خانہ جنگی کے دوراہے سے افغانستان کی واپسی

افغان کے صدارتی امیدوار اشر ف غنی اور ڈاکٹر عبد اﷲ عبد اﷲ کی حکمت عملی سے افغا نستان کی خانہ جنگی کے دوراہے سے واپسی ہوگئی ہے ۔ افغانستان کو اس مرتبہ خا نہ جنگی کا خطرہ طا لبا ن یا کسی اور مسلح گروپ سے نہیں بلکہ افغا نستان کے ان ہی دو صد را تی امید واروں اشر ف غنی اور عبد اﷲ عبد اﷲ سے ہی تھا ۔جون میں ہونے والے صدراتی انتخابا ت میں بڑے پیما نے پر دھاند لی ثا بت ہو ئی تھی تھی۔امریکی سیکرٹری آف اسٹیٹ جا ن کیری نے افغا نستان کا دورہ کر کے دونوں صدراتی امیدواروں اشرف غنی اور عبد اﷲ عبداﷲ کو اس امر کا پا بند بنا یا تھا کہ وہ ووٹوں کی دوبا رہ گنتی اور اس کے بعد نتا ئج کو تسلیم کر یں گے۔جا ن کیری نے اپنے دورے میں ان دونوں امیدواروں سے ایک تحر یری معا ہدہ بھی کر وایا تھا کہ وہ اقوام متحدہ کے فا رمولے کے مطا بق خوشدلی سے نتا ئج کو تسلیم کر یں گے۔ دونوں صدراتی امیدواروں نے یہ وعدہ بھی کیا تھا کہ ان میں سے جو امیدوار بھی ووٹوں کی دوبا رہ گنتی کے بعد کا میا ب ہو گا وہ ہا رنے والے امیدوار کو اقتدار میں شریک کرے گا۔

افغا نستا ن کے موجودہ صدر حا مد کرزئی نے دونوں امیدواروں پر یہ زور دیا کہ وہ اپنے اختلا فا ت کا جلد سے جلد حل تلاش کر یں کیونکہ وہ 2ستمبر کے بعد صدر نہیں رہ گے اس تا ریخ تک نئے صدر کا فیصلہ ہو جا نا چا ہیے۔حامد کرزئی کے اس اعلان کے ساتھ ہی ڈاکٹر عبد اﷲ نے یہ اعلان کر دیاتھا کہ ووٹوں کی دوبا رہ گنتی کا عمل غیر قانونی ہے اسلئے وہ اس عمل کا با ئیکا ٹ کرتے ہیں۔ڈاکٹر عبد اﷲ کے اس اعلان کے ساتھ ہی ڈاکٹر اشرف غنی نے بھی ووٹوں کی دوبا رہ گنتی کے عمل سے علیحد گی کا اعلان کر دیا ۔ان دنوں کابل سے یہ بھی اطلا عات آرہی تھیں کہ ڈاکٹر عبد اﷲ کے کئی حامی یہ طے کئے بیٹھے ہیں کہ اگر اشرف غنی کو افغا نستان کا اگلا صدر قرار دے دیا جا تا ہے تو ایسی صورت میں وہ تشدد کا راستہ اپنا سکتے ہیں۔افغانستان جما عت اسلامی کے کئی راہنما جن کا تعلق تا جک کمیو نٹی سے ہے اور وہ ڈاکٹر عبد اﷲ کے حامی ہیں انہوں نے گزشتہ ما ہ اگست میں واضح انداز میں دھمکی دی تھی کہ وہ اشرف غنی کی جیت روکنے کیلئے افغان نیشنل سیکورٹی فورسز میں شامل اپنے حامیوں سے بھی رجو ع کر سکتے ہیں۔کئی اطلا عات کے مطا بق عبد اﷲ عبد اﷲ کے حامی کئی افغان اضلا ع اور صوبوں کے گورنرز بھی اپنی اپنی ملیشیا کو مسلح کر رہے تھے تا کہ اشر ف غنی کی فتح کی صورت میں مسلح بغا وت کا آغا ز کر دیا جا ئے۔افغا نستان میں اس مرتبہ اگرتشدد بھڑ کتا تو اس کے اثرا ت پہلے سے بھی زیا دہ تبا ہ کن ہو سکتے تھے۔ کیونکہ ایسا ہونے سے افغان سیکورٹی فورسز میں شامل دونوں اطراف کے حامیوں کے ما بین خانہ جنگی کا خظرہ تھا ۔

لیکن خدا کا شکر ہے ۔اقتدار کی جنگ کے دوران ردونوں صدارتی امیدوار کے درمیان سمجھوتہ ہوگیا ہے۔گذشتہ کل کابل میں منعقد ہونے والی ایک تقریب میں دونوں امیدواروں نے شراکت اقتدار کے معاہدہ پر دستخط کرلیا ہے ۔اس معاہدہ کی رو سے اشرف غنی صدر ہوں گے اور ڈاکٹر عبد اﷲ عبد اﷲ چیف ایگزیٹو ہوں گے ۔یہ عہدہ وزیر اعظم کے برابر ہوگا ۔معاہدے کے تحت اشرف غنی صدر ہوں گے جب کہ عبداﷲ عبداﷲ چیف ایگزیکٹیو نامزد کریں گے۔ یہ عہدہ وزیرِ اعظم کے برابر ہو گا۔

افغان صدر حامد کرزئی نے اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وہ بہت خوش ہیں کہ ان کے دو افغان بھائی اشرف غنی اور عبداﷲ عبداﷲ ، افغانستان کے بہتر اور روشن مستقبل کی خاطر، باہمی صلاح و مشورے اور افہام و تفہیم سے آئندہ حکومت کے قیام پر متفق ہوگئے ہیں۔ انھوں نے دونوں راہنماؤں کو یقین دلایا کہ وہ اور ان کے ساتھی، افغانستان کے عام شہریوں کی حیثیت سے نئی حکومت کا ہر ممکن ساتھ دیں گے۔

شرکت اقتدار کے معاہدہ کے بعد امریکہ نے بھی ان دو نوں لیڈروں کو مبارکبادی پیش کی ہے اور یہ امید ظاہر کی ہے کہ افغانستان میں نئی متحدہ حکومت کے قیام کے بعد امریکہ اور افغانستان کے درمیان سکیورٹی کے دوطرفہ معاہدے پر رواں ماہ کے اختتام سے پہلے ہی دستخط ہو جائیں گے۔دو طرفہ معاہدے کے تحت اس بات کا تعین ہونا ہے کہ رواں برس کے اختتام پر افغانستان سے غیر ملکی افواج کے عمومی انخلا کے بعد بھی کتنے امریکی فوجی افغانستان میں تعینات رہیں گے۔سبکدوش ہونے والے افغان صدر حامد کرزئی نے اس معاہدے پر دستخط کرنے سے انکار کیا تھا تاہم ڈاکٹر اشرف غنی اور عبداﷲ عبداﷲ دونوں نے صدارتی مہم کے دوران وعدہ کیا تھا کہ وہ منتخب ہونے کی صورت میں اس پر دستخط کر دیں گے۔

اس سکیورٹی معاہدے کے تحت غیر ملکی فوجی انسدادِ دہشت گردی کی کارروائیوں کے علاوہ افغان فوج کی مدد اور تربیت کے لیے افغانستان میں موجود رہ سکیں گے۔ایساف افواج نے سنہ 2013 میں پورے افغانستان کی سکیورٹی افعان فوج کے حوالے کر دی تھی تاہم اب بھی وہاں ہزاروں غیر ملکی فوجی موجود ہیں۔یہ فوجی 2014 کے آخر تک افغانستان سے چلے جائیں گے اور امریکہ چاہتا ہے کہ اس کے دس ہزار فوجی افغانستان کی سکیورٹی فورسز کی تربیت اور انسداد دہشت گردی کی کارروائیوں میں مدد کے لیے 2014 کے بعد بھی افغانستان میں رہیں۔امریکہ اور افعانستان کے دو طرفہ معاہدے کے تحت امریکی فوجی افغان سرزمین پر افغان حکام سے مشورہ کیے بغیر کوئی کارروائی نہیں کریں گی تاہم امریکہ افغانستان کا کسی بیرونی حملے کی صورت میں دفاع نہیں کرے گا ۔

افغانستان میں جاری تعطل کا خاتمہ مسرت آمیز خبر ہے ۔شرکت اقتدار کے معاہدہ نے افغانستان کو ایک بڑی خانہ جنگی سے بچا دیا ہے ۔اس مشترکہ حکومت کے لئے مناسب ہے کہ وہ افغان سیاسی نظام میں اصلا حا ت کے ساتھ ساتھ عام افغانی کے معا شی مسائل پر بھی بھر پور توجہ دے۔80%افغان زراعت سے وابستہ ہیں مگر اس شعبے میں افغان حکومت کو ئی توجہ نہیں دیتی۔افغانستان کے قدرتی وسائل کو بھی سیا سی اشرا فیہ اور ان کے رشتے دار لوٹ رہے ہیں۔ عوام کا ان وسائل میں کوئی حصہ نہیں۔افغا نستان میں جب تک بھر پور معا شی ، سیا سی اور قا نونی اصلا حات نہیں ہو جا تیں تب تک وہاں ہونے والے ہر انتخا با ت کا وہی حال ہوگا کہ جیسا کہ اس مرتبہ ہواہے۔دنیا میں کسی بھی سیا سی نظام خا ص طور پر جمہو ری نظام کی کامیا بی کیلئے یہ نا گزیر ہو تا ہے کہ عام انسان کو بھی محسوس ہو کہ اس نظام کے مثبت معاشی اور سیاسی اثرات سے وہ بھی مستفید ہو رہا ہے۔افغانستان کا موجودہ سیاسی نظام امریکی سامراج اور افغان اشرافیہ یا جنگجو سرداروں کے مفا دات کیلئے تشکیل دیا گیا ہے افغانستان میں مستقل امن کیلئے سب سے پہلی شرط ہی یہ ہے کہ نظام کو مخصوص طبقات کے مفا دات کی نگہبانی کیلئے نہیں بلکہ عام افغانوں کی بہبود کو مدنظر رکھتے ہوئے تشکیل دیا جا ئے ۔

امید ہے افغان کے نئے صدر اشر ف غنی اور اقتدار میں شریک ڈاکٹر عبد اﷲ عبد اﷲ افغانستان کی معاشی اصلاحت پر بھرپور توجہ دیں گے ۔سیاسی نظام کی خامیوں کے خامیوں کے دور کریں گے ۔خاص طور پر امن وسلامتی کی فضا ہموار کرنے کے لئے تمام افغانیوں کے لئے مشترکہ حکمت عملی اپنائیں گے۔شرکت اقتدار کا معاہدہ ایک قابل ستائش اقدام ہے ۔فیصلہ کا فی تاخیر سے لیا گیا ہے تاہم درست لیا گیا ہے۔
 
Shams Tabrez Qasmi
About the Author: Shams Tabrez Qasmi Read More Articles by Shams Tabrez Qasmi: 214 Articles with 180868 views Islamic Scholar, Journalist, Author, Columnist & Analyzer
Editor at INS Urdu News Agency.
President SEA.
Voice President Peace council of India
.. View More