ضدی کاکا

ایک دفعہ کسی سے پوچھا گیا کہ تمہاری خواہش کیا ہے اس نے کہا بیوی شکل میں کترینا اور خصوصیات میں ماسی سکینہ کی طرح کام کر سکے تاکہ زندگی آسان اور روشن گزرے سننے والے نے کہا یہ خواہش نہیں ہاں حسرت ضرور ہے ۔

حسرت درحقیقت وہی خواہش ہے جوکہ کبھی پوری نہ ہو سکے بلکہ انسان حسرت کو دل میں دبائے اور اسکے پورے ہونے کی امید میں ٹسوے بہاتا دارفانی سے کوچ کر جائے مگر حسرت کا ح کبھی بھی خ سے خواہش نہیں بن پاتا۔ انسانی نفسیات بھی اگر دیکھی جائے تو اس میں خواہشات کچھ ایسے ہی کام کرتی ہیں کہ آُپ جتنا اہنی خواہشات کو آسودہ کرنے میں رہتے ہیں یہ آسودگی جلد ہی کسی اور خواہش کی خواہش کرنے لگتی ہے۔

خواہش کے بارے میں اسی لئے کہا جاتا ہے کہ یہ بالکل پیاز کی پرتوں کی طرح ہیں اور جب ایک پرت اترتی ہے تو اگلی پرت نکل آتی ہے اور ایک کے بعد ایک پرت آپکی مننتظر رہتی ہے ۔ کچھ خواہشات ایسی ہوتی ہیں جو کہ انسان کے دل میں دوسروں کو دیکھ کر پیدا ہوتی ہیں مثال کے طور پر دوسروں کی طرح لینڈ کروزر میں اڑے اڑے پھرنے کا شوق ہر ایک کو ہی بڑا دلفریب اور پر کشش نظر آتا ہے۔

جو جچھ نضر آتا جائے بچے بھی لینے کو بے تاب رہتے ہیں کسی بھی مال میں جائیں آپکو منزل مقصود تک پہنچنے تک ہر نظر آںے والی چیز سے نظر بچانی ہوگی اگر آُپ تو کامیاب ہو ہی جائیں گے مگر کیا یہ ممکن ہے کہ جو آپکے ساتھ بچے ہیں جن کو للچانے کے لئے ہی یہ سب انتظام کیا گیا ہے انکو روکا جاسکے بہت مشکل اوپر سے آجکل کے بچوں کے پاس تو حربے بھی اس اس طرح کے موجود ہیں کہ الامان،،،،،کبھی زمین پر لیٹ جائیں گے، ایڑیاں رگڑیں گے، رونے لگیں گے، مارا ماری کریں گے۔ اور آُپکی آخر کار میں ہاری پیا والی صورتحال ہی ہوگی۔ اب آخر کو تنگ آکر ایک چیز لے کر دی تو ساتھ ہی دوسری چیز جو چند گام دور ہوگی اسکے لئے ضد شروع ہو جائے گی اور یہ سلسلہ تب تک چلتا ہی رہے گا جبتک کہ آپ اس مال میں پھنسں رہیں۔

کچھ یہی حال آجکی بیگمات کا بھی ہے کہ دیدہ زیب اشتہارات کی چکا چوند اور اشتہارات کی مانند حسین نظر آںے کی خواہش بھی بہت سی ضدوں پر مجبور کرتی ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ جو حسین ہوتا ہے نظر صرف وہی شکص حسین آتا ہے اسی لئے بیگم کی فضول سی خواہش ایک چھوٹی سی جیب کا کباڑہ کرنے کے لئے تیار ہی رتی ہے اسی لئے جب بھی سفر کرنا ہو تو زبردست اور حسرتوں کو جنم دینے والے اشتہارات پر نظر پڑنے سے روکنے کے لئے ضروری ہے کہ ایسی خواتین کی آںکھوں پر پٹی باندھ کر انہیں سفر کے لئے ہمراہ لے جائیں۔

بچے تو بچے بڑے بھی اکثر ایسی خواہشات کے پیچھے پڑے رہتے ہیں اور مانگوں کے لئے تڑپتے رہتے ہیں کہ انسان کو انکے بڑے ہونے میں شک ہونے لگتا ہے۔ جو بچے ضدی ہوتے ہیں انکا کیا کیا جائے کہ جب وہ بڑے بن جاتے ہیں تب بھی وہ اسی طرح ضد اور ہٹ دھرمی جاری رکھتے ہیں کہ اپنے آس پاس والوں کی اندگی اجیرن کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے ایک شخص کے اچھی عادت کا ہونے سے اتنا فائدہ نہیں ہوتا جتنا کہ ایک شخص کے ضدی ہونے کی وجہ سے نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔
sana
About the Author: sana Read More Articles by sana: 231 Articles with 292964 views An enthusiastic writer to guide others about basic knowledge and skills for improving communication. mental leverage, techniques for living life livel.. View More