آج معمول سے ہٹ کر ذرا مختلف
انداز میں دو لیڈرز اور دو جگاڑیوں کا ذکر کروں گا۔ لیڈرز کا انتخاب میں
اسلامی تاریخ کے روشن ابواب سے کرسکتا تھا - کیونکہ ہماری تاریخ ایسے بیش
قیمت نگینوں سے بھری پڑی ہے۔ مگر میں نے قرون اولی اور خلفاء راشدین میں سے
انتخاب نہیں کیا، کیونکہ میں جگاڑیوں اور انکے مالشئیے نیم دانشوروں کی پست
ذہنیت کو خوب جانتا ہوں ، جب انھیں قرون اولی سے کوئی مثال دیں تو کہہ دیتے
ہیں کہ ہمیں ان عظیم ہستیوں کی مثال نہ دیں ہم اس پرفتن دور کے انسان ہیں،
آج نہ وہ حالات ہیں نہ وہ دور ہے۔ اس لئیے آج میں نے ان دو لیڈرز کا انتخاب
کیا ہے جنکا تعلق اسی پرفتن دور سے ہے اور انکے ممالک کے حالات بھی ہمارے
ملک سے زیادہ برے تھے مگر انھوں نے اپنی قائدانہ صلاحیتوں کی بنا پر اپنے
کلئیر ویژن کی روشنی میں اپنے ملک و قوم کو مسائل کی دلدل سے نکال دیا ۔
پہلا لیڈر جسکا ذکر کرنا چاہتا ہوں اسکا نام نیلسن منڈیلا ہے ۔ نیلسن
منڈیلا جنوبی افریقہ کے سابق اور پہلے جمہوری منتخب صدر ہیں جو 99-1994 تک
منتخب رہے۔ صدر منتخب ہونے سے پہلے تک نیلسن منڈیلا جنوبی افریقہ میں نسلی
امتیاز کے کٹر مخالف اور افریقی نیشنل کانگریس کی فوجی ٹکڑی کے سربراہ بھی
رہے۔ جنوبی افریقہ میں سیاہ فاموں سے برتے جانے والے نسلی امتیاز کے خلاف
انھوں نے تحریک میں بھرپور حصہ لیا اور جنوبی افریقہ کی عدالتوں نے ان کو
مختلف جرائم جیسے توڑ پھوڑ، سول نافرمانی، نقص امن اور دوسرے جرائم کی
پاداش میں قید با مشقت کی سزا سنائی۔ نیلسن منڈیلا اسی تحریک کے دوران
لگائے جانے والے الزامات کی پاداش میں تقریباً 27 سال پابند سلاسل رہے،
انھیں جزیرہ رابن پر قید رکھا گیا۔ 11 فروری 1990ء کو جب وہ رہا ہوئے تو
انھوں نے پر تشدد تحریک کو خیر باد کہہ کہ مذاکرات کا راستہ اپنانے کا
فیصلہ کیا جس کی بنیاد پر جنوبی افریقہ میں نسلی امتیاز کو سمجھنے اور اس
سے چھٹکارا حاصل کرنے میں مدد حاصل ہوئی۔
نسلی امتیاز کے خلاف تحریک کے خاتمے کے بعد نیلسن منڈیلا کی تمام دنیا میں
پذیرائی ہوئی جس میں ان کے مخالفین بھی شامل تھے۔ نیلسن منڈیلا نے ستائیس
سال جیل کاٹی اور پھر صدر منتخب ہوئے اور مفاہمتی سیاست کرتے ہوئے انھوں نے
تمام دشمنوں کو معاف کردیا اور پانچ سالہ دور اقتدار میں ملک کا نقشہ بدل
کر ترقی کی راہ پر ڈال دیا۔ صرف ایک بار پانچ سال کے اقتدار قبول کیا اور
دوسری باری لینا انکی غیرت نے گوارا نہ کیا۔ لیڈر نہ مسائل کا رونا روتا ہے
نہ مشکلات سے گبھرآتا ہے نہ اسے باریوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ باریاں وہ لیتے
ہیں جنھیں کرپشن کرنی ہوتی ہے اور پھر انکی باریوں کے لئیے ذہنی کرپٹ
دانشور راہ ہموار کرتے ہیں اور فلسفہ بکھیرتے ہیں جمہوریت کا تسلسل ضروری
ہے۔ اگر ایسے نیم خواندہ ذہنی بانجھ دانشور نیلسن منڈیلا کے مشیر ہوتے تو
یہ جگاڑ لگا کر اسے بھی دوسری باری لینے پر تیار کرلیتے۔ مگر لیڈر ہوتا ہی
وہ ہے جو انتہائی قابل لوگ اپنی ٹیم میں رکھتا ہے ۔
دوسرے لیڈر کے تذکرے سے پہلے میں ایک جگاڑی کا ذکر کرنا چاہتا ہوں جسے اسکی
پارٹی پاکستان کا نیلسن منڈیلا کہتی ہے انکا نام آصف علی زرداری ہے ۔ دلیل
دی جاتی ہے کہ جناب نے بھی جیل کاٹی ہے پورے گیارہ سال اور زرداری نے بھی
منڈیلا کی طرح مفاہمتی سیاست کی پاکستان میں بنیاد رکھی ۔ اس طفلانہ دلیل
کے جواب میں صرف اتنا کہوں گا کہ زرداری کی جیل کاٹنے اور مفاہمت سے ملک
وقوم کو کیا ملا ؟ منڈیلا نے جیل کرپشن کے چارجز کی وجہ سے نہیں کاٹی تھی۔
نہ منڈیلا نے کرپشن چھپانے کی خاطر مفاہمت کی تھی۔ نہ کسی آمر سے کوئی این
آر او کیا تھا۔ نیلسن منڈیلا نے پانچ سال میں کارکردگی دکھائی جبکہ
پاکستانی منڈیلا کی پارٹی دہائیوں سے سندھ میں حکومت کررہی ہے اور کارکردگی
صفر ہے۔ جب کارکردگی کا پوچھیں تو جمہوریت کا ترآنہ سننے کو ملتا ہے ۔
دوسرا لیڈر جسکا ذکر کرنا چاہتا ہوں اسکا نام طیب اردوغان ہے ۔ چند سال
پہلے ترکی کے حالات بھی بہت برے تھے، ہر ادارہ تباہ وبرباد ہوچکا تھا ۔
طویل مارشلاء بھی لگے۔ فرقہ وارانہ قتل وغارت لوٹ کھسوٹ اور نسلی فسادات کا
بھی بازار گرم تھا۔ پھر اردوغان استنبول کا ناظم بنا اور کارکردگی دکھائی
اور پھر اسی کارکردگی کو سیڑھی بنا کر 14 مارچ 2003ء کو طیب اردوغان ترکی
کا وزیرآعظم منتخب ہوا اور چند سالوں میں مارشلاؤں کا رونا رونے کی بجائے
ملک کو مسائل کے گرداب سے نکال لائے اور جب اسکی کارکردگی کی بدولت اسکی
قوم اسکی پشت پر کھڑی ہوگئی تو اردوغان نے مارشلاء لگانے والوں کا کڑا
مواخذہ کرکے انھیں تختہ دار تک پہنچا دیا۔ دو قائدین کا مختصر ذکر میں نے
پیش کیا ایک نے مفاہمت کی سیاست کی ملک وقوم کے مفاد کی خاطر جبکہ دوسرے نے
مواخذے کا دشوار رآستہ منتخب کیا۔ اکثر سوچتا ہوں کہ اگر ترکی میں بھی
بھانت بھانت کی بولی بولنے والے نیم خواندہ دانشور کثرت سے پائے جاتے جیسا
کہ پاکستان میں پائے جاتے ہیں تو ترکی کا کیا حال ہوتا ؟ یقینی طور پر
اردوغان بھی ملز فیکٹریاں اور بزنس ایمپائرز بناتا اور مارشلاء کا رونا
روتے اور جمہوریت کے تسلسل کے گن گاتے اپنی مدت پوری کرتا اور ڈنگ ٹپاؤ
پالیسی پر عمل کرتا جیسے پاکستانی جگاڑی کرتے ہیں ۔
پاکستان میں بھی ایک جگاڑی نے طیب اردوغان بننے کی کوشیش کی مگر بہادر شاہ
ظفر بن گیا۔ جگاڑی یہ اصول فراموش کربیٹھا کہ نقل کے لئیے عقل کی ضرورت
ہوتی ہے اور عقل اور جگاڑی دو متضاد ہیں۔ جگاڑ لگا کر باریاں لینے والے
جگاڑی کا دامن کارکردگی سے بالکل خالی تھا اور چلا تھا اردوغان بننے اور
ایک جنرل کو تختہ دار تک پہنچانے۔ طیب اردوغان نے کارکردگی کی بنا پر آمروں
کو سزائیں دیں جبکہ جگاڑی صرف نعروں دعوؤں کے لالی پاپ اور نیم دانشوروں کے
تجزیوں کے بل بوتے پر سب کرناچاہتا ہے جوکہ محال ہے۔ دو لیڈروں اور دو
جگاڑیوں کا مختصر احوال درج کردیا اب فرق تلاش کرنا آپکا کام ہے ۔۔ |