یہ بات باور کر لینی چاہیے‘ کہ
شخص زبان کے لیے نہیں‘ زبان شخص کے لیے ہوتی ہے۔ جب شخص زبان کا پابند ہو
جاتا ہے‘ خیال اور جذبے کے اظہار کے رستے میں‘ دیوار کھڑی ہو جاتی ہے۔ کسی
ناکسی سطح پر‘ زبان کے اصولوں اور ضابطوں کی پاسداری ہو جاتی ہے‘ لیکن خیال
اور جذبہ‘ اپنی اصلیت برقرار نہیں رکھ پاتے۔ یعنی جو کہنا ہوتا ہے وہ پس
پشت پڑ جاتا ہے۔ جو کہنا تھا یا جو کہنے کی ضرورت تھی‘ کہا نہ جا سکا‘ تو
سب لاحاصل اور لایعنی ٹھہرے گا۔
دوسری بڑی بات یہ ہے‘ کہ لفظ اپنی ذات میں‘ تفہیمی استحکام نہیں رکھتا۔ جو
لوگ لفظ کے تفہیمی استحکام کے قائل ہیں‘ ہر قدم پر‘ ٹھوکر کھاتے ہیں۔ لغت
کچھ ہوتے ہوئے بھی‘ کچھ بھی نہیں۔ اس پر اعتماد‘ گمراہ کرتا ہے۔ اس موضوع
پر‘ بڑی تفصیل سے بات کر چکا ہوں۔ نیٹ پر موجود میری کتاب
The language problem
میں مضمون موجود ہے۔ لفظ اپنے متن میں ہی‘ معنویت سے ہم کنار ہوتا ہے۔
استعمال کنندہ کے جذبے اور خیال کو‘ لفظ نے ہر حال اور ہر صورت میں فالو
کرنا ہوتا ہے۔
تیسری بات یہ کہ لفظ کی زبان کو سمجھے بغیر‘ تفہیم کے امور طے نہیں ہوتے۔
ہمارے ہاں کا عمومی طور یہ ہی رہا ہے‘ کہ ہم لفظ کی بولی سمجھے بغیر‘ تشریح
کی طرف بڑھتے ہیں۔ کلام غالب ہو‘ کہ کلام اقبال‘ بازار میں تشریحات کا
انبار لگا ہوا ہے۔ ہر کسی نے‘ لفظ کی بولی سمجھے بغیر‘ تھوڑا نہیں‘ بہت کچھ
لکھ دیا ہے۔ یہ معاملہ کسی المیے سے بہرطور کم نہیں۔
گلی کا کوئی عام شخص ہو‘ یا صاحب سخن‘ اپنا الگ سے اسلوب رکھتا ہے۔ دونوں
کے ہاں طرحداری موجود ہوتی ہے۔ یہ نادانستہ طور ہوتا ہے۔ مکالمے میں تفہیم
کی ذیل میں‘ باڈی لنگوئج اپنا کردار ادا کرتی ہے۔ پس دیوار‘ کہی گئی بات‘
جب کانوں میں پڑتی ہے‘ تو سماعی آلہ متحرک ہوتا ہے‘ ابہام کی صورت پیدا ہو
سکتی ہے۔
پس دیوار ایک شخص کہتا ہے‘ آج میں اسے جان سے مار دوں گا۔
سننے والا‘ اس بات کو اپنی ذات پر محمول کر سکتا ہے۔ بات گرہ میں تو بندھے
گی ہی‘ اس پر طرہ یہ کہ اس ذیل میں‘ کوئی بھی منفی ردعمل سامنے آ سکتا ہے۔
گویا کسی بھی سطح پر‘ سماعی آلے اپنی کارگزاری میں صفر ہو سکتے ہیں۔ حالاں
کہ اس نے‘ روزانہ دودھ پی جانے والی بلی کے بارے میں‘ کہا ہوتا ہے۔ بصارتی
آلے کی صورت بھی‘ اس سے مماثل ہو سکتی ہے یا ہوتی ہے۔ جو دیکھا گیا ہو‘
ضروری نہیں وہ اسی طرح سے ہو‘ جیسے دیکھا گیا ہوتا ہے۔
کاغذ پر موجود لفظوں کی تفہیم‘ اور بھی مشکل ہوتی ہے۔ لکھی گئی بات کے لہجے
کا تعین‘ خود سے کرنا پڑتا ہے۔ اس لیے‘ اہل سخن کے کہے کی تفہیم‘ لفظوں کی
بولی سمجھے بغیر‘ ممکن ہی نہیں۔ اہل سخن عمؤم سے نہیں ہوتے‘ اس لیے ان کے
کہے کو‘ سرسری نہیں لیا جا سکتا اور ناہی ان کا کہا‘ عموم کا کہا ہوتا ہے۔
انہیں سمجھنے کے لیے‘ پہلے ان کی زبان سے آگہی ضروری ہے۔ ان کے کہے کا اصل
کمال یہ ہوتا ہے‘ کہ ان کے لفظوں کو جس رخ اور جس پہلو سے دیکھو گے‘ تہ در
تہ مفاہیم‘ ملتے چلے جائیں گے۔ اگرچہ لمحہءتخلیق تک رسائی ممکن نہیں‘ پھر
بھی‘ غور و فکر کے نتیجہ میں بہت کچھ ہاتھ لگ سکتا ہے۔
کسی بڑی بات کو کہنے کے لیے‘ وہ لفظوں کو نیا انداز اور نیا سلیقہ دیتے
ہیں۔ لفظ اس طور سے‘ اور ان معنوں میں‘ کبھی استعمال ہی نہیں کیا گیا ہوتا۔
گویا وہ لفظوں کو رواج اور لغت سے ہٹ کر‘ اور اپنی مرضی کے معنی عطا کرتے
ہیں۔ کپڑا ایک سا ہی ہوتا ہے‘ لیکن درزی کی ہنرمندی اسے اور ہی پہب دے دیتی
ہے۔ وہ پہب‘ بصارتی آلات پر مثبت اثرات مرتب کر سکتی ہے۔ ہر نئے کے لیے‘
استعمال کا سلیقہ بھی نیا‘ اور الگ سے ہوتا ہے۔ نئے کے لیے مرکبات بھی نئے
وجود پکڑیں گے۔
سبھی اہل سخن‘ اپنے اپنے حوالہ سے‘ اردو زبان کے لیے‘ بڑی اہمیت رکھتے ہیں۔
انہوں نے اردو زبان کو بساط بھر‘ کچھ دیا ہی ہے۔ باہمی رنجش ہو‘ کہ ادبی
چپقلس‘ کسی معاملے کا رد عمل ہو‘ کہ ذات کا کرب زبان کو کچھ ناکچھ ملا ضرور
ہے۔ اقتداری ہواوں کے مسافروں سے بھی‘ زبان مایوس نہیں ہوئی‘ ہاں‘ ان کی
غلط اور اقتداری شہادت نے‘ آتے کل کے لیے‘ مخمصے ضرور چھوڑے ہیں۔ یہ ہی
نہیں‘ ان کے کہے کے حوالہ سے‘ تقسیم کا دروازہ ضرور کھلا ہے۔ اقتدار سے دور
محروم لوگوں نے‘ اپنے وسیب کے معاملات کو نگاہ میں رکھا ہے۔ سماجی اور
اقتداری بےانصافیوں کو‘ لفظوں میں ملفوف کرکے پیش کیا ہے۔ جو بھی سہی‘ زبان
کی خدمت ضرور ہوئی ہے۔ سچی گواہیوں کی شاعری کی زبان کو‘ سٹریٹ نے قبولیت
کی سند عطا کی ہے۔
عہد قریب کے تین چار لوگ محرومی‘ تلخی‘ بغاوت‘ جدت طرازی اور محبتوں کی
مٹھاس کے حوالہ سے
شاید فراموش نہ کیے جا سکیں گے۔ کونے کھدرے میں سہی‘ ان کا نام ضرور باقی
رہے گا۔ علامہ بیدل حیدری‘ عصر جدید کی بڑی توانا آواز ہے۔ ان کے ہاں‘
زندگی اپنے ان گنت رنگوں کے ساتھ رقصاں نظر آتی ہے۔ وہ نظم اور غزل کے‘
پختہ کار شاعر تھے۔ بڑے بڑوں کا قلم‘ ان کے قلم کے‘ قدم لیتا نظر آتا ہے۔
اختر حسین جعفری‘ کلاسیکل زبان کو جدید طور سے‘ آشنا کرنے میں‘ اپنا جواب
نہیں رکھتے۔ شکیب جلالی کی فکر اپنی جگہ‘ ظالم دہائی کی زبان استعمال کرتا
ہے۔ مبارک احمد اور انیس ناگی نے نثری نظم کی زبان کو الگ سے سلیقہ عطا
کیا۔ تبسم کاشمیری نے‘ زندگی کو شہد میں ملفوف کرنے کی سعی کی جب کہ سعادت
سعید‘ ہمیشہ جدت طرازی کے گھوڑے پر سوار رہے۔
ان سب کی زبان کا مطالعہ کریں‘ تو یہ کہے بغیر بن نہ پائے گی‘ کہ ان اہل
سخن نے اردو کو نیا اور انسانی زندگی سے میل کھاتا‘ سلیقہ عطا کیا۔ یہ سب
برگد ہیں‘ اور ان کی شاخوں کا شمار‘ مجھ ناچیز طالب علم کے لیے ممکن ہی
نہیں۔
عصر رواں میں‘ علامہ بیدل حیدری کے پائے کا‘ شاید ہی کوئی خوش فکر اور خوش
زبان شاعر نظر آئے۔ اس برگد کی ایک شاخ پر‘ میری نظر پڑی ہے۔ اس کے کلام کی
خوش بو‘ نفیس طبع کے لوگوں کو مسرور کرتی ہے‘ اور کہیں گدگداتی ہے۔ اس کی
زبان اور فکر کا سلیقہ ہی الگ سے‘ اور ہٹ کر ہے۔ اس کا کلام پڑھ کر‘ واضح
طور پر محسوس ہوتا ہے‘ کہ وہ اردو زبان کی قدرت اور لچک پذیری سے‘ خوب خوب
آگاہ ہے۔ اس نے اپنا الگ سے‘ لسانیاتی اسلوب تشکیل دیا ہے۔ شعری زبان میں‘
اس کا اپنا الگ سے لہجہ ہے۔ اس کا یہ اسلوب اور لہجہ‘ قاری کی توجہ حاصل
کرنے میں کمال رکھتا ہے۔ بات کرنے کے لیے‘ اس نے کئی طور اور انداز اختیار
کیے ہیں۔
اب میں اس شاخ کی‘ شعری زبان کا مختصر مختصر‘ اور ناچیز سا مطالعہ پیش کرتا
ہوں۔ اس مطالعہ سے‘ اس کی زبان دانی کے قد و کاٹھ کا‘ کسی حد تک سہی‘
اندازہ ضرور ہو جائے گا۔
طنز‘ حیرت اور سماجی حقیقت میں ملفوف ذرا یہ سوالیہ انداز ملاحظہ ہو۔
مانگے گا کوئی بھیک ترے شہر میں کیسے
پہلو میں ہر اک شخص کے جب کاسے بندھے ہیں
جہاں اس شعر میں سوال ہے‘ وہاں شاعر کسی سے مخاطب بھی ہے۔ دکھنے میں یہ شعر
جتنا سادہ ہے‘ تفہیم میں اتنا طرحدار بھی ہے۔ اس شعر میں لفظ ترے نے‘ اسے
بڑا بلیغ بنا دیا ہے۔ اسی قماش کا‘ ایک اور سلگتا ہوا شعر ملاحظہ ہو
کچھ تو بتاؤ کیا کیا راکھ ہوا ہے اور
اور وہ لوگ جو آگ لگانے آئے تھے
کچھ تو بتاؤ
کیا کیا راکھ ہوا ہے
اور
پہلے مصرعے کا اور اتنا سادہ نہیں‘ جتنا نظر آ رہا ہے۔ یہ سوالیہ ہے‘ کچھ
تو بتاؤ کیا کیا راکھ ہوا ہے۔۔۔۔ الگ سے سوال ہے۔ دوسرے مصرعے میں‘ اس کی
نوعیت بالکل مختلف ہے ۔ بات بھی پہلے مصرعے سے الگ تر ہے۔ اسے اس طور سے
دیکھیں
اور وہ لوگ
جو آگ لگانے آئے تھے
شاعر خود کلامی سے بھی کام لیتا ہے۔
کیمرا رکھ کے سامنے خود ہی
اپنی تصویر اس کے ساتھ اتار
اب تخاطب میں لیپٹا‘ استداعیہ انداز ملاحظہ ہو
کر عطا مجھ کو صبر کا مفہوم
پیاس میری لب فرات اتار
تلمیح نے فکر کو اور جاندار بنا دیا ہے۔
مستعمل محاروں کا استعمال‘ کمال کا حسن رکھتا ہے۔ یہ ہی نہیں جدت طرازی کا
خوب صورت نمونہ ہوتا ہے۔ باطور ذائقہ دو تین محاوروں کا استعمال ملاحظہ ہو
دل میں اس کو تلاش کر لیکن
پہلے شیشے میں کائنات اتار
کبھی اٹھے گا بھی پردہ دل سے
کبھی نکلے گی یہ دنیا دل سے
بینائی کا خمیازہ نہ پڑ جائے بھگتنا!
ہر خواب نہ یوں حسن طرحدار سے باندھو
یہ کس طرح کے بھلا ہم اسیر ظلمت ہیں
کہ روشنی کی ملاقات بھی نہیں آتی
صنعت تکرار لفظی‘ شاعر بکثرت استعمال کرتا ہے اور اس کے لیے‘ اس نے کئی
انداز اختیار کیے ہیں۔ اس ذیل میں چند ایک مثالیں ملاحظہ ہوں
سوچتے سوچتے جب سوچ ادھر جاتی ہے
روشنی روشنی ہر سمت بکھر جاتی ہے
رفتہ رفتہ ہی دل تجھ کو بھولے گا
جاتے جاتے ہی یہ رغبت جاتی ہے
دل کی آنکھوں سے اگر دیکھو تو‘ دیکھو ہر سو
ان نظاروں سے الگ ایک نظارہ آباد
میں رہوں یا نہ رہوں یار رہے باقی‘ اور
یار کے ساتھ رہے یار کا قصبہ آباد
دیکھنا اب ہے مسافر کی طرح ہر منظر
میلے میں رہ کے بھی میلے سے الگ رہنا ہے
ہم صوت لفظوں کا استعمال‘ شاعر کی زبان پر قدرت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ یہ
صنعت غنا کے حوالہ سے‘ بڑی اہمیت رکھتی ہے۔ مثلا یہ اشعار ملاحظہ فرمائیں
ہم نے کبھی نہ چیز اٹھائی پڑی ہوئی
قدموں میں تھی اگرچہ خدائی پڑی ہوئی
اٹھیں تو قدم کیسے میں جاؤں تو کہاں جاؤں
ہے آگ مرے آگے تودریا مرے پیچھے
دشت کی پیاس بجھے گی اک روز
کبھی گزرے گا وہ دریا دل سے
روح بھی جھوم اٹھی تھی اس پل
رات گزرا جو وہ تارا دل سے
صنعت تضاد‘ جہاں تقابلی صورت پیدا کرتی ہے‘ وہاں شناخت کا‘ بہت بڑا ذریعہ
بھی ہے۔ اس سے عناصر کی اہمیت‘ اور حقیقی قدر کا بھی‘ اندازہ ہوتا ہے۔ اس
صنعت کا استعمال‘ بڑی ہنرمندی سے ہوا ہے۔ مثلا
روشنی اور تیرگی میں اک دیا دیوار ہے
اور اس کی راہ میں دیکھو ہوا دیوار ہے
میری صدا پر وہ قریب تو آئے گا
لیکن زیر دام نہیں آنے والا
جاگتے جاگتے ہے نیند بھی پوری کرنی
بھیڑ میں رہ کے بھی چپکے سے الگ رہنا
بچھڑا ہے کون کس سے کوئی جانتا نہیں
ہم تم سے کیا ملے‘ ہے دہائی پڑی ہوئی
متعلقات کا استعمال‘ جہاں وضاحت پیدا کرتا‘ وہاں مفاہیم کے دائرے‘ پھیلانے
کا بھی سبب بنتا ہے۔ اس ضمن میں چند نمونہ کے اشعار ملاحظہ ہوں۔
ساون کی جھڑیاں بھی نوچتی رہتی تھیں
تیرے بن برسات پہ غصہ آتا تھا
میں ایک اشک ندامت تھا اپنی پلکوں پر
کسی نگاہ میں آیا تو آئنہ ٹھہرا
اک لہر مجھے اور طرف کھینچ رہی ہے
جو غرق کیے جائے‘ کنارا سا کوئی ہے
کنارے کا غرق کرنا‘ قطعی متضاد معنی رکھتا ہے۔ اہل سخن کا کمال یہ ہی ہوتا
ہے‘ کہ وہ لفظ کو اپنی مرضی کے مفاہیم‘ عطا کرتے ہیں۔
تشبیہ شعر کی جان ہوتی ہے۔ اس کا برمحل اور پرسلیقہ استعمال‘ شعر میں
مقناطیسیت بھر دیتا ہے۔ زیر مطالعہ شاعر کی چند تشبیہات دیکھیں۔ کیا طور
اور انداز پایا ہے۔
وہ ایک سانس کہ دھڑکن کے ساتھ رک سی گئی
وہ ایک پل کہ بھڑکتا ہوا دیا ٹھہرا
رات گزرا یہ کس گلی سے میں
کیا اندھیرا تھا وہ ضیا کا سا
تیرتے آئیں نظر جس میں ستاروں کے دیے
میری آنکھوں کے کنارے ہے وہ دریا آباد
یہ تشبیہ‘ استعارے کا اترن لیے ہوئے ہے۔
عکس یقین
پڑا ہے شیشہءدل پر تمہارا عکس یقین
ملے ہیں پہلے کہیں ہم‘ گمان پڑتا ہے
حرف تسکیں
حرف تسکیں‘ ترا شفا کا سا
دل پہ جادو ہوا دوا کا سا
سچ کا دیپک
سچ کا دیپک مانگ رہا ہے آخری سانس
جان بچا لوں میں تو محبت جاتی ہے
اہل سخن کے کہے کا‘ ایک کمال یہ بھی ہوتا ہے‘ کہ جس زاویہ سے بھی دیکھو‘ یا
اشکالی اور استعمالی تبدیلیاں کر لو‘ مفاہیم کا جہاں آباد ہوتا ہے۔ باطور
ثبوت یہ مثالیں پیش ہیں۔
کیا لوگ ہیں‘ ہم لذت دنیا سے بندھے ہیں
پانی کے لیے پیاس کے صحرا سے بندھے ہیں
کیا لوگ ہیں
ہم لذت دنیا سے بندھے ہیں
پانی کے لیے
پیاس کے صحرا سے بندھے ہیں
اب اس شعر کو یوں پڑھیے
کیا لوگ ہیں ہم
پیاس کے صحرا سے بندھے ہیں
پانی کے لیے
لذت دنیا سے بندھے ہیں
اب یوں پڑھیے
کیا لوگ ہیں ہم‘ پانی کے لیے
پیاس کے صحرا سے بندھے ہیں
یہ استعارے کہاں لے جاتے ہیں‘ ذرا غور فرمائیں۔ انہیں تلمیحی حوالہ سے بھی‘
لے سکتے ہیں۔
پانی‘ پیاس‘ صحرا
ہم صوت الفاظ
سے‘ کے
انہیں باطور محاورہ لے سکتے ہیں۔
لذت دنیا سے بندھنا
پیاس کے صحرا سے بندھنا
پیار ہی پیار میں وہ آگ بگولا ہو جائے
بات ہی بات میں تلوار پہ آ جاتا ہے
پیار ہی پیار میں
وہ آگ بگولا ہو جائے
بات ہی بات میں
تلوار پہ آ جاتا ہے
اب یوں پڑھیے
بات ہی بات میں
وہ آگ بگولا ہو جائے
پیار ہی پیار میں
تلوار پہ آ جاتا ہے
تلوار پہ آنا‘ نیا محاورہ ترکیب پایا ہے۔
وہ ایک پل کہ ترے رو بہ رو میں آ ٹھہرا
نظر نظر میں شعاعوں کا قافلہ ٹھہرا
وہ ایک پل کہ
ترے رو بہ رو میں آ ٹھہرا
نظر نظر میں
شعاعوں کا قافلہ ٹھہرا
اب یوں پڑھیے
نظر نظر میں‘ ترے رو بہ رو میں آ ٹھہرا
وہ ایک پل کہ شعاعوں کا قافلہ ٹھہرا
نظر نظر میں
ترے رو بہ رو میں آ ٹھہرا
وہ ایک پل کہ
شعاعوں کا قافلہ ٹھہرا
ترے رو بہ رو شعاعوں کا قافلہ ٹھہرا
وہ ایک پل کہ ترے رو بہ رو آ ٹھہرا
شاعر کا واسطہ‘ جہاں سخن سناشوں سے ہوتا ہے‘ وہاں وسیب کے ہر طبقہ کے لوگوں
سے بھی‘ تعلق اور رشتہ ہوتا ہے۔ وہ ان ہی کے دکھ درد کاغذ پر منتقل کر رہا
ہوتا ہے۔ ان سے اٹوٹ رشتہ ہونے کے باعث عوامی روزہ مرہ اور عوامی
تکیہءکلام‘ اس کی شعری زبان کا حصہ بن جاتا ہے۔ زیر گفت گو شاعر نے‘ اس میں
بہت کم تصرف سے کام لیا ہے۔
پہلے پہل
پہلے پہل ہر بات پہ غصہ آتا تھا
اور مجھے حالات پہ غصہ آتا تھا
بات ہی بات میں
پیار ہی پیار میں وہ آگ بگولا ہو جائے
بات ہی بات میں تلوار پہ آ جاتا ہے
ویسے بھی
ویسے بھی کچھ خون میں گرمی تھی اس وقت
ویسے بھی ہر بات پہ غصہ آتا تھا
اس کا دیا
اس کا دیا بہت ہے
اس کا دیا بہت ہے مگر کیا کروں شمار
ہر شے ہے میرے پاس پرائی پڑی ہوئی
غزل میں شاعر تخلص آخر میں استعمال کرتا ہے۔ اختر شمار کی غزل پر میں نے
گفت گو کی ہے۔ اس گفت گو کا اختتام مقطعے پر کیا ہے۔ سماج کی یہ ریتا رہی
ہے‘ اگر کوئی برا کرئے‘ تو اس کے پیر اور استاد کو پنتے ہیں۔ اچھا کرنے کی
صورت میں‘ استاد پس پشت چلا جاتا ہے۔ میں یہ نہیں کروں گا۔ علامہ بیدل
حیدری نے‘ اختر شمار کو شعری ہنر سکھانے میں‘ بلاشبہ کسر نہیں چھوڑی۔ یہ
اپنی جگہ اٹل حقیقت ہے‘ کہ اختر شمار سے ہنر سیکھنے والے‘ لگن کے پکے بھی
کم ہی دیکھنے کو ملتے ہیں۔ |