تحریک انصاف اورعوامی تحریک کے
دھرنوں کا چالیسواں ہو چکا ہے مگر وزیر اعظم پھر بھی استعفیٰ دینے کو تیار
نہیں،پارلیمنٹ میں موجود سیاسی جماعتوں نے دھاندلی کے الزامات کے
باوجودوزیراعظم کا سا تھ دیا ۔حکومت سے جب دھرنے والوں کے مذاکرات ناکام
ہوئے تو حکومت نے اپوزیشن جماعتوں کی قیادت پر مشتمل ایک سیاسی جرگہ تشکیل
دیا جس نے حکومت اور دھرنے والوں کے مابین مذاکرات کروانے تھے اور دھرنوں
کو ختم کرنے کی کوشش کرنی تھی۔سیاسی جرگے کے اراکین نے تحریک انصاف،عوامی
تحریک کے قائدین سے مذاکرات کے بعد حکومت سے بھی بات چیت کی اوراس کے
بعدسیاسی جرگے نے مسئلے کے حل کیلئے وزیراعظم نوازشریف،عمران خان
اورطاہرالقادری کوچار صفحات پر مشتمل خط لکھا دیا جس میں 11 نکات شامل
ہیں،جرگہ نے وزیراعظم سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ بیان دیں کہ دھاندلی ثابت
ہوجائے توعہدے سے استعفیٰ دے دیں گے، وزیراعظم واضح کرچکے کہ جوڈیشل کمیشن
منظم دھاندلی کاتعین کرتاہے تو وہ استعفیٰ دے دیں گے، خط میں کہا گیا ہے کہ
جوڈیشل کمیشن کواختیارہوگاکہ پولیس سٹیشن کوفوجداری کیس رجسٹرکرنے کی ہدایت
جاری کرے، آرڈیننس کے تحت جوڈیشنل کمیشن تشکیل دیاجائیگا، فوجداری کیس کے
معاملے کومزیدتحقیقات کیلئے سیشن جج کوبھیجا جاسکے گا، جوڈیشل کمیشن کی
سفارشات پروفاقی،صوبائی حکومتیں اوردیگرپارٹیاں عملدرآمدکی پابند ہونگی،
جوڈیشل کمیشن معاونت کیلئے وفاقی یا صوبائی حکومت کے پولیس افسرکی خدمات
حاصل کرسکے گا، جوڈیشل کمیشن معاونت کیلئے کنسلٹنٹ کی معاونت بھی حاصل
کرسکے گا۔ کمیشن غیرملکی ماہرین کی خدمات بھی حاصل کر سکے گا، جوڈیشل کمیشن
کوریکارڈکوخفیہ رکھنے اورآگے لانیکا اختیاربھی ہوگا، حکومت تحریک انصاف کے
دیگرمطالبات کے حل کیلئے تجاویزکوحتمی شکل دے، عوامی تحریک کے کارکنوں
کیخلاف درج مقدمات کسی دیگرصوبے میں منتقل کئے جائیں۔ سیاسی جرگے نے تجویز
دی کہ تحریک انصاف کے کارکنوں کوفوری طور پر رہا کیا جائے۔ سیاسی جرگے نے
وفاقی حکومت ،تحریک انصاف اور عوامی تحریک کے درمیان مفاہمت کرانے کے لیے
آخری کوششوں کا ٓغاز کردیا ہے۔سیاسی جرگے نے وزیراعظم نوازشریف کی عمران
خان اور طاہر القادری سے براہ راست ملاقات کے لئے دونوں جماعتوں کو پیغام
بھیجتے ہوئے کہا ہے کہ اگر پی ٹی آئی اورعوامی تحریک حتمی مذاکراتی ڈرافٹ
تیارکرانا چاہتے ہیں تواس کے لئے ضروری ہے کہ تینوں فریقین کی اعلیٰ قیادت
بیک وقت یا الگ الگ ملاقات کرے تاکہ معاملے کومنطقی انجام تک پہنچایا
جاسکے۔ نوازشریف خودمسئلے کے حل کے لئے دونوں جماعتوں کے سربراہان سے
ملاقات کے لئے تیار ہیں،اس پیغام کے بعد تحریک انصاف اور عوامی تحریک کی
قیادت میں اعلیٰ سطح پر مشاورت شروع ہوگئی ہے اور سیاسی جرگے کو کہا گیاہے
کہ جلد جواب دیا جائے گا، حکومت کی اعلیٰ قیادت کوئی اہم فیصلہ کرنے سے قبل
مقتدر قوتوں سے بھی مشاورت کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔اپوزیشن جرگے کی سفارشات
پارلیمانی سربراہوں، پی ٹی آئی اور عوامی تحریک کو پوری طرح مطمئن نہ کر
سکیں۔ معاملات تعطل کا شکار ہوگئے جس کے بعد براہ راست دھرنوں کی قیادت سے
مذاکرات کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اپوزیشن جرگے کی جانب سے 11 نکاتی سفارشات پر
حکومتی حلیف اور اپوزیشن جماعتوں کے پارلیمانی سربراہوں نے تفصیلی غور کیا
لیکن اس پر اکثر پارلیمانی سربراہوں کو تحفظات تھے اور مکمل اتفاق رائے نہ
ہوسکا جس پر یہ کہا گیا ہے کہ جب تک اتفاق رائے نہیں ہوتا کسی ڈرافٹ کو
حتمی شکل نہیں دی جاسکتی۔ فارمولے پر مزید غور کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے۔
یہ بھی کہا گیا ہے کہ اب مذاکراتی کمیٹیوں کے بجائے جرگہ براہ راست ڈاکٹر
طاہر القادری اور عمران خان سے مذاکرات کرے تاکہ کسی نتیجے پر پہنچا جاسکے
کیونکہ حتمی ڈرافٹ وہی ہو گا جس پر طرفین کی قیادت دستخط کریگی جبکہ اس
سلسلے میں حکومت بھی لچک کا مظاہرہ کرے اور دونوں جماعتوں کے جو کارکنان
گرفتار ہیں انہیں جذبہ خیر سگالی کے طور پر رہا کیا جائے۔ پاکستان عوامی
تحریک اور تحریک انصاف بھی اپوزیشن جرگے کی 11 نکاتی سفارشات پر مکمل اتفاق
نہیں کر رہیں جس کے باعث معاملات ایک مرتبہ پھر تعطل کا شکار ہوگئے ہیں۔
جماعت اسلامی نے بھی موجودہ ملکی و سیاسی بحران کے حل کے لیے باضابطہ مزید
تجاویز پیش کردی ہیں جن میں بتایا گیا ہے تحریک انصاف اور حکومت دھاندلی کی
تعریف کے علاوہ دیگر پانچ نکات پر متفق ہوگئی ہیں اور مطالبہ کیا گیا ہے کہ
تحریک انصاف و عوامی تحریک کے خلاف درج تمام مقدمات خارج کئے جائیں۔ نگران
حکومت اور الیکشن کمیشن کے کردار کو جوڈیشل کمیشن دیکھے ، ایسی سازش دیکھی
جائے جس سے مسلم لیگ ن کو سیاسی فائدہ پہنچا، فریقین تحقیقات کے لئے کسی
بھی مناسب ٹائم فریم پر متفق ہوسکتے ہیں اور اسی طرح کی تجاویز دھاندلی کی
تعریف اور جوڈیشل کمیشن سے متعلق بھی دی ہیں۔پاکستان تحریک انصاف کے ناراض
صدر جاوید ہاشمی نے وزیراعظم نواز شریف اور وزیراعلی پنجاب شہباز شریف کو
تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ دونوں بھائی ڈر پوک ہیں اگر معاملات حل
کرنے کی کوشش کی جاتی تو اس نہج کو نہ پہنچتے۔ عمران خان کو بتا دیا تھا کہ
استعفیٰ دینے کی باری آئے گی تو شاہ محمود قریشی نہیں دیں گے، میری اور
عمران خان کی سوچ الگ ہے لیکن شاہ محمود قریشی کی کوئی سوچ نہیں، ہم سیاست
اپنی جان قربان کرنے کے لئے کرتے ہیں، سیاست کے لئے اگر شاہ محمودقریشی کو
ایک ہفتہ جیل میں رہنے کو کہا جائے تو وہ اسے گالی تصور کریں گے۔صدر تحریک
انصاف نے کہا کہ اسلام آباد میں دیئے جانے والے دھرنے پر اب تک ایک ارب
روپے خرچ ہوچکے ہیں اور جب پارٹی سے ناراضگی اختیار کی اس وقت تک 27 کروڑ
روپے خرچ ہوچکے تھے اور یہی نہیں ڈی جے بٹ کا خرچہ ساڑھے 4 کروڑ تک پہنچ
چکا ہے۔ عمران خان اور ڈاکٹر طاہرالقادری کی لندن میں ہونے والی میٹنگ میں
گورنر پنجاب چوہدری سرور نے بھی شرکت کی تھی لیکن اس کی تصدیق نہیں
کرسکتا۔گورنر پنجاب چوہدری محمد سرورنے کہا کہ طاہرالقادری اورعمران خان سے
ملاقات ثابت ہوجائے تو سیاست چھوڑ دوں گا۔ میں نے ہمیشہ اصولوں پر سیاست کی
ہے اور کسی سازش کا کبھی حصہ نہیں بنا، جاوید ہاشمی کے الزامات پردکھ ہوا،
طاہر القادری اورعمران خان سے لندن میں ملاقاتیں نہیں کیں اگر ملاقاتیں
ثابت ہو جائیں توسیاست چھوڑدوں گا ورنہ جاوید ہاشمی معافی مانگیں یا سیاست
چھوڑدیں۔ استعفے کی خبریں محض افواہیں ہیں ان میں کوئی صداقت نہیں، 24
ستمبر کو پاکستان پہنچ کر سیدھا گورنر ہاؤس جاؤں گا۔دھرنوں کے چایس دنوں 14
اگست سے 21 ستمبر تک عوامی تحریک اور تحریک انصاف کے قائدین اور سیکڑوں
کارکنوں کیخلاف اب تک مجموعی طور پر 37 مقدمات درج کیے جاچکے ہیں۔ان مقدمات
میں پی ٹی وی ہیڈ کوارٹرز پر حملہ، پاک سیکریٹریٹ، ایوان صدر، سپریم کورٹ،
پارلیمنٹ ہاؤس کی عمارتوں میں گھسنے اور توڑ پھوڑ کرنے، پولیس اہلکاروں سے
اسلحہ چھیننے، تھانہ سیکریٹریٹ پر دھاوا بولنے، زیر حراست ملزمان کو پولیس
حراست سے چھڑوانے، کار سرکار میں مداخلت کرنے، ایس ایس پی سمیت پولیس پر
تشدد، اغواء کر کے حبس بے جا میں رکھنے اور اسپیشل برانچ کے اے ایس آئی کو
برہنہ کر کے تشدد کرنے سمیت املاک کو نقصان پہنچانے کے الزامات شامل ہیں۔ 3
مقدمات میں انسداد دہشت گردی کی 7 دفعات لگائی گئی ہیں جبکہ ملزمان میں
تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان، شاہ محمود قریشی، عارف علوی، شیخ رشید،
پرویز خٹک ، طاہر القادری، رحیق عباسی وغیرہ شامل ہیں، ان مقدمات میں نامزد
پی ٹی آئی کے اعظم سواتی اور عوامی تحریک کے عمر ریاض کے علاوہ کسی اور
قائد کو گرفتار نہیں کیا گیا تھا، ان کو بھی عدالت نے تھوڑی دیر زیر حراست
رکھنے کے بعد 150 سے زائد دیگر ملزمان سمیت رہا کر دیا تھا۔ تحریک انصاف کے
سربراہ عمران خان نے اعلان کیا ہے کہ حکمرانوں کے استعفے آنے تک تحریک ختم
نہیں ہوگی۔ |