مشکلات میں گھری جمہوریت
(Prof Riffat Mazhar, Lahore)
پروفیسرمظہر۔۔۔۔۔سرگوشیاں
دھرنوں کاچہلم ہوچکا۔’’رہنما‘‘مگر کسی موہوم اُمیدکے سہارے اب بھی دھرنوں
کی سڑی بُسی متعفن لاشیں کندھوں پہ اُٹھائے پھررہے ہیں۔دراصل دھرنے والوں
کو تویقین دلا دیاگیاتھاکہ اُن کے آزادی،انقلاب مارچ کے گوجرانوالہ پہنچنے
سے پہلے ہی میاں برادران کی سیاسی بساط لپیٹ دی جائے گی اوروہ سمجھ بیٹھے
تھے کہ موسمِ گُل قریب آلگااورشاخِ اُمیدپھل پھول لانے کوہے لیکن پارلیمنٹ
کی جانب سے ایسی بادِسموم چلی کہ اُن کی اُمیدوں کا چمن اُجڑکے رہ گیا۔آس
یاس میں ڈھل گئی اوراُن کی کتابِ سیاست کے اوراق پرسوائے نااُمیدیوں کی آڑی
ترچھی لکیروں کے کچھ باقی نہ بچا۔ اب وہ بزبانِ شاعرکہتے پھرتے ہیں کہ
بے معنی،بے کیف ہوئی ہے آنکھ مچولی تاروں کی
نکلاچاندبھی گہنایاہے سازش سے اندھیاروں کی
میں یہ تونہیں کہتاکہ’’اِس طرح توہوتاہے ،اِس طرح کے کاموں میں‘‘لیکن یہ
ضرورکہ انا،ضد،نرگسیت اورلفظوں کی زہرناکی کا یہی انجام ہوتا ہے جوکپتان
صاحب کاہوا اورہورہاہے۔خاں صاحب یہ توضرورجانتے ہونگے کہ قوم نے اُن کی
پکارپرمحض اِس لیے لبیک کہاکہ نوابوں،وڈیروں،جاگیرداروں،صنعتکاروں
اورسرمایہ داروں کے ذاتی مفادات کے گردگھومتی’’پاکستانی جمہوریت‘‘سے لوگ بے
زارہوچکے تھے۔وہ ایسی جمہوریت چاہتے تھے جو مطلق العنانی کوجَڑسے
اکھاڑکر’’جمہور‘‘کی حکمرانی قائم کرسکے۔وہ ایسی متعفن جمہوریت نہیں چاہتے
تھے جواشرافیہ کے گھرکی باندی اوردَرکی لونڈی بن کے رہے۔جب خاں صاحب نے
اُنہیں ایسی ہی جمہوریت کے سندرسپنے دکھائے توقوم ،خصوصاََنوجوانوں نے
اُنہیں یک لخت آسمان کی رفعتوں تک پہنچادیا۔اُن دنوں خاں صاحب کے شدیدترین
مخالف تجزیہ کاروں کے قلم بھی اُن کے خلاف کچھ لکھنے سے پہلے تھرتھرانے
لگتے تھے ۔تب واقعی قوم یہ سمجھنے لگی تھی کہ اُسے بالآخرایک ایسا رہنمامل
گیاجواُن کے دُکھ سُکھ کاساجھی ہوگا۔ لیکن عمران خاں کی مقبولیت کایہ گراف
الیکشن سے بھی پہلے اُس وقت دَم توڑگیاجب تحریکِ انصاف میں وہی لوٹے،لُٹیرے
اوردیمک زدہ چہرے دھڑادھڑشامل ہونے لگے جن پر نگاہ پڑتے ہی’’اُبکائیاں‘‘آنے
لگتی ہیں۔تب ہرطرف سے صدائیں بلندہونے لگیں کہ ’’یہ بازومیرے آزمائے ہوئے
ہیں‘‘۔پھر2013ء کے انتخابات ہوئے۔نتیجہ تجزیہ نگاروں کے عمومی تجزیوں
اوربین الاقوامی سرویزکے عین مطابق آیا۔خاں صاحب نے میاں صاحب کوکامیابی
پرمبارک باددی اورمیاں صاحب نے شدیدترین مخالفت کے باوجودخیبرپختونخواکی
حکومت تحریکِ انصاف کاحق قراردے دیا۔تب قوم شادماں کہ جمہوریت پٹری پرچڑھ
گئی۔
لیکن خاں صاحب کے مدح سراتواُنہیں الیکشن سے بہت پہلے یقین دلاچکے تھے کہ
وہ دوتہائی اکثریت سے کامیاب ہونگے اِس لیے کپتان صاحب یہ شکست ہضم نہ
کرپائے۔خاں صاحب کی اسی بے چینی نے اُنہیں اُس’’سازش‘‘کااسیربنادیاجس کے
تانے بانے لندن میں بنے گئے اوروہ ایسی تاریک راہوں پہ چل نکلے جن کی کوئی
منزل نہیں ہوتی۔لندن میں ہونے والی عمران قادری ملاقات کوسابق چیف آف آرمی
سٹاف جنرل اسلم بیگ ایسی عالمی سازش قراردیتے ہیں جس میں امریکہ،برطانیہ
اورکینیڈاشامل تھے۔وہ کہتے ہیں’’سازش کرنے والے چاہتے تھے کہ فوج مداخلت
کرکے اقتدار پر قبضہ کرلے ۔عمران خاں اورطاہرالقادری کوسازش پرعمل کے صلے
میں اقتدارکالالچ دیاگیالیکن جنرل راحیل شریف نے تمام سازش ناکام
بنادی‘‘۔جنرل(ر)اسلم بیگ نے یہ بھی کہاکہ عسکری قیادت کواِس سازش کاپہلے سے
علم تھا۔اگرجنرل راحیل شریف فیصلہ کرنے میں دیرکرتے توملک کابڑانقصان
ہوتا۔اُنہوں نے کہا’’ امریکہ خطے میں اپنی شکست کاانتقام پاکستان میں
انتشارپھیلاکرلیناچاہتاہے‘‘۔جنرل صاحب کی باتوں پراِس لیے بھی یقین کرنے
کوجی چاہتاہے کہ ایک توتحریکِ انصاف کے صدرجاویدہاشمی پہلے ہی اِس سازش کے
بارے میں بہت سے انکشافات کرچکے ہیں اوردوسرے عمران خاں صاحب اگرامریکی
پالیسیوں کے اتنے ہی مخالف ہیں توشاہ محمودقریشی کیوں باربارامریکی سفیرسے
خفیہ ملاقاتیں کرتے رہتے ہیں۔یہ سازش کوئی ایسی خفیہ بھی نہیں تھی کیونکہ
اِس کاوزیراعظم صاحب کوبھی بہت پہلے علم ہوچکاتھااورشنیدہے کہ اُنہوں نے
مکمل ثبوتوں کے ساتھ آرمی چیف کواِس سے آگاہ بھی کردیاتھا۔
یہ مانے بناکوئی چارہ بھی نہیں کہ خاں صاحب اورقادری صاحب کوواقعی یقین
دلادیاگیاتھاکہ فوج کے مضبوط ہاتھ اُن کی پشت پرہیں اور’’اقتدار‘‘اُن کا
منتظر۔ہونگے’’کچھ‘‘اپنی خواہشوں کے اسیرریٹائرڈجرنیل اورشیخ رشید،چودھری
برادران جیسے ناکام سیاستدان جنہوں نے خاں صاحب اورعلامہ قادری کویہ یقین
دہانی کرائی لیکن وہ جنرل راحیل شریف کی جمہوریت نوازی کوشکست نہ دے سکے۔جب
آئی ایس پی آرکی طرف سے بارباریہ کہاجانے لگاکہ فوج سیاسی معاملات میں
ہرگزمداخلت نہیں کرے گی تو خاں صاحب نے بھی امپائرکی انگلی اُٹھنے کاتذکرہ
چھوڑکریہ کہناشروع کردیاکہ عدلیہ سے کوئی اُمیدہے نہ فوج سے،جوکچھ کرناہے
عوام نے ہی کرناہے۔آسکروائلڈنے کہا’’کس قدرافسوس ناک بات ہے کہ زندگی کے
سبق ہمیں اُس وقت ملتے ہیں جب وہ ہمارے لیے بیکارہوجاتے ہیں‘‘۔خاں صاحب
کوبھی اُس وقت پتہ چلا’’جب چڑیاں چُگ گئیں کھیت‘‘۔جب وہ بہت کچھ گنواچکے
اوردھرنا’’دھرنی‘‘میں بدل گیاتب افسوس ،ندامت اورشکست کے شدیداحساس نے
بوکھلائے ہوئے خاں صاحب کوایساضدی شخص بنادیاجس نے’’ غیرپارلیمانی‘‘ زبان
کی انتہا کردی۔ اُدھر میاں برادران نے بزدلی کے طعنے سہہ لیے لیکن
صبرکادامن ہاتھ سے نہ چھوڑااورمذاکرات پرزوردیتے ہوئے خاں صاحب کویہی پیغام
بھیجتے رہے کہ
بجاکہ ایک تُندخوہوتُم ہزاروں میں
ملاہے ظرف ہمیں بھی سمندروں جیسا
میاں برادران ایسے کبھی نہ تھے لیکن شایدوہ جلاوطنی کی بھٹی میں تَپ
کرکُندن بن چکے ہوں۔اگرایساہے تویہ قوم کی خوش نصیبی ہے لیکن اگروہ یہ سب
کچھ وقتی مصلحت کے تحت کررہے ہیں توپھرجمہوریت کااﷲ ہی حافظ ہے۔ |
|