پاکستان میں وسیع پیمانے
پر اس بات پر اتفاق پایا جاتا ہے کہ الیکشن کی ساکھ بہتر بنانے کے لئے
انتخابی اصلاحات ناگزیر ہیں۔نادرا کی ووٹر فہرستوں کی تیاری انتخابی
اصلاحات کا پہلا قدم تھا لیکن ابھی الیکشن میں عوام کی رائے کو مقدم اور
محترم بنانے کے لئے مستقل نوعیت کے کئی اقدامات اٹھانے باقی ہیں۔ دو روز
قبل وفاقی الیکشن کمیشن نے پارلیمانی کمیٹی برائے انتخابی اصلاحات کو اپنی
سفارشات میں تجویز کیا ہے کہ آئندہ عام انتخابات سے قبل ملک میں نئی مردم
شماری بہر صورت کرائی جائے ، پارلیمنٹ کی تحلیل پر نگران حکومت کی مدت 90
روز سے بڑھا کر 120 دن کی جائے ، مخصوص نشستوں کو ارکان کی تعداد کے بجائے
پارٹی کو پڑنے والے ووٹوں کی شرح سے مشروط کیا جائے اور بائیو میٹرک سسٹم
اور الیکٹرانک مشین کے انتخابات میں استعمال کیلئے اور تارکین وطن کو ووٹ
کا حق دینے کیلئے قانون سازی کی جائے۔ پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کی مشترکہ
انتخابی اصلاحاتی کمیٹی نے انتخابی اصلاحات کیلئے الیکشن کمیشن سے بھی
سفارشات مانگی تھیں جو سیکرٹری الیکشن کمیشن نے پارلیمانی کمیٹی کو پیش
کردی ہیں۔ انتخابی اصلاحاتی کمیٹی اپنے آئندہ اجلاسوں میں ان تجاویز کا
جائزہ لے گی۔ آئندہ عام انتخابات سے قبل نئی مردم شماری کو ناگزیر قرار دیا
گیا ہے تاکہ آبادی کے مطابق نئی حلقہ بندیاں اور نئی ووٹر لسٹیں بنا ئی جا
سکیں۔
ملک میں الیکشن کے نظام اور طریقہ کار کو منصفانہ،شفاف اور با اعتماد بنانے
کے لئے الیکشن اصلاحات کو چند شعبوں تک محدود رکھنے کے بجائے وسیع تناظر
میں دیکھا جا نا چاہئے۔الیکشن کے 'پروسیس' کو حکومت،اداروں، انتظامیہ ،گروپوں
اورشخصیات کی مداخلت سے آزاد رکھنے کے لئے آزاد و خود مختار الیکشن کمیشن
کے قیام کی اشد ضروت ہے۔الیکشن کے نظام اور طریقہ کار میں مستقل نوعیت کے
اصلاحاتی عمل کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی اشد ضروری ہے کہ سیاسی جماعتوں میں
جمہوری طریقہ کار کو بھی یقینی بنایا جائے۔ملک میں سیاسی جماعتوں کے نام پر
خاندانی ،شخصی،علاقائی اور فرقہ وارانہ گروپ موجود ہیں۔سیاسی جماعتوں میں
الیکشن ایک کھلے ڈھونگ کی طرح منعقد کئے جاتے ہیں۔سیاسی جماعتوں میں خوشامد
اور ناجائز مفادات کے چلن کے سد باب اور حقیقی سیاسی کارکنوں کی ترویج سے
ہی سیاسی جماعتوں کو ملک و عوام کی نمائندگی کے قابل بنایاجا سکتا
ہے۔الیکشن کے نظام کو منصفانہ اور مفید بنانے کے حوالے سے الیکشن اصلاحات
کے ساتھ ساتھ سیاسی جماعتوں کے طور پر رجسٹرڈ جماعتوں میں مکمل جمہوری
طریقہ کار اور اصولوں کی پاسداری کرانا بھی الیکشن کمیشن کی ذمہ داری
ہے۔اصل مقصد یہی ہے کہ الیکشن میں عوام کی رائے کی مکمل پابندی ممکن ہو سکے
اور الیکشن کی ساکھ کو جمہوری ضابطوں اور اصولوں کے مطابق ڈھالا جا
سکے۔سیاسی جماعتیں ہی ملک و قوم کی تقدیر کے فیصلے کرتی ہیں اس لئے ناگزیر
ہے کہ سیاسی جماعتوں کو خاندانی،شخصی،علاقائی اور فرقہ وارانہ گروپ بننے سے
روکا جائے اور ملک میں حقیقی جمہوری اصول اپناتے اور اس کے تقاضے پورے کرنے
سے ہی اصلی سیاسی جماعتوں کی ترویج کو یقینی بنایا جا سکتا ہے۔
پاکستان میں الیکشن اصلاحات کرنا عوام کی واضح اکثریت کا مطالبہ ہے اور اس
حوالے سے پاکستان میں مختلف نوعیت کے اہم اقدامات بھی اٹھائے جا رہے
ہیں۔دوسری طرف جب ہم آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں انتخابی صورتحال پر
نظر دوڑاتے ہیں تو وہاں کے انتخابی طریقہ کار کو فرسودہ اور ناقابل اعتبار
پاتے ہیں۔وفاقی حکومت کو اس بات کا احساس ہونا چاہئے کہ پاکستان میں تو
گزشتہ دور حکومت میں آئینی ترامیم کے ذریعے جمہوریت کے تقاضوں کو پورا کیا
گیا ہے لیکن آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان اب تک اس آئینی حیثیت اور
اختیارات سے محروم ہیں جو پاکستانی عوام کوآئینی ترامیم کے بعد حاصل ہوئے
ہیں۔آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان انتخابی اصلاحات کے اس پہلے بنیادی اقدام
سے بھی محروم ہیں جو پاکستان کے گزشتہ الیکشن میں نادرا کی کمپیوٹرائیز
ووٹر لسٹوں کی صورت اٹھایا گیا۔ہم نے کئی بار آزاد کشمیر حکومت کی توجہ اس
جانب مبذول کرائی ہے کہ عوام کی رائے کے احترام اور آزاد کشمیر کے الیکشن
کو قابل اعتبار بنانے کے لئے الیکشن اصلاحات کی جائیں اور اس حوالے سے پہلا
قدم آزاد کشمیر میں بھی نادرا کی الیکٹرانک ووٹر فہرستیں تیار کرانا ہے۔
لیکن آزاد کشمیر حکومت ہی کیا اپوزیشن اور آزاد کشمیر کی سول سوسائٹی کی
طرف سے بھی آزاد کشمیر میں الیکشن اصلاحات کی کوئی بات نہیں کی جا رہی ہے
اور نہ ہی اس حوالے سے ان کی طرف سے کوئی دلچسپی ظاہر ہو رہی ہے۔آزاد کشمیر
کے الیکشن کو منصفانہ،شفاف اور قابل اعتبار بنانے کے لئے ناگزیر ہے کہ آزاد
کشمیر میں نادرا کی کمپیوٹرائیز ووٹر فہرستیں تیار کرائی جائیں۔
آزاد کشمیر الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے کہ وہ ووٹر فہرستیں بنانے کے
فرسودہ طریقہ کار کو ترک کر کے نادرا کے ذریعے کمپیوٹرائیز ووٹر فہرستیں
تیار کرائے اور آزاد کشمیر حکومت کی بھی ذمہ داری ہے کہ اس کے لئے الیکشن
کمیشن کو ضروری وسائل فراہم کئے جائیں۔اس وقت اگر اس کے لئے فوری اقدامات
نہ اٹھائے گئے تو آزاد کشمیر کے آئندہ الیکشن بھی فرسودہ اور ناقابل اعتبار
ووٹر فہرستوں پر ہی منعقد ہوں گے۔اس کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ پاکستان کی
طرح آزاد کشمیر میں بھی الیکشن سے قبل عبوری حکومت کے قیام کے لئے ضروری
قانون سازی کی جائے۔ایسے امور کو مخاطب کرنا ناگزیر ہے جس سے آزاد کشمیر کے
مختلف حلقوں کی عوامی رائے کو راتوں رات تبدیل کر دیا جاتا ہے۔اسی طرح
مہاجرین جموں و کشمیر مقیم پاکستان کی ووٹر فہرستیں بھی سراسر ناقابل
اعتبار ہیں اور اس حوالے سے کشمیریوں میں عرصہ دراز سے تشویش پائی جاتی
ہے۔آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں الیکشن کا فرسودہ نظام قائم رکھنے سے
متنازعہ ریاست جموں و کشمیر میں رائے شماری کرانے کے مطالبے کی نیت بھی
مشکوک قرار پاتی ہے۔انہی دنوں سکاٹ لینڈ میں بدستور برطانیہ کے ساتھ رہنے
یا علیحدگی کے سوال پر ریفرنڈم ہوا جس میں برطانیہ کے ساتھ رہنے والوں نے
54فیصد اور علیحدگی پسندوں نے 46فیصد ووٹ حاصل کئے۔اتنے کم فرق کے باوجود
کسی طرف سے بھی اس ریفرنڈم کی ساکھ پر کوئی الزام نہیں لگایا گیا۔لیکن اس
کے برعکس آزاد کشمیر کے الیکشن کو ایک '' tool ''( اوزار) کی طرح استعمال
کرتے ہوئے کسی گروپ کے لئے اقتدار '' انجوائے'' کرنے کے فیصلے کر دیئے جاتے
ہیں۔# |