صاحبو! سعادت حسین منٹو کا نام
کسی تعارف کا محتاج نہیں جنہوں نے ادب میں اپنا نام پیدا کیا۔ منٹو کے
افسانوں میں سماجی مسائل کے علاوہ ہندوستان میں پیش مسلمانوں کوجن مسائل
اور تکالیف کا سامنا تھا تمام واقعات کو نہایت خوبصورتی سے بیان کیا گیا ہے
۔منٹو نے افسانوں سے اردو ادب میں تہلکہ مچا دیا ۔مشہور افسانوں میں ایک
افسانہ ’’نیا قانون‘‘ بیحد مقبول ہوا۔ تقسیم ہند سے قبل مسلمانوں کو بے
پناہ تکالیف برداشت کرنا پڑی اور انھوں نے آزادی کیلئے کسی بھی قربانی دینے
سے گریز نہ کیا۔
افسانہ ’’نیاقانون‘‘ میں بھی مسلمانوں کی آزادی کیلئے بے قراری اور تبدیلی
کی خوائش کی ترجمانی کی گئی ہے ایک صدی پہلے لکھا گیا نیا قانون آج بھی
موجودہ حالات سے مطابقت رکھتا ہے۔ افسانے کا قصہ مختصر تحریر کیا جاتا ہے۔
منگو کوچوان ایک ان پڑھ مگر اپنی سواریوں سے معلومات حاصل کرکے ایک باخبر
شخص تھا۔ شام کو اپنے اڈے پر دن بھر کی معلومات اپنے ساتھیوں کو سناتا اور
داد وصول کیا کرتا۔ اس دور میں مسلمان انگریزوں اور ہندؤں کی غلامی برداشت
کرنے پر مجبور تھے اور ایڑیاں اٹھا اٹھا کر دیکھتے کہ کب وہ وقت آئیگا جب
انھیں غلامی اور تکلیفوں سے آزادی ملے گی اور وہ اپنے ملک میں آزادی کی فضا
میں سانس لے سکیں گے خیر وقت گزرتا گیا ۔ منگو کوچوان روز خبریں اپنے
ساتھیوں کو سناتا رہا اسے انگریزوں سے سخت نفرت تھی جس کی ایک وجہ یہ تھی
کہ انگریز بلاوجہ اسے آتے جاتے ستایا کرتے تھے ایک صبح اس نے اپنے تانگے پر
دو سواریاں بٹھائیں جو کہ آپس مین بیٹھے کسی جدید آئین کے متعلق بات کر رہے
تھے۔ گفتگو سے ظاہر ہوا کہ یکم اپریل سے ہندوستان میں کوئی نیان قانون نافذ
ہونیوالا ہے تبدیلی کا نام سنتے ہی اس کی خوشی کی انتہا نہ رہی دو چارروز
بعد کچھ طلباء تانگے میں سوار ہوئے اور وہ بھی خوشی سے نیاقانون کی بات
کرنے لگے ۔ انھیں خوشی تھی کہ نیاقانون انھیں انصاف دلائے گا انھیں سرکاری
ملازمت ملے گی منگو کو اب یقین ہو چلا تھا کہ اس خبر میں صداقت تھی۔ خوشی
خوشی وہ اپنے ساتھیوں کو اس بڑی تبدیلی کے متعلق بتانے لگا۔ آخرکار یکم
اپریل آہی گئی جس کا منگو کو بے صبری سے انتظار تھا وہ صبح صبح تانگے پر
سوار ہوا بازار کا رخ کیا مگر اسے کچھ تبدیلی نہ محسوس ہوئی وہ چھاؤنی
پہنچا تاکہ کوئی سواری مل سے ۔ سواری تو نہ ملی ایک انگریز ضرور مل گیا۔ اس
نے منگو سے سخت لہجے میں بات کرنا اور اسے تنگ کرنا شروع کر دیا منگو کو
غصہ آیا اور سار اغبار نکال دیا کہ آج یکم اپریل ہے نیاقانون لگے گا تم
لوگوں کا راج ختم مگر آج بھی تم اکڑ دکھا رہے ہو دونوں میں ہاتھا پائی ہوئی
پولیس آئی پولیس منگو کو پکڑ کر جیل لے گئی منگو چلاتا رہا کہ نیا قانون
نیا قانون پولیس نے مارا بھی اور کہا کہ کیا بکواس کرتے ہو کوئی نیاقانون
نہیں ہے قانون وہی ہے پرانا اور منگو کو جیل میں بند کر دیا گیا۔
اب آتے ہیں عمران خان کے نئے پاکستان کی طرف ۔۔۔صاحبو منٹو اور عمران خان
کے نئے پاکستان میں زیادہ فرق نہیں ہے ۔فرق ہے تو بس اتنا کہ منٹو نے
نیاقانون ہندوستان میں موجود مسلمانوں کی آزادی کی خاطر لکھا۔ مگر عمران
خان کا یہ نیا پاکستان اس غریب طبقہ کو غلامی کی طوق سے باہر نکالنے کے لیے
بن رہا ہے جو بادشاہوں کے چنگل میں پھنسے ہیں موجود ہ ملکی حالات نے زندگی
اور ذہنوں کو مفلوج کر دیا ہے ۔ آج کے دور کی عوام پڑھی لکھی اور باشعور
ہے۔ آج کی عوام جاگ چکی ہے کہ انکے حقوق کیا ہیں ۔ انھیں اب اس بادشاہت کی
غلامی سے آزادی کیسے ملے گی ۔ اس آزادی کی تلاش میں عمران خان کی قیادت میں
یہ غلام عوام آزادی مارچ کی صورت میں گھروں سے نکل آئے وہ حکومت سے چھٹکارا
حاصل کرنا چاہتے ہیں وہ صیح معنوں میں جمہوری نظام چاہتے ہیں وہ اپنی محنت
کا صلہ چاہتے ہیں وہ روٹی ، کپڑا، مکان اور عزت چاہتے ہیں۔وہ کرپشن سے پاک
حکومت چاہتے ہیں ۔ وہ اقتدار کی منصفانہ تقسیم چاہتے ہیں ، گویا وہ اپنے
حقوق جان چکے ہیں اور اب انصاف مانگنے کے لیے نکل کھڑے ہوئے ہیں وہ اپنے
ملک میں بادشاہت کا خاتمہ چاہتے ہیں۔ ایسی بادشاہت جو عوام کا پیسہ کھانے
مگر اقتدار کی تقسیم اپنے ہی خاندان میں کراوئے جب جی چاہے قتل عام کروائے
جب جی چاہے ایف آئی آر کٹوائے ۔ یہ مسلمان، یہ غریب عوام اپنے بچوں کے
مستبقل کے لیے مہینے بھر سے اسلام آباد میں دھرنا دیے بیٹھے ہیں اور مطالبے
کر رہے ہیں کہ ان کو وزیراعظم کی بادشاہت سے آزادی چاہیے انھوں نئے
انتخابات چاہیے تاکہ کوئی اور دل رکھنے والا انسان آئے اور ان کے درد کو
سمجھے۔کرپشن ختم کرے ، انسانی حقوق موجود ہیں۔ عمران خان عظیم لیڈر ، عظیم
مقصد لیکر عوام کیساتھ کھڑے ہیں ۔گرمی ، دھوپ ، بارش سب برداشت کیا صرف
تبدیلی اور نیا پاکستان کیلیے مگر نام نہاد جمہوری حکومت نے عوام سے احتجاج
کا جمہوری حق چھینتے ہوئے ان کیخلاف طاقت کا استعمال کیا۔ معصوم بچوں ،
عورتوں پر لاٹھی چارج کروایا ۔آنسو گیس کی شیلنگ کی ۔بچے عورتیں زخمی ہوئیں
مگر حکومت کو ترس نہ آیا بس اپنی کرسی کی حفاظت کے لیے عوام کو نقصان
پہنچایا گیا۔
منٹو کا نیا قانون میں ظاہر کیا گیا کہ ہندو مسلم کا قتل عام کرتے تھے مگر
موجودہ حالات میں جمہوریت میں مسلمان ہی مسلمان کے خون کا پیاسا ہو چکا ہے۔
اسی خون کو بچانے کے لیے عمران خان نے نیا پاکستان تشکیل دینے کا عزم کیا
ہے۔ عمران خان کے عزم سے پاکستان کی عوام اپنے حقوق سے شناسا ہوئی مگر
بادشاہت اس عزم کو دہشت گردی ، یہودی ایجنٹ کے نام سے منسوب کرکے جڑ سے
اکھاڑ نا چاہتے ہیں ۔ لیکن اب بہت دیر ہو چکی ہے ۔ عوام باشعور ہو چکی ہے۔
منٹو کے دور میں مسلمان زیادہ پڑھے لکھے نہیں تھے وہ غلامی کے سبق کے علاوہ
اپنے حقوق کے سبق یاد نہ کرتے تھے مگر آج کے دور میں مسلمان تعلیم یافتہ ہے
وہ جان چکے ہیں کہ اگر آج انھوں نے بادشاہت سے آزادی حاصل نہ کی تو ساری
زندگی غریب کی نسلیں بھی بادشاہوں کے بچوں کی غلامی کرنے پر عبور ہو جائیں
گی ۔ کوئی شک نہیں کہ آزادی مارچ کو مختلف رنگ دیئے جا رہے ہیں ۔ اسکرپٹ کی
باتیں کی جارہی ہیں ان سب سے قطع نظر ایک بات تو واضح ہو چکی ہے کہ پاکستان
میں آزادی کی طلب ا ور نیا پاکستان کی بنیاد رکھی جا چکی ہے وہ وقت دور
نہیں جب سب کے جذبے سچے ثابت ہوں گے۔
ایک اور بات واضح کرنا ضروری ہے کہ یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ عمران خان کی
مارچ میں زیادہ تر لڑکیاں ، عورتیں اور بچے شامل ہیں ۔ کیاحکمران تاریخ
بھلا بیٹھے ہیں ؟ اگر ایسا ہو رہا ہے تو حکمرانوں کو چاہیے کہ ماضی میں
دیکھیں کس طرح محترمہ فاطمہ جناح اپنے بھائی محمد علی جناح کیساتھ سیاسی
میدان میں ان کے شانہ بشانہ کھڑی رہیں ، اس کی طاقت بنی رہیں ، ان کو حوصلہ
دیتی رہیں ۔ حکمرانو خدا کو خوف کرو ، بھئی یہ قوم کی مائیں ، بیٹیاں سبھی
عمران خان کی مائیں ، بیٹیاں اور بہنیں نہیں جو اپنے بیٹے کی بھائی کی
حوصلہ افزائی کے لیے اس کی طاقت بن کر باہر نکل آئی ہیں وہ بھائی جو نظام
میں بہتری لانا چاہتا ہے یقین مانیے عمران خان ہی ایک ایسا واحد لیڈر ہے جو
آج صرف اور صرف عوام کے حقوق کی خاطر جنگ لڑ رہا ہے ۔ نیا پاکستان تشکیل
دینا چاہتا ہے ، حکومت کھلے عام مخالفت کرے لوگ بھلے مختلف رنگوں میں آنکھ
مچولی کھیلتے رہیں مگر ایک نظر میں اب یہ واضح ہو چکا ہے کہ منگو کوچوان
نیا قانون نیا قانون پکارتے پکارتے جیل میں بند کر دیا گیا۔ مگر ایک وقت
آیا اور ہندوستان میں نیا قانون نافذ ہوا بالکل اسی طرح عمران خان نیا
پاکستان نیا پاکستان چیخ چیخ کر پکار رہا ہے ۔ اس عمل میں کوئی دو رائے
نہیں ہو سکتی کہ عمران خان کو بھی مشکلوں کا سامنا کرنا پڑیگا مگر وہ دن
دور نہیں جب نیا پاکستان موجودہ خاندانی بادشاہت کی غلامی سے آزادہوکر
سامنے آئیگا۔ |