کیا ہم تبدیلی نہیں لاسکتے
(musarrat ullah jan, peshawar)
دس سال کا معصوم بچہ ہر آنے جانے
والوں کو ایک آس و امید سے دیکھتا کہ کوئی اس کی طرف دیکھے اور اس سے
خریداری کرے لیکن ہر کوئی اپنے خیالوں میں مگن ہوتا اور کوئی بھی شخص اس
معصوم لڑکے کو نہیں دیکھتا جس کی وجہ سے اس کے چہرے پر مایوسی پھیل جاتی
تین دن قبل شام کے وقت یونیورسٹی سے واپسی پر اپنے گھر جارہا تھا کہ اسی
بچے کو نہر کنارے بیٹھے دیکھا وہ پلاسٹک کے کارڈ جس میں لوگ شناختی کارڈ
رکھتے ہیں اپنے سامنے زمین پر رکھے ہوئے تھے اور آوازیں لگا رہا تھا "
شناختی کارڈ کیلئے پلاسٹک کارڈ لے لو"اور ہر آنے جانے والے شخص کو دیکھ رہا
تھا لیکن جب کوئی اس کی طرف نہیں دیکھتا تو وہ مایوسی سے آنکھیں نیچے کرکے
اپنے آپ کو اور اس بوری کو دیکھتا جس پر اس معصوم بچے نے یہ سب کارڈ رکھے
ہوئے تھے - میں نے بھی دوسرے لوگوں کی طرح سر نیچے کیا اور اس کی طرف دیکھے
بغیر آگے چلا گیا کہ کون پرائے غم اپنے سر لے- لیکن میرا ضمیر مجھے ملامت
کررہا تھا کہ صرف دس روپے کا ہی تو ہے کارڈ لے لیتے تو اس بچے کی کمائی ہو
جاتی لیکن پھرمیں نے ضمیر کو یہ لوری دیکر سلا نے کی کوشش کی کہ پلاسٹک
کارڈ کا میں نے کرنا ہی کیا ہے -
آج شام یونیورسٹی سے لیٹ فارغ ہوارات ساڑھے نو بجے کے قریب میں اسی راستے
پر گزر رہا تھا جہاں پر تین دن قبل میں نے بچے کو دیکھا تھا آج اس بچے کی
آنکھوں میں نیند تھی اور نیند کے جھونکے اپنی آنکھوں سے بھگانے کی کوشش میں
کبھی ایک طرف گرتا اور کبھی دوسری طرف اس وقت راستے میں کوئی بھی نہیں تھا
چونکہ ساڑھے نو بجے کا وقت تھا اس لئے میں سائیڈ پر کچھ دیر کھڑا ہو کر اسے
دیکھنے لگا-اس معصوم کی آنکھوں میںنیند کی سرخی تھی اسلئے وہ شناختی کارڈ
کے پلاسٹک فروخت کرنے کی آواز نہیں لگا رہا تھا- آخر کار میں اس بچے کے
قریب گیا وہ خوش ہوگیا کہ کوئی گاہک آیا ہے اور شائد اس کا کچھ بکری ہو -
میں نے اس سے سوال کیا کہ بیٹا گھر کیوں نہیں جاتے تو اس نے نیند بھری
آنکھوں میں کہا کہ میری والدہ کہتی ہیں کہ رات ساڑھے دس بجے سے قبل گھر
نہیں آنا میں نے اس سے دوسرا سوال کیا کہ کیا گھر میں کوئی اور نہیں جو تم
اس عمر میں روزگار کررہے ہو جس پر اس کا جواب تھا کہ ایک چھوٹا بھائی ہے وہ
بھی اسی طرح مزدوری کرتا ہے جب میں نے بچے سے اس کے والد کے بارے میں پوچھا
تو اس کا کہنا تھا کہ میرا والد آنکھوں سے معذور ہے اور وہ کچھ کام نہیں
کرسکتا اسی بناء پر ہم دونوں بھائی کام کرتے ہیں معصوم بچے نے بتایا کہ صبح
سات بجے سے ایک بجے تک وہ گھروں سے کباڑ و کچرا چن کر جمع کرتا ہے اور پھر
اسے بیچ دیتا ہے جس میں اسے تیس سے چالیس روپے بچ جاتے ہیں اور پھرپلاسٹک
کے کارڈ رکھ کر فروخت کرنے کی کوشش کرتا ہوں جس سے روزانہ چالیس روپے بچ
جاتے ہیں اور یوں وہ ستر روپے گھرمیں اپنی والدہ کو دیتا ہے اتنی ہی رقم
چھوٹا بھائی بھی جمع کرتا ہے جس سے ہمارے گھر کا خرچہ پورا ہوتا ہے- اس
معصوم بچے سے جب میں نے سوال کیا کہ بیٹا کھانا کب کھاتے ہو تو وہ کہنے لگا
کہ صرف رات کا کھانا کھاتا ہوں کیونکہ دوپہر میں کھانے پر بیس روپے لگتے
ہیں اور اگر دوپہر کو بھی میں کھانا کھائوں تو پھر چالیس روپے خرچ ہوتے ہیں
-کیونکہ پھر گھر میں والدہ کو کم پیسے ملتے ہیں جس سے ہمارا گزارا نہیں
ہوتا-
اس معصوم سے جب میں نے سکول جانے کا پوچھا تو اس نے بتایا کہ میں مدرسے میں
صبح پڑھتا ہوں سکول پڑھنے کی خواہش ہے لیکن کہاں سے پڑھوں اور اگر پڑھوں گا
تو میرے گھر کے اخراجات کون پورے کرے گا-حسن نامی اس بچے کے بقول ہم افغان
مہاجر ہیں اس لئے ہماری کوئی مدد بھی کرنے کو تیار نہیں- اس بچے کے اس جواب
نے میرے دل میں نشتر چبھو دئیے اور میں منتشر ذہن ہو کررہ گیا-اور سخت ذہنی
تنائو میں مبتلا ہو کر اس بچے سے روانہ ہوگیا-
گھر میں اس بچے کی باتیں میرے ذہن میں گونج رہی تھی اور میں اپنے بچوں کو
دیکھ رہا تھا کہ اگر یہ میرا اپنا بیٹا ہوتا تو کیا ہوتا اور میں جلدی سے
سوچ کے دھارے کو تبدیل کرنے کی کوشش کی کہ میرا بیٹا ایسے کیسے ہوسکتا ہے
کہ میں اندھا تو نہیں میں مہاجر تو نہیں لیکن جتنا میں اس سوچ کو دبانے کی
کوشش کرتا اتنی ہی تیزی سے جواب آتے کہ جس نے تمھیں آنکھیں دی ہیں تم اپنے
ملک میں رہ رہے ہو لیکن حالات اور کل کا کوئی اندازہ نہیں-
حسن جیسے معصوم ہزاروں اس معاشرے میں ہر جگہ موجود ہیںاور ہمارے ارد گرد
اپنے معصوم ہاتھوں سے کام کررہے ہیں لیکن کوئی بھی ان کی طرف توجہ دینے کو
تیار نہیں حکومت سے گلہ تو تب کیا جائے جب ہم اپنے فرائض پورے کررہے ہوں -
کیا ہم اپنے بچوں پر ہزاروں روپے خرچ نہیں کرتے اگر حسن جیسے بچوں پر ہم
سینکڑوں خرچ کرے تو کیا تبدیلی نہیں آسکتی -یہ وہ سوال ہے جو مجھ سمیت اس
معاشرے میں رہنے والے ہر شہری کو اپنے آپ سے کرنے کی ضرورت ہے -
|
|