کراچی عالمی سازشوں کی زد میں

پاکستانی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھنے والا شہر کراچی اسوقت عالمی سازشوں کا مرکز بن چکا اسکی آبادی اڑاھائی کروڑ ہے اور یہ شہر 70 فیصد ریونیو دینے والا اہم ترین شہر ہے جو ساحل سمندر پر واقع ہے یہاں پر تقریبا ہر رنگ و نسل ،زبان کے لوگ آباد ہیں گنجان آباد ہونے کی وجہ سے ہر کوئی اپنی اپنی سرگرمیوں میں مصروف رہتا ہے لوگوں کو ایک دوسرے سے کم ہی سرو کار ہوتا ہے سیاسی اعتبار سے یہاں کے لوگ ہمیشہ بیدار ثابت ہوئے ہیں بڑے بڑے تاریخی جلسے،جلوس اس شہر کی پہچان ہیں یہاں کے لوگ کام کاج کے ساتھ سیاسی سرگرمیوں کو سختی سے اپنائے ہوئے ہیں یہاں مذہبی اعتبار سے بھی کافی اثرورسوخ ہے مذہبی قائدین کا۔۔۔مذہبی جماعتوں کے مراکز بھی یہاں پر ہیں ان میں تناؤ بھی اکثر دیکھنے میں آیا ہے ہر مذہبی، سیاسی جماعت کے ہولڈ یافتہ علاقوں میں مخالف جماعت کے لوگ جانے سے گھبراتے ہیں ،شہر کراچی جسے روشنیوں کا شہر کہاجاتا تھا آج غیروں کی مکروہ سازشوں،اپنوں کی حماقتوں کی وجہ سے خاک وخون میں لت پت ہے یہاں پر ہر روز کم از کم ایک درجن لوگوں کو بے گناہ قتل کیا جاتا ہے اس شہر کی روشنی کو غل کرنے کے لئے کفر نے ایسے گروپ تشکیل دئیے ہیں جن کے ہاتھ بہت لمبے،حکمرانوں کی سوچوں سے بھی لمبے دیکھائی دیتے ہیں اہل ایمان کے ہاتھوں اہل ایمان کا خون دنیاوی اغراض و مقاصد کے لئے ہو رہا ہے کراچی کا امن خواب بنتا جا رہا ہے ٹارگٹ کلنگ کا بازار گرم ہے کوئی ان انسانیت دشمنوں کا ہاتھ روکنے کے لئے تیا ر نہیں اسی کراچی میں تاجر،دینی ،سیاسی،فکری،علمی شخصیات سمیت سارا کراچی غیر محفوظ ہو گیا ہے(ویسے تو سارا پاکستان ہی ٖغیرمحفوظ ہے ) ماضی میں بھی یہاں پر ملک کی اہم شخصیات کا قتل عام ہوا کسی کا پتہ نہ چل سکا حالیہ حملوں میں مولانا مسعود بیگ داماد مفتی نعیم صاحب ،ڈاکٹر پروفیسر حافظ محمد شکیل اوج کا قتل دو عالموں کا قتل ہی نہیں بلکہ علم کا قتل ہے یہ حملہ تعلیم پر حملہ ہے یہ دونوں شخصیات کا تعلق جامعہ کراچی کے شعبہ علوم اسلامیہ سے تھا اس سے قبل شیعہ دین و مذہب کے رہنماء کا قتل بھی ہواسماج دشمن قاتل عناصر معاشرے سے علم کوبھی رخصت کردینا چاہتے ہیں کراچی میں خوف کے سائے چھائے ہوئے ہیں یہ وارداتیں کرنے والے کون ہیں ؟؟؟ یہ سوال ہر طبقہ فکر کے لوگوں نے اٹھایا ارباب اقتدار تسلی بخش جواب نہ دے پائے لیکن تفتیش سے جو حقائق سامنے آئے ان کے مطابق ان سب کاروئیوں کا سرغنہ ایک ہی ہے کیونکہ طریقہ واردات اور آلہ قتل ایک ہی ہے جس کا مطلب ہے کہ ان وارداتوں کو ماسٹر مائنڈ ایک ہی گروہ ہے اسکے کارندے دھندناتے شہر کراچی کو قتل گاہ میں تبدیل کرچکے ہیں بعض مبصرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ ان وارداتوں کے پیچھے کراچی کے خاص چند ایک سیاست دانوں کا ہاتھ ہے ،مذہبی بنیاد پر بھی مذہبی طاقتیں کراچی کو یرغمال بنائے ہوئے ہیں ،طالبان عناصر کی موجودگی کی بات بھی میڈیا میں ہورہی ہے یہ مسلح غیر اعلانیہ پرائیویٹ آرمی ہے جو اپنے آقاؤں کے لئے شب وروز سرگرم عمل ہے شہر قائد میں تاجروں کی طرف سے بھتہ نہ دینے پر ان کا قتل عام جاری ہے یہ بھتہ گروپ کون ہیں ؟ انجام سے بچنے کیلئے سب جاننے کے باوجود زبان کھولنے کی جسارت نہیں کرتے ،کراچی کے لوگ اسے اب روٹین لائف سمجھ چکے ہیں درحقیقیت یہ حملہ پاکستان کی معیشت پر حملہ ہے جسکا تدارک وقت کا تقاضہ ہے مذہب اور مسلک کی بنیاد پر اختلافات کی بنیاد پر قتل وغارت گری کی وجہ سے یہاں کافی تناؤ ابھی بھی موجود ہے ان تمام وارداتوں کا اصل محرک کب قوم کے سامنے آئے گا ؟ قوم اسکا شدت سے انتظار کر رہی ہے یہ ذمہ داری سیکورٹی اداروں کی ہے پاک فوج کو اس پر ایکشن لینے کی اشد ضرورت ہے پاک فوج کا آپریشن ان جرائم پیشہ افراد کے خاتمے میں کلیدی کردار ادا کرسکتا ہے محرم سے قبل دین اور مذہب کی بنیاد پر حملے خطرے کی گھنٹی ہیں حکومت کو قبل از وقت مذہبی عبادات،جلسے،جلوس عبادت گاہوں تک محدود کرنے پر سنجیدگی سے غور کرنا ہوگا کہیں ایسا نہ ہو کہ حکومتی سست روی ملک میں کوئی اور سانحہ راولپنڈی جنم دے دے جسکی قوم متحمل نہیں،قارئین کرام کراچی میں امن دوبارہ قائم کرنا ایک چیلنج بن چکا،دیکھتے ہیں کون اسے سر کرتا ہے ۔
Ghulam Abbas Siddiqui
About the Author: Ghulam Abbas Siddiqui Read More Articles by Ghulam Abbas Siddiqui: 264 Articles with 245692 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.