اسمبلی میں موجود سیاسی جماعتوں کا بھی یہ
خیال ہے کہ باہر دھرنا دینے والے عمران خان اور طاہر القادری کی باتیں بہت
حد تک درست ہے ۔ پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما اعتزاز احسن نے اسمبلی فلور پر
کہا جواب تاریخ کاحصہ بن چکا ہے کہ عمران خان کی باتیں تیر کی طرح عوام کے
دلوں میں اتر رہی ہے اگرہم نے اپنا قبلہ درست نہ کیا توعوام کا سامنا کر نا
مشکل ہو جائے گا اسی طرح وزیر داخلہ چوہدری نثار کا بھی یہ فرمانا ہے کہ ہم
جیسے بھی ڈاکٹر طاہر القادری کی تقر یر زیادہ دیر تک نہیں سن سکتے ہم پر
بھی اس کااثر ہو نا شروع ہو جاتا ہے یعنی عوام کے مسائل پر بات کر نااور
حقائق کو بیان کرنا اثر رکھتی ہے اور پاکستان کاموجودہ نظام عوام کے بنیادی
مسائل کوحل کرنے میں ناکام رہی ہے‘ جس کی وجہ سے اسلام آبادمیں جاری دو نوں
د ھرنوں کو پانچ ہفتے ہو گئے ہیں لیکن لو گوں کے جوش وجذبے میں کمی نہیں
آئی ہے ۔
حکومت نے بہت کوشش کی کہ کس طرح ان د ھرنوں کو ختم کیا جا ئے ‘ عوام ان د
ھرنوں میں نہ آئے ‘ دھرنوں میں جانے کے تما م راستے کنٹینروں سے بند کیے
گئے ہیں جس کی وجہ سے تقر یباً ڈیڑھ دو کلومیٹر پیدل دھر نوں میں جانا پڑ
تا ہے‘خاص کر پاکستان تحر یک انصاف کے دھر نے میں جانے والوں کو بہت مشکلات
کاسامنا کر نا پڑ تا ہے کیوں کہ تحر یک انصاف کے زیادہ تر لو گ شام کے وقت
دھر نے میں اسلام آباد ، پنڈی ، روات ، بارکہو وغیر ہ سے اپنی گاڑیوں میں
آتے ہیں جس میں نا صرف نواجون اور ان کی فیملی ہوتی ہے بلکہ بوڑھے والدین
اور بچے بھی شامل ہوتے ہیں۔حکومت نے پولیس کے ذریعے بہت کوشش کی ‘لو گوں کو
پکڑا بھی کیا گیا ‘ بہت سے لوگ جیل بھی گئے لیکن اس کے باوجود لو گوں کی
تعداد میں کمی نہیں آئی بلکہ آزادی مارچ کوجب ایک مہینہ پورا ہوا جس پر
عمران خان نے ملی یکجہتی کا اعلان کیا تھااس رات دھرنے کی جگہ کچا کھچ بھری
ہوئی تھی‘ عوام کی ایک بہت بڑی تعداد اس رات موجود تھی جبکہ اب عمران خان
نے جمعہ کے روز’’ گونواز گو‘‘ دن منانے کااعلان کیا جس میں بھی ان کا کہنا
ہے کہ عوام کی تعداد پہلے سے زیادہ ہوگی ۔تحریک انصاف کی طرف سے اب یہ
فیصلہ بھی ہوا ہے کہ اتوار کے روز کراچی میں ایک بہت بڑے جلسے کا انعقاد
کیا جائے گا جس میں پارٹی کے چیئر مین عمران خان بھی خطاب کر یں گے جب کہ
ہر اتوار کو بڑے شہروں میں جلسے جلوس منعقد کیے جائیں گے ۔ تجز یہ کاروں کے
مطابق پی ٹی آئی کی موجودہ پالیسی کو دیکھتے ہوئے نہیں لگتا کہ عمران خان
احتجاجی دھرنے کو ختم کرنے والے ہیں۔
دوسری طرف اگر طاہر القادری کا انقلاب مارچ کا جائز ہ لیا جائے تو معلوم یہ
ہو تا ہے کہ یہ لو گ مستقل طور پر یہاں آبادہو نے آ ئے ہیں ۔ ملک بھر سے
ڈاکٹر طاہرالقادری کے پیروکاروں سمیت ان کی پارٹی عوامی تحریک اور ڈاکٹر
صاحب کے تقر یروں اور بیانات سے متاثر ہو نے والے نواجوان د ھر نے میں
موجود ہے۔ یہ نواجوان دن کا ز یادہ تر وقت کھیل گود میں گزرتے ہیں جبکہ
نوجوان لڑ کیا ں ز یادہ تر پڑ ھنے پڑ ھانے اور خواتین کو تر بیت دینے میں و
قت صرف کرتی ہے ۔ انقلا ب مارچ میں مستقل دھر نا د ینے والو ں کی تعداد
ہزاروں میں ہیں جبکہ عمران خان کے آزادی مارچ میں مستقل لوگوں کی تعداد چار
ہزار کے لگ بھگ ہو گی ‘بہت سے لوگ رشتہ داروں اور ہوٹلوں میں بھی رہتے ہے
جو دن کو دھر نے میں آجاتے ہیں جبکہ پی ٹی آ ئی کیمپ میں فیملز مقیم نہیں
اس کے بر عکس ڈاکٹر طا ہر القا دری کے دھر نے میں زیادہ تر فیملز آئی ہوئی
ہے جومستقل طور پر وہاں موجودرہتی ہے ‘ان میں چھوٹے بچوں کی تعداد بھی
زیادہ ہے جس کو پڑ ھانے کے لیے انقلاب سکول بھی کھلے گئے ہیں ۔ کھیل کود کے
لیے جھولے بھی رکھے گئے ہیں ۔ پچاس سال کی عمر سے ز یادہ خواتین خیموں میں
وقت گزرنے کے لیے مختلف گھر یلو کام کر تی ہے ۔ ان فیملز کو دیکھ کر یہ
نہیں لگتا کہ یہ لو گ گھروں سے دور آکر پر یشان ہے جیسے کہ کہا جاتا ہے کہ’
ضرورت ایجاد کی ماں ہے‘ عین اسی فلاسفی کو دیکھتے ہوئے یہاں پر حجام خانے
بھی کھلے گئے ہیں‘ موبائل چارچنگ بھی کی جاتی ہے اور موبائل کارڈز سمیت ہر
چیز اس بستی میں موجود ہے ۔ کھانے پینے کی ہر چیز پکوڑے ،سموسے ، چائے ،شربت
وغیرہ سے لے کر موسمی فروٹ بھی یہاں دستیاب ہیں۔
ڈاکٹر طاہر القادری کا انقلاب مارچ اور عمران خان کاآزادی مارچ دونوں ایک
دوسرے سے متصل ہے جبکہ اسٹیج دور دور ہے ‘ ایک اسٹیج سے دوسرے د ھرنے میں
آواز نہیں جاتی ۔ انقلاب مارچ کے شرکا کے لیے علاج معالجے کا بندوبست بھی
کیا گیا ہے جہا ں پر ڈاکٹر اور ادویات موجود ہوتی ہے جبکہ آزادی مارچ کے شر
کا کے لیے بھی ڈسپنسری اور ڈاکٹر موجود ہے اور ساتھ میں ہر صوبے کے لیے
علیحدہ سے خیموں میں وارڈز کا بھی بندوبست کیا گیا ہے ۔ لوگوں کی جوش وجذبے
کے لیے آزادی اور انقلاب مارچ کے دھر نوں میں ملی نغمے اور پارٹی ترانے بھی
لاؤڈسیپکروں پر سنائیں جاتے ہیں۔
آزادی اور انقلاب مارچ کے شرکا پارلیمنٹ کے سامنے جہاں دھرنا دیے بیٹھے ہیں
و ہاں صرف سرکاری دفاتر ہے‘ بلیوایریا جواسلام آباد کا بزنس حب کہلایا جاتا
ہے وہ دھرنوں سے کچھ فاصلے پر ہیں وہاں کاروبار زندگی رواں دواں ہے لیکن
وہاں ایک طرف میٹرو بس منصوبے کے لیے مین جناح ایونیو کوبند کیا گیا ہے تو
دوسری طرف دھرنوں میں عوام کوروکنے کے لیے مختلف جگہوں پرکنٹینر بھی رکھے
گئے ہیں جس کی وجہ کاروباری طبقے کو بھی مشکلات کاسامنا کرنا پڑ رہا
ہے۔کاروباری حضرات کا کہنا ہے کہ دھرنوں کی وجہ سے حکومت اقدامات نے ہمیں
بھی مشکلا ت سے دوچار کر دیا ہے۔حکومت اگرد ھرنوں کوختم نہیں کرتی توکم از
کم راستوں سے کنٹینرہٹا دے تاکہ کاروباری طبقے کے مشکلات حل ہو سکیں ۔کا
روباری طبقے کا یہ بھی کہنا ہے کہ دونوں فریقوں کو اپنے مطالبات میں لچک کا
مظاہر ہ کر نے کی ضرورت ہے اور حکومت سے اپیل ہے کہ جلد از جلد ان کے
مطالبات تسلیم کیے جائیں۔
د ھر نوں کومذاکرات کے ذریعے ختم کرنے کے لیے ایک دفعہ پھر جماعت اسلامی کے
امیر سراج الحق کوششوں میں لگ گئے ہیں کہ د ھرنے د ینے والے اور حکومت کے
درمیان بات چیت اور مذاکرات سے معاملات حل ہو جائے تاکہ سیاسی بحران ختم ہو
سکیں۔سیاسی مبصر ین کا کہنا ہے کہ اگر حکومت عمران خان کے پانچ مطالبات کو
تسلیم کر یں اوراس پر عمل کو یقینی بنادیا جائے تویہ نہ صرف عمران خان کی
کامیابی ہو گی بلکہ یہ پاکستان کی بھی کامیابی ہوگی۔ سیاسی پنڈت طاہر
القادری کے مطالبات پر یہ فرماتے ہیں کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کی ایف آئی آر تو
درج ہو گئی اب اگر وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف ملک وقوم کی خاطر
استعفا دیں تو اس سے ماڈل ٹاؤن کے لواحقین کا بھی غم و غصہ ٹھنڈا ہو جائے
گا اور یہ انقلاب مارچ کی بھی کامیابی تصور ہوگی۔ |
|