یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ آج
آصف علی زرداری کی پیپلز پارٹی صوبہ سندھ کی ٹھیکدار کیوں بنی ہوئی ہے،
بلاشبہ ذوالفقار علی بھٹو پاکستان کے ایک بہت بڑئے اور عظیم تاریخی لیڈر
تھے، اُنکی بیٹی بینظیر بھٹو بھی ایک عظیم لیڈر تھیں، لیکن 2007ء کے آخر
میں بینظیربھٹو کی ناگہانی موت کے بعد پیپلز پارٹی آصف علی زرداری کی ملکیت
بن گئی۔پیپلز پارٹی کی بنیاد 1967ء میں رکھی گئی تھی، تاریخی طور پر قیام
پاکستان میں بھٹو خاندان کا دور دور کوئی کردارنظر نہیں آتا۔ سندھ سے قائد
اعظم محمد علی جناح نے سائیں جی ایم سید کو مسلم لیگ میں شمولیت کی دعوت دی
تھی جو انھوں نے کراچی میں عبداللہ ہارون کے گھر پر قبول کی۔ سندھ میں جہاں
مسلم لیگ نے اپنی جڑیں مضبوط کرنے کے لیے جی ایم سید کا سہارا لیا وہاں اُس
کو روشناس کرنے میں سائیں جی ایم سید نے جو کردار ادا کیا اس کی مثال تاریخ
میں نہیں ملتی۔1941 ء میں سائیں جی ایم سید آل انڈیا مسلم لیگ کے مرکزی
کونسل کے ممبر بنے۔1943 ء میں اُن کو مسلم لیگ سندھ کا صدر منتخب کیا گیا۔
سندھ کو یہ شرف حاصل ہے کہ سائیں جی ایم سید کی سربراہی میں3 مارچ1943ء کو
1940 ء کی لاہور قرارداد کی روشنی میں سندھ اسمبلی سے برصغیر میں بسنے والے
مسلمانوں کی علیحدہ مملکت کے طور پر قرارداد پاس کرائی گئی۔ یہ پہلی اسمبلی
تھی جس میں متحدہ ہندوستان میں قیام پاکستان کی قرارداد منظور کی گئی تھی
اورجس کے نتیجے میں صرف 4 سال کے مختصر عرصے میں مسلمان اپنی علیحدہ ریاست
بنانے میں کامیاب ہوئے۔ سائیں جی ایم سید مسلم لیگ میں جناح صاحب سے اختلاف
کرنے والے پہلے اور شاید آخری مسلم لیگی لیڈر تھے۔ اگرچہ اُن کے جناح صاحب
سے اختلافات اُن کے مسلم لیگ سندھ میں مبینہ طورپر سید گروپ کے ایک ممبر
غلام حیدر شاہ کو انتخابات میں ٹکٹ نہ دینے پر ہوئے لیکن سائیں جی ایم سید
اور اُن کے حامی اُسے"سندھ کے مفادات پر" اختلافات قرار دیتے رہتے تھے۔
سائیں جی ایم سید نے آل آنڈیا مسلم لیگ سندھ کے صدر کی حیثیت سے پاکستان
بننے سے بھی کئی برس قبل انیس سو تیس کی دہائی میں بہار میں فسادات کے
متاثرین مسلمانوں کو سندھ میں آ کر بسنے کی اپیل کی تھی جس پر ایک بڑی
تعداد میں بہاری مسلمان سندھ میں آباد ہوئے جس میں مشہور بہاری مہاجر رہنما
مولانا عبدالقدوس بہاری بھی شامل تھے۔
قیام پاکستان کے بعدہندوستان سے ایک کثیر تعداد نے پاکستان ہجرت کی، ہجرت
کرنے والوں کو اُن پریشانیوں یا مصیبتوں کا بلکل خوف نہیں تھا جو ایسے وقت
ہوتی ہیں، اُنکو ایک لگن تھی کہ اپنا ایک وطن ہوگا۔ پاکستان ہجرت کرنے والے
پورئے پاکستان میں آباد ہوئے، ایک بڑی اکثریت نے سندھ کا رخ کیا۔ 1973ء میں
بھٹو صاب کا جہاں یہ بہت بڑا کارنامہ تھا کہ انہوں نے متفقہ آئین پاکستان
بنایا وہاں ایک سیاہ باب یہ بھی ہے کہ انہوں نے کوٹا سسٹم کو آئین کا حصہ
بنایا۔ یاد رہے کوٹا سسٹم کی میعاد دس سال تھی مگر اُفسوس کہ آج بھی اُس پر
عمل ہورہا ہے۔ اس کوٹا سسٹم کا اطلاق سندھ کے شہری علاقوں پر ہوتا ہے۔18
مارچ 1984ء کو الطاف حسین نے مہاجر قومی مومنٹ کے نام سے ایک سیاسی جماعت
کا اعلان کیا جو اب متحدہ قومی مومنٹ کہلاتی ہے۔ایم کیو ایم کے قیام کا یہ
اعلان عین اس وقت ہوا جب فوجی آمر ضیا الحق کے اس فیصلے کو محض چھ دن ہی
گزرے تھے، جس میں دیہاتی شہری کوٹہ سسٹم کو مزید 10 سال کے لیے بڑھا دیاگیا
تھا۔ 1987-88ءمیں ایم کیو ایم اور جئے سندھ میں سیاسی اتحاد زوروں پر تھا،
سندھی مہاجر بھائی بھائی کے نعرے گونجتے تھے، آئے دن الطاف حسین کی تصویریں
سائیں جی ایم سید کے ساتھ سے شائع ہوتیں تھیں۔ لیکن جب حیدرآباد میں ایم
کیو ایم اور جئے سندھ نے مختلف چوراہوں پر تحریک پاکستان کے فعال سندھی و
مہاجر رہنماوُں کی تصویریں آویزاں کرنے کا فیصلہ کیا ، تو سازشی عناصر کو
موقعہ ملا۔ایک طرف لیاقت علی خان، چوہدری خلیق الزمان اور دوسری طرف
عبدالمجید سندھی اور سائیں جی ایم سید کی تصویروں کی پیٹنگ کا اہتمام کیا
گیا، لیکن سازشی عناصر نےایک دن ایم کیو ایم کے کیمپ میں اوردوسرے دن
جئےسندھ کے کیمپ میں تصویروں کو توڑا پھوڑااور مخالفانہ نعرے لکھ دیئے،
بغیر تحقیق کے حیدرآباد میں دونو ں تنظیموں کے کارکن لڑ پڑے اور اس کشمکش
میں اتحاد کا رشتہ ٹوٹ گیا جو پھر کبھی نہ جڑپایا۔
روزنامہ سندھ ایکسپریس لکھتا ہے کہ "علامہ طاہر القادری سے لیکر الطاف حسین
تک بعض حلقے ملک کے بہتر مستقبل کے نام پر مزید انتظامی یونٹ قائم کرنے کا
خاکہ پیش کر رہے ہیں۔ ایم کیوایم کی جانب سے یہ مطالبہ پرانا ہے، جس پر
سندھ میں ہر مرتبہ شدید ردعمل سامنے آتا رہا ہے۔اس ردعمل کو دیکھ کر وقتا
فوقتا ایم کیو ایم تردیدیں بھی جاری کرتی رہی ہے کہ وہ سندھ کی وحدت پر
یقین رکھتی ہے۔ لیکن پھر اس مطالبے کو دہراتی بھی رہی ہے "۔ متحدہ قومی
موومنٹ کے سربراہ الطاف حسین نے اپنی سالگرہ کے موقعہ پر ایک مرتبہ پھر
اپنے مطالبے کو دہرایا اور پورئے ملک میں بیس انتظامی یونٹ قائم کرنے کا
مطالبہ کیا، ابھی اُن کی تقریر جاری تھی کہ اُسکے جواب میں آصف زرداری کے
صابزادئے پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے متحدہ کے سربراہ کی
تقریر کے جواب میں ٹوئیٹ کیا کہ"مرسوں مرسوں سند ھ نہ ڈیسوں" یعنی سندھ کی
تقسیم کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ الطاف حسین یا ایم کیو ایم کا تو پتہ
نہیں کہ کب اپنی سیاسی مجبوریوں کی وجہ سے اس مطالبے سے علیدہ ہوجایں لیکن
حقیقت یہ ہے کہ سندھ میں شہری علاقوں کی آبادی پچاس فی صد سے زیادہ ہے اور
سندھ کی شہری آبادی سے سندھ کے محصولات کا پچانوے فی صد سے زیادہ حصہ حاصل
ہوتا ہے لیکن بدلے میں اُنکو جو اختیارات حاصل ہیں وہ پانچ فی صد سے بھی کم
ہیں۔
پاکستان پیپلز پارٹی 2008ء سے 2013ء تک مرکز اور صوبہ سندھ میں حکومت کرتی
رہی،2013ء کے انتخابات میں پیپلز پارٹی صرف صوبہ سندھ تک کی حکمراں رہ گئی۔
گذشتہ ساڑھےچھ سال سے اس صوبے کا وزیر اعلی ایک ایسا شخص ہے جسکو صرف لوٹ
مار سے غرض ہے، یہ ایک انتہائی نااہل شخص ہے جو گذشتہ ساڑھےچھ سال سے صوبہ
کو برباد کررہا ہے۔ سندھ کی پیپلز پارٹی کی 2008ء سے 2013ء کی قائم علی شاہ
کی حکومت کو سپریم کورٹ نے نا اہل قرار دیاتھا، اگر مرکز میں پیپلز پارٹی
کی حکومت نہ ہوتی تو شاید سندھ میں گورنر راج آجاتا۔ سندھ کے بڑے شہروں کے
لئے کوئی بڑا ترقیاتی منصوبہ نہیں بنایا۔ امن و امان کی صورتحال بدترین
رہی۔ اسٹریٹ کرائم کے حوالے سے کراچی سر فہرست ہے۔ رشوت لے کر نوکریاں دینے
کا رواج عام رہا۔ قائم علی شاہ کے ساڑھےچھ سالہ دور میں صرف کراچی میں دہشت
گردی اور ٹارگیٹ کلنگ سے آٹھ ہزار سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے۔، بھتہ خوری،
اغوا برائے تاوان، سرکاری اور فوجی املاک پر حملے ، فرقہ وارانہ نفرت ، بے
روز گاری اور مہنگائی کی ذمیدار پیپلز پارٹی کی حکومت ہے، سندھ کی ترقی
کےلیے کچھ نہیں کیا ، کراچی تو چھوڑیں اُنہوں نے تو لاڑکانہ، نواب شاہ یا
خیرپور میں بھی عوامی بھلائی کا کوئی کام نہیں کیا۔
یہ جو سندھ کے سپوت ہیں جو کسی کو بھی سندھ کی ترقی پر بات کرنےپر اُسکو
غدار کہنے میں دیر نہیں کرتے، یہ خود ہی بتادیں کہ انہوں نے سندھ کےلیے کیا
کیا ہے،سندھ میں نئے انتظامی یونٹ قائم کرنے یا نئے صوبے کے سوال پر پیپلز
پارٹی ہمیشہ ایسے ہی ردعمل کا مظاہرہ کرتی ہے۔ پیپلز پارٹی ایک عرصے سے
سندھ پرحکومت کررہی ہےکیا اس نے لاڑکانہ کی سڑکیں درست کردیں، کیا نواب شاہ
کی یا خیرپور کی ترقی کےلیے کچھ کیا، جواب صرف نہیں میں ملے گا، وجہ صرف یہ
ہی ہے کہ ان کو عوام کی کوئی پرواہ نہیں اور انکے لیے صوبے کے معاملات کو
چلانا مشکل ہوتا ہے، اسلیے اگر یہ مطالبہ کیا جارہا ہے کہ نئے انتظامی یونٹ
بنائے جایں تو اس میں ہی سب کا فاہدہ ہے۔ یہ پروپگنڈہ کرکے کہ ایم کیو ایم
یہ مطالبہ کررہی ہے اسلیے نہ منظور، کوئی وجہ نہیں۔ میں آپ اور سب ایم کیو
ایم کی مخالفت کریں لیکن یہ حقیقت سب جانتے ہیں کہ ایم کیوایم ایک سیاسی
طاقت ہے، اور جسکو بھی اپنے اقتدار کی ناوُ ڈوبتی نظر آتی ہےوہ ایم کیو ایم
کے دربار میں حاضری دئے رہا ہوتا ہے ۔ صوبہ سندھ یا کراچی جیسے علاقوں میں
ایک قوم آباد نہیں، یہاں بھارت کے مختلف علاقوں سے ہجرت کرنے والے اور
اُنکی اولادیں آباد ہیں، یہاں پشتون بھی ہیں، بلوچی بھی ہیں اور پنجاب سے
آکر یہاں آباد ہوجانے والے بھی ہیں۔ لہٰذا سندھ کو لسانی بنیاد پرتقسیم
نہیں کیا جاسکتامگر انتظامی بنیاد پر تقسیم کرکے بہتری لائی جاسکتی ہے۔
جنرل پرویز مشرف کے زمانے میں بلدیاتی ادارئے کام کررہے تھے اور کراچی میں
پہلے نعمت اللہ خان اور بعد مصطفی کمال نے کراچی کے ناظم کی حیثیت سے کراچی
کو بدل کررکھ دیا تھا، دونوں کا تعلق دو متحارب سیاسی جماعتوں سے تھالیکن
دونوں کو کام سیاسی نہیں بلکہ عوام کی بہبود کےلیےکرنا تھا جو کیا گیا ۔
پاکستان میں رہنے والا ہر شخص پاکستان کی ترقی کا طلبگار ہے اور یہ تب ہی
ممکن ہے جب پورئے پاکستان میں نئے انتظامی یونٹ بنائے جایں۔ پیپلز پارٹی ،
ایم کیو ایم، سندھ کے قوم پرست لیڈراور دوسری سیاسی جماعتوں جن میں جماعت
اسلامی، تحریک انصاف اور پاکستان مسلم لیگ نون بھی شامل ہیں سر جوڑکر اس
مسلئہ کا حل نکالنا ہوگا۔ کیونکہ "مرسوں مرسوں سند ھ نہ ڈیسوں" کی ٹوئیٹ
کرنے سے یہ مسلئہ حل نہیں ہوگا اور آخر میں پھر وہی بات کہ " یہ بات سمجھ
سے بالاتر ہے کہ پیپلز پارٹی صوبہ سندھ کی ٹھیکدار کیوں بنی ہوئی ہے؟"۔ |