گو۔۔۔! گو۔۔۔! کے نعرے کوئی نئی
بات نہیں۔ ماضی میں ایسے نعرے لگتے آئے ہیں۔یہ نعرے کامیاب ہوئے یا ناکام
یہ ایک الگ بحث ہے۔لیکن اس وقت جو گونواز گو۔۔۔! کا نعرہ لوگوں کے ہونٹوں
پر ہے وہ اب کرنسی نوٹوں پر بھی منتقل ہو چکا ہے۔ایک اندازے کے مطابق
تقریباً بیس کروڑ مالیت کے نوٹوں پر " گو نواز گو" کا نعرہ لکھا جا چکا ہے۔
جبکہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے ایسے کسی بھی کرنسی نوٹ کو ناقابل قبول قرار
دے دیا ہے جس پر کسی بھی قسم کا کوئی سیاسی نعرہ (گو نواز گو) درج ہو۔ سوال
یہ پیدا ہوتا ہے کہ اُن نوٹوں کا کیا بنے گا کو جو "گو نواز گو" کے نعرے کی
نذر ہو چکے ہیں۔جن نوٹوں پر یہ خوف صور ت نعرہ درج ہے اُن میں دس، بیس،
پچاس، سو، پانچ سو اور ایک ہزار کے نوٹ شامل ہیں۔ لیکن پانچ ہزار کا کوئی
نوٹ ابھی تک سامنے نہیں آیا جس پر یہ نعرہ درج ہو۔ اس کی وجہ یہ بھی ہو
سکتی ہے کہ جو طبقہ حکومت کے خلاف اپنے غصے کا اظہار کرنے کے لیے اپنی دولت
کی قربانی دے رہا ہے اُن کے پاس شاید پانچ ہزار کا نوٹ موجود ہی نہ ہو۔ اور
جو طبقہ اس مالیت کے نوٹوں کا مالک ہے اُنہیں ایسا کرنے کی ضرورت ہی نہ پیش
آئی ہو۔ وہ اس لیے کہ نظام کی تبدیلی صرف وہی لوگ چاہتے ہیں جن کے پاس
چھوٹے یعنی تھوڑی مالیت کے نوٹ ہیں۔بڑی مالیت کے نوٹوں کے مالک اپنا ہر
جائز و ناجائز کام اُنہیں (بڑے) نوٹوں کے بل بوتے پر نکلوا لیتے ہیں ۔ جبکہ
چھوٹے نوٹوں والے ناجائز تو کیا کسی جائز کام کے لیے بھی دفتروں کے دھکے
کھا کھا کر، ذلیل وخوار ہو کر اپنا مقدمہ اﷲ کی عدالت میں پیش کرکے اچھے
دنوں کا انتظار کرنے لگتے ہیں ۔ اُنہیں انصاف ملے یا نہ ملے، موت ضرور مل
جاتی ہے۔ہمارے تھانوں ، کچہریوں اور عدالتوں کی حالت تو بچہ بچہ جانتا
ہے۔میں اُس وقت بچہ تھا جب میرے تایا کی زمین (جس گھر میں وہ رہائش پذیر
ہیں) کا مقدمہ عدالت میں چل رہا تھا ۔ آج جبکہ میں دو بچوں کا باپ ہوں
لیکن! وہ مقدمہ جوں کا توں ہے۔پچھلے بیس پچیس سالوں میں اس مقدمے کا کئی
دفعہ اُن کے حق میں فیصلہ ہو چکا ہے لیکن مخالف پارٹی نئے سرے سے نوٹ لگاتی
اور ایک دفعہ پھر سے عدالت کی پیشیوں کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ میرے تایا
جو کہ ریلوے کے محکمے سے ریٹائر ہوئے تھے انہوں نے اپنی ساری جمع پونجی
اپنا گھر بنانے کے لیے لگا دی۔ اور اب بیٹوں کی کمائی اس گھر کو بچانے کے
لیے لگا رہے ہیں۔ لیکن مستقبل قریب میں اُن کی اس پریشانی سے جان چھوٹتی
نظر نہیں آرہی۔ کیونکہ ہمارے موجودہ اور فرسودہ نظام میں جیت ہمیشہ جھوٹ کی
ہوتی ہے۔ بڑے نوٹوں والے لوگ ہمیشہ بڑے ہی ہوتے ہیں۔اور انہی بڑے نوٹوں
والوں کے زیر قبضہ نظام سے چھٹکارا دلانے کے لیے چھوٹے نوٹوں والوں نے
چھوٹے نوٹوں پر "گو نواز گو" لکھنے کی تحریک کا آغاز کیاہے۔
کئی دھایؤں سے یہ باتیں سنتے ہوئے ہمارے تو کان پک چکے ہیں۔ کہ اب حالات
بدلیں گے۔ بے روزگاری ختم ہو گی۔ تعلیم عام ہو گی۔ علاج معالجے کی سہولت
میسر ہو گی۔ کرپشن کو جڑ سے ختم کیا جائے گا۔ قانون سب کے لیے ایک ہوگا۔
انصاف کا بول بالا ہو گا۔ غریب کو اُس کا حق ملے گا۔ حق تو دور کی بات،
مرنے کے بعد کفن نصیب ہونا بھی بڑے نصیبوں کی بات ہے۔آج اگر کوئی ان سب
مسائل کو لے کر مظلوم اور پسے ہوئے لوگوں کو اُن کا حق دلانے کی بات کر رہا
ہے۔ تو ہمیں بجائے اُس پر تنقید کے تیر چلانے کے کچھ دیر کے لیے سوچنا
چاہیے کہ کیا وہ شخص غلط کہہ رہا ہے؟ کیا اس ملک میں اس وقت حقیقی جمہوریت
ہے؟ کیا اس ملک میں انصاف مل رہا ہے؟ کیا بے روزگاری کا خاتما ہو چکا ہے؟
کیا کمزور آدمی کو اپنے اوپرہونے والے جھوٹے مقدمات کے لیے عدالتوں کے دھکے
نہیں کھانے پڑرہے؟ کیا پورے ملک میں تعلیم کا ایک ہی معیار ہے؟کیا کرپشن
ختم ہو چکی ہے؟ کیا غریب کے قسمت بدل چکی ہے؟ نہیں۔ نہیں۔ نہیں۔۔۔۔!!! آپ
جس سے بھی پوچھیں گے اس کا جواب نفی میں ہو گا۔
اپنی کرسیاں بچانے کے لیے تو تمام سیاسی جماعتیں اکٹھی ہو گئی ہیں۔ لیکن
عوام کے بنیادی حقوق کی ابھی تک کسی نے بات نہیں کی۔ الیکشن میں کی جانے
والی اندھا دھند دھاندلی کا بھی اعتراف کر لیا گیاہے۔ ماڈل ٹاؤن میں مارے
جانے والے بے گناہ لوگوں پر افسوس بھی کیا گیا لیکن اُن کو انصاف دلانے کے
لیے کوئی ٹھوس اقدامات نہیں کیے گئے۔ مارچ اور دھرنوں کے دباؤ کی وجہ سے
اُس خونریزی کے خلاف ایف آئی آر تو کاٹ دی گئی لیکن اُس کا کوئی فیصلہ،
کوئی گرفتاری اور کوئی سزا سامنے نہیں آئی۔اس معاملے کو جان بوجھ کر لٹکایا
جا رہا ہے تاکہ نتائج اپنی مرضی کے مطابق حاصل کیے جا سکیں۔ایک ایسا واقعہ
جو میڈیا پوری دنیا کے سامنے لا چکا ہے اُس پر انصاف نہیں ہو رہا تو خود
فیصلہ کیجیے ایسے کتنے ہی واقعات ہوں گے جو عوام کی آنکھوں سے اوجھل ہوں گے
اور اُن پر کوئی عمل درآمد نہیں کیا گیا ہو گا۔جس کی لاٹھی اُس کا قانون
نہیں تو اور یہ کیا ہے۔حکومت کی انتھک محنت سے جمہوریت تو مضبوط ہو گئی ہے
لیکن اُس کے ثمرات سوائے ان صاحب اقتدار لوگوں کے کسی تک نہیں پہنچ
پائے۔اور نہ ہی کبھی پہنچ پائیں گے۔ جمہوریت کے دعوے داروں نے پر امن
احتجاج کرنے والوں پر لاٹھیاں ، آنسو گیس اور گولیاں برسا دیں۔دونوں احتجاج
کرنے والی پارٹیوں کے کارکنوں کو گرفتار کیا گیا۔ جھوٹ پر جھوٹ بول کر پاک
فوج کو بدنام کرنے کی کوشش کی گئی۔ ایک چورنے دوسرے چور کی کرتوتوں پر پردہ
ڈال دیا اور یوں جمہوریت کی ریل گڈی ڈی ریل ہونے سے بچ گئی ہے۔
عمران خان پر جو تنقید ہو رہی ہے وہ سو فیصد درست ہے۔ عمران خان اور اُس کے
بڑے بھائی ڈاکٹر طاہرالقادری اپنے مطالبات منوانے کے لیے کچھ غلط اقدام بھی
کر رہے ہیں۔ اُن کی زبان بہت سخت ہے اور وزیراعظم سمیت تمام پارلیمانی
ارکان کو ایک ہی لاٹھی سے ہانک رہے ہیں۔یہ سب حکومت کے غلط عمل کا رد عمل
ہے۔ اس لیے غلط عمل کو غلط عمل سے روکنا کوئی غلط کام نہیں ہے۔دیمک کو ختم
کرنے کے لیے زہر کی ضرورت پڑتی ہے۔کینسر سے باقی تندرست جسم کو بچانے کے
لیے کینسر زدہ حصے کو کاٹنا پڑتا ہے۔اور سانپ کو مارنے کے لیے لاٹھی
اُٹھانی پڑتی ہے۔ اور یہ حکمران دیمک کی طرح اس ملک کی بنیادوں کو چاٹ رہے
ہیں۔ کینسر کی طرح پورے جسم کے لیے خطرہ بن چکے ہیں۔ اور سانپ بن کر قوم کی
دولت پر مسلط ہیں۔تو پھر کیوں نہ ان کے ساتھ ایسا ہی سلوک کیا جائے جس کے
وہ مستحق ہیں۔قوم اگر جاگ چکی ہے تو اُسے جاگتے رہنا چاہیے۔ کیونکہ سوئی
ہوئی قوم کے نصیب کبھی نہیں جاگ سکتے۔
|