قائداعظم محمد علی جناح جب
برصغیرکے مسلمانوں کے ساتھ مل کر ان کے لیے ایک الگ ملک حاصل کرنے کی
جدوجہد کررہے تھے تو ان کے پیش نظر سوائے ایک فلاحی ریاست کے قیام کے اور
کوئی مقصد نہ تھا۔وہ ایک ایسی ریاست بنانا چاہتے تھے جو باقی دنیا کے لیے
بھی مثالی ہواور ایسا اسی وقت ممکن ہو سکتا تھا جب نئی بننے والی ریاست
بدعنوانی سے پاک ہو۔
اگر ہم آج کے پاکستان کو دیکھیں تو یہ بخوبی کہا جا سکتا ہے کہ یہ قائداعظم
کے تصور سے ہزاروں کوس دور ہے ۔موجودہ پاکستان میں بدعنوانی اپنے عروج پہ
ہے اور یہی بدعنوانی پاکستان میں تمام مسائل کی جڑ ہے ۔آخر کیا وجہ ہے کہ
آج ہمارا معاشرہ بدعنوانی کی دلدل میں پھنسا ہو اہے ؟ایک تو ہم اپنے قائد
کی تعلیمات سے دور ہیں اور دوسرا ہم یہ سمجھ ہی نہیں پائے کہ بدعنوانی کسے
کہتے ہیں اور ایسی روایات ہم نے اختیار کر لی ہیں جو بد عنوانی کے زمرے میں
آتی ہیں ۔جب ہم اپنے قانونی حق سے تجاوز کرتے ہیں تواسے ہی بد عنوانی کہا
جاتا ہے سادہ لفظوں میں اسے یوں بھی بیان کیا جا سکتا ہے کہ جس چیز پر
ہمارا حق نہ ہو اسے ہم حاصل کر لیں یا اس پر قبضہ کر کے مفاد حاصل کرنا
شروع کر دیں ۔ذرا غور فرمائیے کہ جو شخص سڑک پر دوسروں کا راستہ روک کر
ٹھیہ لگاتا ہے اور شام کو فخر سے یہ بھی کہتا ہے کہ اس نے اپنے بچوں کے لیے
رزق حلال کمایا ہے تو کیا ایسا شخص درست ہے ہر گز نہیں اسی طرح دھاندلی کے
ذریعے اقتدار میں آنے والے لوگ اگر یہ کہیں کہ وہ ملک کی خدمت کریں گے تو
ان کا یہ فرمانا بالکل غلط ہے بد عنوان لوگوں کے اقدامات بھی بد عنوانی کے
ہی مرتکب ہوں گے ہمارے ہاں حکمران ملکی اور بین الاقوامی مقتدرہ کی حمایت
سے ہی اقتدار میں آتے ہیں انہیں کبھی بھی عوامی پزیرائی نصیب نہیں ہوئی یہی
وجہ ہے کہ ان کی تمام تر توجہ کرپشن اور لوٹ مار پر ہی مرکوز ہوتی ہے
۔2013کے ٹرانسپریسی انٹرنیشنل کے جائزے کے مطابق پاکستان کرپشن کے میدان
میں شرم ناک حد تک باقی مہذب ملکوں سے بہت آگے ہے corruption perceptions
indexپہ پاکستان کے 175میں سے 127پوائنٹس ہیں جو پاکستان کے لیے انتہائی
سبکی کا باعث ہے۔اس سروے میں صرف مالیاتی بدعنوانی کا ذکر ہے انتظامی ،معاشرتی
اور اخلاقی بد عنوانی کو زیر بحث نہیں لایا گیا۔اگر ہم مجموعی طور پر
پاکستان کے حالات کا جائزہ لیں تو ہم اسے ایک زوال پزیر معاشرہ ہی قرار دے
سکتے ہیں ۔
جب قوم اپنے اہداف سے دور ہو جاے،مقصد کو بھول جائے اور اپنے قائد کی
تعلیمات کو بھلا دے تو زوال اس کا مقدر بن جایا کرتا ہے آج
انقلاب،آزادی،تبدیلی ،حقیقی جمہوریت ،پارلیمنٹ کی بالا دستی اور نئے
پاکستان کی صدائیں تو بہت بلند ہو رہی ہیں مگر کبھی کسی نے قائد کی آواز پر
بھی کان دھرا ہے آج بھی ان کی نحیف آواز میں ان کے اقوال ہماری فضاؤں میں
تیر رہے ہے مگر سننے والے کان متوجہ نہیں ہو پا رہے ہیں اگر ہم نے آج بد
عنوانی کی دلدل سے نکلنا ہے تو قائدکے الفاظ کو پلے باندھنا ہو گا اور ان
کے کردار سے سیکھنا ہو گا۔آپ انتہائی دیانت دار اور قانون کے تابع شخص تھے
آپ کے تمام جدو جہد قانون اور اخلاق کے دائرے کے اندر رہی۔قیام پاکستان کے
بعد بطور گورنر جنرل آپ کا کرداراپنے اس تصور کے عین مطابق تھا جو آپ نے بد
عنوانی سے پاک ایک ملک کے قیام کے لیے دیا تھا ۔گورنر جنرل کے دفتر میں ایک
آسامی خالی تھی قائداعظم خود ہی نوجوانوں سے انٹرویو لے رہے تھے اسی دوران
آپ ایک نوجوان کی باتوں اور صلاحیتوں سے کافی متاثر ہوئے اور اسے منتخب کر
لیا جب وہ جوان جانے لگا تو اس کی فائل میں موجود کاغذوں میں لگی ایک پن گر
گئی نوجوان نے اسے دیکھا اور معمولی سمجھ کر نہ اٹھایا اور دفتر سے نکل گیا
قائد نے اپنے سٹاف کو اس نوجوان کی تقرری منسوخ کر دینے کا کہا انہوں نے
وجہ پوچھی تو قائد نے کہا جو شخص ایک پن کی اہمیت نہ جان سکا ہو اور اس کی
حفاظت نہ کر سکتا ہو تو وہ کس طرح ملکی پیسے اور مفادات کی حفاظت کر سکے
گا۔قائد اعظم اس قدر باریک بینی سے سوچتے اور فیصلے کرتے تھے یہی وجہ ہے کہ
ان پر نہ ہی کوئی آج تک مالی بدعنوانی کو الزام لگا سکا اور نہ ہی کوئی
انتظامی و اخلاقی بد عنوانی کا الزام لگا سکا ہے آپ کے صاف اور شفاف کردار
کی گواہی آپ کے دشمن بھی دیتے رہے ہیں ۔لندن میں گول میز کانفرنس کے اختتام
پر برطانوی وزیر اعظم نے قائداعظم سے کہا کہ ہم ہندوستان میں جمہوریت نافذ
کرنا چاہتے ہیں اور وہاں کے لوگوں کو با اختیار بنانا چاہتے ہیں لہذا ہم آپ
کو وہاں صوبے کا گورنر بنانا چاہتے ہیں قائد نے اس کو جواب انتہائی غصے سے
دیا اور کہا ــ ،کیا آپ نہیں جانتے کہ ہم ایک آزاد ملک کے لیے جدوجہد کر
رہے ہیں اور آپ مجھے گورنر شپ کی رشوت دینا چاہتے ہیں آپ کو بطور وزیر اعظم
ایسی حرکت سے اجتناب کرنا چاہیے تھا۔میں کسی بھی قسم کی کرپشن کو نا پسند
کرتا ہوں اور مہذب دنیا میں یہ ایک قابل نفرت فعل ہے۔قائد کے اس دو ٹوک
جواب سے سلطنت برطانیہ کو یقین ہو گیا تھا کہ اب کوئی بھی پاکستان کو بننے
سے نہیں روک سکتا ہے وہاں پر موجود کانگریسی رہنماؤں نے بھی برطانیہ کے
وزیر اعظم کو باور کروایا کہ جناح کو نہ ہی خریدا جا سکتا ہے اور نہ ہی غیر
قانونی اور غیر اخلاقی رویوں سے متاثر کیا جا سکتا ہے ۔جی الانہ نے اپنی
کتاب دی لیبریٹر(the librater) میں قائد سے متعلق لکھا ہے کہ وہ
رشوت،جھوٹ،اقربا پروری،سفارش اور ہر طرح کی بد عنوانی کوناپسند کرتے تھے
انہوں نے جا بجا اپنی تقریروں میں بھی اس کی مذت کی ہے -
قائد کا مقصد صرف اور صرف پاکستان کو ایک فلاحی ریاست بنانے کے سوا کچھ بھی
نہ تھا وہ ایک ایسا پاکستان چاہتے تھے جہاں قانون کی بالادستی اور عملداری
ہو شفافیت یقینی ہو اور کرپشن کا نام و نشان تک نہ ہو۔آج پاکستان کے عوام
کو یہ دیکھنا ہو گا کہ کونسا لیڈر قائد کی تعلیمات پر عمل کر رہا ہے اور
کون اس سے دور ہے۔ہمیں ہر طرح کی بد عنوانی سے خود بھی نجات حاصل کرنا ہو
گی اور بد عنوان قیادت اور لیڈر شپ سے بھی چھٹکارا ھاصل کرنا ہو گا اسی میں
پاکستان کی بقاء اور آنے والی نسلوں کی خوشحالی ہے - |