آج کل میڈیا سمیت ہرچوک چوراہے
پر’’ کنٹینر دھرنوں‘‘ کا چرچا ہے اور دھرنے کے لیڈر ساٹھ برسوں سے پاکستان
کے کرپٹ گلے سڑے نظام کو تبدیل کرکے ’’نیاپاکستان‘‘اور’’انقلاب ‘‘ کاایجنڈا
لے کرشہراقتدار میں نمودار ہو ئے ہیں……اگر نئے پاکستان کے کپتان کے اردگرد
کھڑے نمایاں ناموں پر نظردوڑائیں تو انکشاف ہو تا ہے کہ یہ سب نام تو کبھی
ہم ن لیگ ٗپیپلزپارٹی ٗمشرف لیگ اور ق لیگ میں سنا کرتے تھے ……یہ سب اقتدار
کی غلام گردشوں کے اسیر رہ چکے اب ان کے خیال میں چونکہ’’ اقتدار کی چڑیا‘‘
کپتان کے حق میں ہے اس لیے وہ کپتان کے لگائے گئے شفاف پلانٹ سے گزرکر اپنے
سابقہ سارے گناہ بخشواکرگناہوں سے پاک ہوگئے ……اب وہ کپتان کی ٹیم کے
کھلاڑی ہیں اس لیے ان پر اس سے قبل کرپشن اور بدعنوانی کے جو داغ تھے وہ
دھل چکے اور ان کاذکرکرنے والا شخص غدار ٹھہر ے گا۔ برادرم ذبیح اﷲ کا بیٹا
ارسل تو ابھی چھوٹا ہے اس کی معلومات بھی محدود ہیں اسے تو میڈیا کی آنکھ
جو دکھاتی ہے وہ اس سے امپریس ہوتا ہے اسے معلوم نہیں کہ جب آپ کی ٹیم کے
کھلاڑی اربوں پتی ہوں تو’’پرائم ٹائم ‘‘آپ کے گھر کی لونڈی بن جاتا ہے ارسل
سے چند برس میچوروسیم خان بہت جذبے اورعزم کے ساتھ نئے پاکستان کی ٹیم میں
شامل ہوا لیکن چند ماہ میں ہی اس پر انکشاف آشکار ہوگیا کہ نیا پاکستان تو
پرانے پاکستان سے بھی بدتر ہے اس میں کپتان سے ملاقات کیلئے گھنٹو ں نہیں
برسوں انتظارکرنا پڑتا ہے اس میں کرپٹ سیاستدانوں کے احتساب کے خوشنما نعرے
تو اونچی آواز میں لگائے جاتے ہیں لیکن نئے پاکستان کی اپنی ٹیم جو بھی کرے
اس کے احتساب کا نام لینے والا راندہ درگاہ ہو جاتا ہے۔ وسیم خان نے دیکھا
کہ اس کے صوبے میں نئے پاکستان کی حکومت ہے لیکن ایک سال میں پرانا پاکستان
تو گرادیا گیا لیکن نیا پاکستان اب تک تعمیر ہو نے میں نہیں آرہا اب وہ
پرانے پاکستان سے بھی محروم ہو چکا ہے اور ایک کھنڈر صوبے میں زندگی
بسرکرنے پرمجبور ہے ۔لیکن اس نے سنا کہ نئے پاکستان کے کنٹینر سے اس کے
صوبے کی کچھ کامیابیوں کی نوید بھی سنائی جارہی ہے جو صوبائی بجٹ کے تناظر
میں ہیں اس نے کپتان سے سنا کہ پختونخواہ کا بجٹ ایسا شاندار تھا کہ نہ صرف
اسے وفاقی حکومت نے سراہا بلکہ عالمی اداروں نے بھی ان اقدامات کو قدر کی
نگاہ سے دیکھا ……لیکن جب وسیم خان کو معلوم ہو ا کہ یہ کامیابی اس کی جماعت
کی نہیں بلکہ خیبر پختونخواہ میں تحریک انصاف کی اتحادی جماعت اسلامی کے
حصے میں آرہی ہے کیونکہ فنانس کی وزارت ان کے پاس ہے تو اس نے فیصلہ کرلیا
کہ کیوں نہ اس جماعت کو قریب سے دیکھا جائے جس کی تعریف اس کے قائد سمیت
وفاقی اور بین الاقوامی ادارے کررہے ہیں ۔اس کی ملاقات ضلع دیر میں جماعت
اسلامی کے مقامی رہنما سے ہو ئی اور پھر یہ ملاقاتیں طویل ہو تی گئیں اس
کاذہن تسلیم کرنے سے قاصر تھا کہ یہاں تو ایک یونین کونسل کے سربراہ سے لے
کر مرکزی سربراہ کو غلطی پر ایک عام کارکن پکڑلیتا ہے اور اس امیر کی جان
اس وقت تک نہیں چھوٹتی جب تک وہ کارکن مطمئن نہ ہو جائے۔ پھر جب وہ مرکزی
تربیت گاہ میں شرکت کیلئے جماعت اسلامی کے مرکزی سیکرٹریٹ منصورہ گیا تو اس
نے مرکزی امیر سراج الحق کو ہٹو بچواور درباریوں کے چنگل سے آزاد کارکنان
کے درمیان دیکھا ……وہ بھی گیا ملاقات کی اسے وہاں رعونت نہیں…… عاجزی
وانکساری اور محبت نظر آئی ……اور آج وہ جماعت اسلامی کی صفوں کا اک سپاہی
ہے اب اس کی کوشش ہے کہ ذبیح اﷲ کے بیٹے ارسل اور اس جیسے بے شمار نوجوانوں
کو بھی اس حقیقت سے آگاہ کرے…… کہ آؤجماعت اسلامی میں تمھیں کامیابی ہی
کامیابی ملے گی دنیا میں بھی اور آخرت کی بھی ……اور اس میں تمھیں اسلامی
انقلاب برپا نہیں کرنا پڑ ے گا بلکہ صرف اپنی تمام تر صلاحتیوں کے ساتھ اس
کے لئے کوشش کرنا ہو گی…… جب وسیم کے ایک دوست نے اس سے سوال کیا کہ تمھاری
جماعت اسلامی تو ساٹھ برسوں سے جدوجہد کررہی ہے لیکن اسے آج تک اقتدار نصیب
نہیں ہو ا ……تو اس نے سادگی سے کہا ہماری منزل اقتدار نہیں جنت کا حصول ہے
اصلاح معاشرہ ہے اور اﷲ کی زمین پر اﷲ کے قانون کا نفاذ ہے…… حضرت نوح علیہ
السلام ساڑھے نوسوسال تک فریقہ اقامت دین سرانجام دیتے رہے لیکن تاریخ گواہ
ہے……کہ ناکام پیغمبرخدانہیں وہ بدنصیب قوم تھی جس نے ان کا ساتھ نہ دیا ……پھرپلٹ
کروسیم نے اس دوست سے سوال کردیا کہ ہمارے سینکڑوں ممبران اسمبلی اور وزراء
مختلف اوقات میں فرائض سرانجام دیتے رہے لیکن آج تک بدترین مخالف بھی ان پر
کرپشن ٗبدعنوانی کاالزام لگانے کی جرات نہیں کرسکاتو دوست بھی لاجواب ہو کر
بغلیں جھانکنے لگا تو اس نے کہا ایسے اﷲ کے بندے ہی انقلاب اور تبدیلی
لاسکتے ہیں ……جنھیں اﷲ رب العز ت کا خوف ہو وہ سپرد کی گئیں امانتیں نیک
نیتی سے خرچ کریں اپنے محلات بنانے کی بجائے عوام الناس کی خدمت میں اپنا
سب کچھ بھی قربان کردیں۔ ارسل اور برادرم ذبیح اﷲ کو بھی دعوت ہے کہ وہ بھی
دنیا بنانے والوں کی بجائے وسیم خان کاراستہ اختیار کرکے آخر ت میں سرخروئی
کے طلبگار بن جائیں کیونکہ یہ دنیا چند روزہ ہے اور ابدی زندگی آخرت ہی کی
زندگی ہے۔ جماعت اسلامی اس گلے سڑے نظام کو بچانے نہیں اسے جڑ سے اکھاڑنے
کے لئے پیہم کمربستہ ہے ……دھاندلی کا نعرہ الیکشن کے دن سب سے پہلے جماعت
اسلامی نے بلند کیا تھا اور صرف نعرہ نہیں لگایا تھا بلکہ کراچی کی حد تک
اس کابائیکاٹ بھی کیا تھا لیکن کیا ہوا تھا آج تحریک کے سرخیلوں کو جو ایک
سیٹ کے لئے اپنا سب کچھ قربان کربیٹھے تھے اور آج کراچی میں دھاندلی کی
پیداوار لسانی گروہ کے ساتھ اتحادی بننے کی تیاریاں جاری ہیں ۔عوام اتنی
بھولی نہیں کہ یہ سب کچھ ٹھنڈے پیٹوں برداشت کرلے ۔ |