بھارتی واٹر بم ’’ڈوبے پاکستان کے حکمرانوں کی مجرمانہ خاموشی‘‘

پانی بنیادی ضروریات میں سے ہے جس سے کوئی مخلوق بے نیاز نہیں حیوانات ہوں یا نباتات پانی کے بغیر ان کی ترقی مرجھا جاتی ہے یہی وہ پانی ہے جس کے بارے میں اﷲ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہم نے ہر چیز کو پانی کے ذریعہ زندگی عطاء فرمائی ہے، اگر پانی نہ ہوتا تودرختوں کی سر سبزی نہ ہوتی اگر پانی نہ ہو تا تو ان پودوں کی کھلکھلاہٹ نہ ہوتی جس طرح پانی چشموں کے ذریعہ حاصل ہوتا ہے جس طرح پانی کنووں کے ذریعہ حاصل کیا جاتا ہے اسی طرح بارش کے پانی سے بھی ایک خلق کثیرمستفید ہوتی ہے ۔بارشیں توہوتی رہتی ہیں لیکن حالیہ بارشوں سے پنجاب و دیگر علاقوں میں آنے والے سیلاب نے تباہی مچا دی،ہر طرف پانی ہی پانی نظر آتا ہے جس میں انسان ڈوب گئے،انکا مال مویشی بھی نہ بچا،مکانات بھی گر گئے اور جوزندہ بچے ہیں وہ شدید مشکلات کا شکار ہیں ،بارشوں کاپانی شاید ختم ہو جاتا ،انڈیا جو پاکستان کا ازلی دشمن ہے اس نے بھی موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے پاکستان پر آبی وار مسلط کی اور پاکستان کی طرف آنے والے دریاؤں سے پانی چھوڑا جس سے دریاؤں میں پانی کی شدت میں اضافہ ہوا اور پانی آبادیوں میں پھیلتا چلا گیا اور نقصانات میں اضافہ در اضافہ ہوتا چلا گیا۔ پاکستان میں پچھلے پانچ برسوں سے سیلاب آ رہا ہے اور اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ انڈیا نے پاکستان کے دریاؤں اور پانیوں پر کنٹرول حاصل کر رکھا ہے۔بھارت نے آزادی کے بعد 102 ڈیم سمیت سینکڑوں بجلی پیدا کرنیوالے ہائیڈرو الیکٹرک پراجیکٹ تعمیر کئے ہیں جبکہ درجنوں میگا پراجیکٹ زیر تعمیر ہیں۔ پاکستان کی طرف آنے والے دریاؤں میں سے دریائے ستلج پر بھارت نے بھاکر ڈیم، دریائے راوی پر چمبر ڈیم، ہماچل پردیش کے ماندی ڈسٹرکٹ دریائے بیاس پر پانڈو ڈیم اسی دریا پر پونگ ڈیم پنجاب کے گورداسپور ڈسٹرکٹ میں دریائے بیاس پر رنجی ساگر ڈیم، شمالی ڈوڈا ڈسٹرکٹ میں دریائے چناب پر بگلیہار، کشتوار ڈسٹرکٹ میں دریائے چناب پر دستی ہائیڈرو الیکٹرک پراجیکٹ، اس دریا پر سالال ہائیڈروک الیکٹرک پراجیکٹ،بارہ مولہ ڈسرکٹ میں یوری کے قریب دریائے جہلم پر یوری ہائیڈرو الیکٹرک پراجیکٹ، دریائے جہلم پر کشن گنگا ہائیڈرو پاور پراجیکٹ، دریائے چناب پر کرتھائی ڈیم، اس دریا پر سوالگوٹ ڈیم پر پکڈل ڈی، ڈسرکٹ شیوپوری میں دریائے سندھ پر میدیکھیدا ڈیم سمیت ڈیم بنائے ہیں جبکہ درجنوں میگا پراجیکٹ زیر التواء ہیں جن پر کام ہورہا ہے۔ بھارت دریائے سندھ کا 40 فیصد پانی ایک خفیہ سرنگ کے ذریعے چوری کر کے دریائے برہم پترا میں ڈال رہا ہے اور اس سے بھی معاہدے کی روح پر بھلا کیا اثر پڑے گا کہ وہ دریائے سندھ کے اوپر کارگل کے مقام پر ایک بہت بڑا کارگل ڈیم بنا رہا ہے جو دنیا کا تیسرا بڑا ڈیم ہو گا جس کی تعمیر کے بعد دریائے سندھ کی حیثیت ایک برساتی نالے سے زیادہ نہیں رہ جائے گی۔ بھارت دریائے سندھ میں گرنیوالے ندی نالوں پر بھی 14 چھوٹے ڈیم بنا رہا ہے۔ اسی طرح جہلم سے ایک اور بگلیہارسے دو نہریں نکال کر راوی میں ڈالی جا رہی ہیں اور راوی کا پانی ستلج میں ڈال کر راجستھان لے جایا جا رہا ہے۔پاکستان میں سیلاب سے پہلے مقبوضہ کشمیر میں سیلاب آیا ،وہاں بھی بہت زیادہ تباہی ہوئی ،لاکھوں لوگ سیلاب سے متاثر اور بے گھر ہوئے مگر بھارت سرکار نے ان کی امداد کے لئے کچھ نہیں کیا نہ خود کر رہا ہے نہ عالمی اداروں کو وہاں جانے دیا جا رہا ہے،مقبوضہ کشمیر میں ماضی میں سیلاب سے اتنا زیادہ نقصان نہیں ہوا ،موجود ہ نقصانات کا ذمہ دار انڈیا ہے جس نے پاکستان کی طرف آنے والے دریاؤں پر ڈیم بنائے اور انہی ڈیموں کی وجہ سے مقبوضہ کشمیر میں سیلابی کیفیت کے بعد صورتحال کنٹرول سے باہر ہوئی تو بھارت سرکار نے اسی پانی کا رخ پاکستان کی طرف موڑ دیا جسے دریاؤں میں طغیانی آئی اور علاقوں کے علاقے ،گاؤں ،دیہات سیلاب کی لپیٹ میں آ گئے ۔دریاؤں میں اچانک پانی چھوڑ کر لاکھوں ایکڑ اراضی برباد کرنے والا بھارت اب ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کر رہا ہے۔ حکومت پاکستان کو بھارتی واٹر بم پر کسی صورت خاموشی اختیا رنہیں کرنی چاہیے بلکہ انڈیا سے کھری کھری بات کرنی چاہیے۔ بھارت مقبوضہ کشمیر میں جنگی بنیادوں پر ڈیم تعمیر کر کے پاکستان کو معاشی طور پر اپاہج بنانے کی خوفناک منصوبہ بندی پر عمل پیرا ہے۔ اس کی آبی جارحیت سے پاکستان کی زراعت وصنعت شدید خطرات سے دوچار ہے۔وہ ہمارا پانی روک کر سال بھر اپنے ریگستانوں کو سیراب کرتا ہے اور جب بارشیں زیادہ ہوجائیں توبغیر اطلاع دیئے پانی چھوڑ دیتا ہے۔ اس وقت بھی بھارت کی جانب سے لاکھوں کیوسک پانی چھوڑنے سے ہزاروں دیہات اور لاکھوں ایکڑ فصلیں زیر آب آگئی ہیں۔سیلاب نے بڑی پیمانے پر تباہی مچائی ہے۔400سو سے زائد قیمتی جانوں کاضیاع،ہزاروں دیہات زیر آب،15لاکھ ایکڑزپر کھڑی فصلیں تباہ وبرباد اور اربوں روپوں کی املاک کوشدید نقصان پہنچاہے۔کئی دیہات کازمینی راستہ منقطع ہوچکاہے۔حالیہ سیلاب سے24لاکھ سے زائد افراد متاثر ہوئے ہیں۔ پنجاب کے23،آزادکشمیر کے10گلگت بلتستان کے5اضلاع میں تباہی آئی ہے۔44ہزار 653گھر ملیامیٹ ہوگئے ہیں۔پاک فوج،حکومت پنجاب،جماعۃ الدعوۃ کے رفاہی ادارہ فلاح انسانیت فاؤنڈیشن (FIF)سمیت دیگر این جی اوز بھی سیلاب متاثرہ امدادی سرگرمیوں میں مصروف ہیں۔بارشوں کے بعد سیلاب کی جونہی خبریں ا ٓئیں جماعۃ الدعوۃ کے رضاکار پنجاب بھر کے تمام متاثرہ علاقوں میں ماضی کی شاندار روایت برقرار رکھتے ہوئے سب سے پہلے پہنچے،موٹر بوٹس،کشتیوں کے ذریعے سیلابی پانی میں پھنسے لوگوں کو نکالا اور انہیں محفوظ مقامات پر منتقل کیا ۔جومریض تھے انہیں فلاح انسانیت فاؤنڈیشن کے ڈاکٹروں نے علاج معالجہ کے بعد ادویات دیں،پانی میں پھنسے گھروں کی چھتوں پر موجود افراد تک ایک ایک گھر میں کشتیوں کے ذریعے کھانا ،راشن پہنچایا گیا،جماعۃ الدعوۃ پاکستان کے امیر پروفیسر حافظ محمد سعید بھی پاکستان کی عوام کو مشکل میں دیکھ کر افسردہ ہوئے اور انہوں نے اپنی تمام تر مصروفیات ترک کے سیلاب زدہ علاقوں کا نہ صرف دورہ کیا بلکہ ریسکیو اور ریلیف آپریشن کا جائزہ لے کر بہتر کرنے کی ہدایات دیں اور متاثرین میں اپنے ہاتھوں سے امداد تقسیم کی اور سیلاب میں جاں بحق ہونے والے افراد کے اہلخانہ سے تعزیت کا اظہار کیا۔حافظ محمد سعید نے سیلاب متاثرہ علاقوں شاہدرہ لاہور کے مصافات،حافظ آباد،وزیر آباد،سیالکوٹ،جھنگ،چنیوٹ،اٹھارہ ہزاری،ملتان و دیگر علاقوں میں سیلاب متاثرہ افراد سے خطاب بھی کیا اور اس مشکل گھڑی میں انہیں بھر پور تعاون کا یقین دلایا۔جماعۃ الدعوۃ پاکستان کی وہ واحد جماعت ہے جو وطن عزیز پر آنے والی ہر مشکل اور قدرتی آفت کے موقع پر سب سے پہلے میدان عمل میں نکلتی ہے۔کشمیر کا زلزلہ ہویا 2010میں پنجاب میں سیلاب،آواران کا زلزلہ ہو یا تھر میں قحط ،سب سے پہلے جماعۃ الدعوۃFIF کے رضاکار ہر موقع پر پہنچے اور امدادی سرگرمیاں سرانجام دیں۔انٹرنیشنل میڈیا نے بھی اس بات کا ماضی میں بھی اعتراف کیا کہ جتنا کام انہوں نے کیا اتنا شاید حکومت بھی نہ کر رہی ہو اور اب بھی میڈیا یہ کہنے پر مجبور ہے کہ جماعۃ الدعوۃ کے لوگ ہر سیلاب متاثرہ علاقے میں موجود ہیں اور اپنی جان پر کھیل کر صرف اور صرف اﷲ کی رضا کے لئے متاثرین کی مدد کر رہے ہیں ،فوٹو سیشن اور دکھاوا کرنے کی بجائے سر جھکائے ،کندھوں پر راشن ،پکی پکائی خوراک اٹھائے داڑھی والے جوان جن کا تعلق جماعۃ الدعوۃ سے ہوتا ہے وہ جہاں حکومت نہیں پہنچ پاتی یہ لوگ پہنچتے ہیں اور متاثرین کی مشکلات کو کم کرنے اور انکے زخموں پر مرہم رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔اگرچہ پنجاب بھر میں آنے والے سیلا ب نے بہت زیادہ نقصان کیا ہے لیکن اب بھی وقت گزرا نہیں،حکومت کو آئندہ کے لئے منصوبہ بندی کرنی ہو گی کیونکہ سیلاب سے پاکستان کو جہاں بڑے پیمانے پر جانی نقصان ہوتا ہے ،املاک تباہ ہوتی ہیں ،فصلیں بہہ جاتی ہیں اس طرح بہت زیادہ معاشی نقصان بھی ہوتا ہے۔حکومت کو اس حوالہ سے سنجیدگی کے ساتھ وطن عزیز کو مضبوط و مستحکم بنانے کے لئے سوچنا ہو گا۔حکمران چھوٹے بڑے ڈیم بناکر سیلاب کے پانی کو محفوظ کرسکتے ہیں جوکہ ہماری آبی ضروریات کوپوراکرسکتاہے۔بدقسمتی سے نہ پہلی حکومتوں نے ڈیموں کے مسئلے کو سنجیدگی سے لیا اور نہ ہی موجودہ حکومت ہنگامی بنیادوں پر کام کررہی ہے۔پاکستان میں سیلاب کے دنوں میں ہر سال30سے40ملین ایکڑفٹ پانی اوسطاً سمندر کی نذرہوجاتا ہے۔اس پانی کو انٹرنیشنل مارکیٹ کے مطابق60سے80بلین ڈالر کی سالانہ معیشت کی بہتری کے لئے استعمال میں لانے کے ساتھ ساتھ دریائے سندھ پر کالاباغ ڈیم اور اکھوڑی ڈیم بناکر اس کے سیلابی پانی کو کنٹرول کیاجاسکتاہے۔پنجاب کے سیلاب زدہ علاقوں میں لاکھوں لوگ امدا د کے منتظر ہیں۔ سیلاب متاثرہ علاقوں میں ریسکیوکے بعدسب سے اہم کام متاثرین کو راشن، صاف پانی اور رہائش فراہم کرنا ہے۔ جماعۃ الدعوۃ اور اس کے رفاہی ادارے فلاح انسانیت فاونڈیشن کی جانب سے سیلاب زدہ علاقوں میں ریلیف وریسکیو آپریشن مزید تیز کیاگیا ہے تاکہ متاثرین کے معمولات زندگی بحال رکھنے میں مددکی جاسکے۔ جماعۃ الدعوۃ سیلاب متاثرہ بھائیوں کو مشکل کی اس گھڑی میں تنہا نہیں چھوڑے گی۔پاکستانی قوم مصیبت کی اس گھڑی میں دل کھول کراپنے بہن بھائیوں کی امداد کرے یہ صدقہ جاریہ بھی ہے اور بخشش کاذریعہ بھی۔ حکمران و سیاستدان باہمی اختلافات ترک کر کے سیلاب متاثرین کی مدد کا فریضہ سرانجام دیں۔ قوم ایک مرتبہ پھر 2005والی یکجہتی اور ایثار وقربانی کامظاہرہ کرے اور سیلاب زدہ علاقوں میں متاثرین کی مدد کرنے والوں کے ہاتھ مضبوط کرے تا کہ متاثرین کی مشکلات کا زیادہ نہ سہی کچھ تو ازالہ ہو۔حکمرانوں پر بھی دباؤ ڈالیں کہ وہ ہر سال ڈوبنے کی بجائے انڈیا سے اپنا حق لیں ، اپنے پانیوں پر کنٹرول حاصل کریں اوراپنی زراعت بہتر کریں ۔
Abu Al Hashim
About the Author: Abu Al Hashim Read More Articles by Abu Al Hashim: 15 Articles with 8785 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.