گدھے بھی انٹرنیٹ کے چکر میں
(Ata Muhammad Tabasum, Karachi)
انٹر نیٹ تقریباً دنیا کے تمام
کونوں تک پہنچ چکا ہے
کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کا حد سے متجاوز استعمال اور الیکٹرونک میڈیا کے ساتھ
حد سے زیادہ وقت گزارنے کے نتیجے میں ہمارے معاشرتی روئیے اور اقدار تباہ
ہورہی ہیں۔ طلاق کی شرح بڑھ رہی ہے۔
گدھے اور انٹرنیٹ بات تو انوکھی ہے ، لیکن ہے دلچسپ ،ٹیکنالوجی کی دنیا کے
مختلف کارنامے تو اکثر آپ کی نظر سے گزرتے رہتے ہوں گے, لیکن ایک حیرت
انگیز کمال ترکی نے بھی اب کر دکھایا ہے۔ ترکی میں گدھے ہر وقت ٹیکنالوجی
کی دنیا سے رابطے میں رہنے کا ذریعہ بن گئے ہیں۔درحقیقت یہ سولر پاور ڈنکیز
(گدھے) ہیں جن کی مدد سے ترکی کے عام کاشتکار اپنے موبائل فونز اور لیپ
ٹاپس کو چارج کرنے کی صلاحیت حاصل کرچکے ہیں۔کاشتکاروں کی اس تخلیقی سوچ نے
دنیا کو حیران کر کے رکھ دیا ہے-کاشتکاروں نے اپنے گدھوں پر شمسی پینلز نصب
کر رکھے ہیں اور وہ انہیں طویل فاصلے کے کسی سفر کے دوران اپنے موبائل فون
یا لیپ ٹاپ وغیرہ کو چارج کرنے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ہر گدھا 5 سے 7 کلو
واٹ بجلی کے حصول کا ذریعہ بنتا ہے اور یہی سبب ہے کہ کاشتکار اپنے کام کاج
کے دوران بھی انٹرنیٹ پر آن لائن رہتے ہیں۔کاشتکاروں کا کہنا ہے کہ کھیتوں
میں کام کے دوران ماضی میں انہیں پوری پوری رات تنہا ستاروں کو گھورتے ہوئے
گزارنا پڑتی تھی لیکن اب وہ ان گدھوں کے ذریعے ہر وقت آن لائن رہ کر تفریح
کرسکتے ہیں۔دلچسپ بات یہ ہے کہ گدھوں کو سن بلاکر کی مدد سے سورج کی روشنی
سے بچایا جائے اور صرف سولر پینلز کو روشنی کی زد میں رکھا جائے تو اس سے
بجلی کی پیداوار دوگنا تک بڑھ سکتی ہے۔ دنیا میں انٹرنیٹ کو ساری آبادی تک
پہنچانا ایک خواب ہے۔ لیکن اس کی تکمیل میں کوشش جاری ہیں۔مشہور انٹرنیٹ
سرچ انجن گوگل نے ڈرون بنانے والی کمپنی ٹائیٹن ایرواسپیس خرید لی ہے۔ اس
فیصلے کا مقصد ان علاقوں میں انٹرنیٹ کی خدمات فراہم کرنا ہے جو اب تک اس
سہولت سے محروم ہیں۔دنیا بھر کی معلومات کے حصول اور لوگوں سے رابطے میں
رہنے کا سب سے تیز رفتار اور موثر طریقہ انٹرنیٹ ہے۔ لیکن اعداوشمار کے
مطابق اس وقت دنیا کی دو تہائی آبادی انٹرنیٹ تک رسائی سے محروم ہے ،کئی
ممالک کے دورافتادہ علاقوں میں انٹرنیٹ کی سہولت ہی موجود نہیں اور کہیں
سگنلز اچھے نہیں آتے ،ایسے علاقوں کے لیے گوگل نے ڈرون بنانے والی معروف
کمپنی خرید لی ہے۔گوگل کی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ ان علاقوں میں انٹرنیٹ کی
سہولت فراہم کرنے کے لیے ڈورن استعمال کیے جائیں گے۔ٹائیٹن ایرو اسپیس کا
کہنا ہے کہ اس کے تیار کردہ بعض ڈرون پانچ سال تک ری فیولنگ اور زمین پر
آئے بغیر فضا میں رہ سکتے ہیں جس تیزی سے دنیا بھر میں انٹرنیٹ صارفین کی
تعداد بڑھتی جارہی ہے، اسی تیزی سے کئی ممالک اپنے شہریوں پر انٹرنیٹ کا
دائرہ تنگ کرتے جارہے ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہی دنیا میں انٹرنیٹ کو
روکنے اور اس کی سنسر شپ کی بھی کوشش جاری ہے۔ گو اس پر قابو پانا مشکل ہے۔
اب انٹرنیٹ سینسر شپ ایک عام سی بات ہے اور کئی ممالک نے اپنے شہریوں کی
انٹرنیٹ تک رسائی انتہائی محدود کررکھی ہے۔ پاکستان میں یوٹیوب پر دو سال
سے پابندی ہے جبکہ چین گریٹ فائر وال آف چائنا کی مدد سے اپنے کروڑوں
انٹرنیٹ استعمال کرنے والے شہریوں کی نگرانی اور ان کی رسائی کنٹرول کرتا
ہے۔ ایران، نارتھ کوریا، فن لینڈ، ڈنمارک، اٹلی، برطانیہ، آئرلینڈ سمیت کئی
ممالک میں بھی ایسی ہی صورت حال ہے۔ اسی سینسر شپ کا مقابلے کرنے کے لئے
ٹورینٹس کے حوالے سے مشہور پائریٹ بے (Pirate Bay) نے اپنا ایک براؤزر پیکج
Pirate Browser پیش کیا ہے جس کے ذریعے انٹرنیٹ کے ان حصوں تک بھی رسائی
حاصل کی جاسکتی ہے جن تک رسائی پر حکومتوں نے قدغن لگا رکھی ہے۔پائریٹ
براؤزر کا بنیادی مقصد انٹرنیٹ سینسر شپ سے آزادی ہے اور اس میں صارف کی
شناخت چھپانے کے لئے کوئی خاص انتظام نہیں کیا جاتا۔آج دنیا کی صرف ایک
تہائی آبادی کو انٹرنیٹ تک رسائی حاصل ہے لیکن سن دو ہزار بیس تک عملا"
تمام آبادی کو انٹرنیٹ تک رسائی حاصل ہو چکی ہوگی جس میں موبائل آلات کا
وسیع تر پھیلاؤ مددگار ثابت ہوگا۔ موبائل آلات کے استعمال میں توسیع کے
ساتھ ساتھ انٹرنیٹ میں مقبول ترین مواد کی ہیئت، اشیاء اور خدمات کی قیمتوں
میں تبدیلی ہو رہی ہے۔ انٹرنیٹ کی رسائی میں موبائیل فون نے بھی ایک انقلاب
برپا کردیا ہے۔ اور اب نئی نئی اپلیکشن آرہی ہیں۔ اب ایسے آلات کی اوسط
قیمت کم ہو کر ساٹھ ڈالر ہو گئی ہے جبکہ بعد میں یہ قیمت پندرہ ڈالر تک کم
ہو سکتی ہے۔انٹرنیٹ کی دنیا میں سب سے زیادہ استعمال کئے جانے والے سرچ
انجن گوگل ہے۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے اس دور میں بھی دنیا بھر میں انسانوں
کی ایک بہت بڑی تعداد انٹرنیٹ تک رسائی کی سکت نہیں رکھتی۔ ایک اندازے کے
مطابق دنیا بھر میں پانچ ارب کے قریب لوگ اس جدید ایجاد سے محروم ہیں، ان
میں اکثریت دیہاتیوں کی ہے لیکن اب بھارت میں Question Box نامی ایک ایجاد
نے اس بات کو ممکن بنا دیا ہے کہ ناخواندہ افراد بھی انٹرنیٹ پر موجود علم
کے خزانے سے مستفیض ہوسکیں۔Question Box' ایک عام سے تکونی مشین ہے، جس کے
اندر موبائل لگا ہوا ہے۔ کوئی بھی شخص اسکا بٹن دبا کر اْس آپڑیٹر سے بات
کر سکتا ہے، جوکال سینٹر میں کمپیوٹر اور انٹر نیٹ کے ساتھ بیٹھا ہے۔ یہ
شخص آپریٹر سے اپنی مقامی زبان میں کچھ بھی پوچھ سکتا ہے۔ زیادہ تر دیہاتی
پونیکی کل آبادی کے بارے میں پوچھتے ہیں اور جب آپریٹر جواب دیتا ہے تو وہ
تالیاں بجا کر اسے داد دیتے ہیں۔ابتدا میں انٹر نیٹ صرف امیر لوگوں کا ہی
شوق سمجھا جاتا تھا۔ لیکن اب غریب اور غیر تعلیم یافتہ افراد کو بھی اس کے
دائرے میں لایا جارہا ہے۔ سسٹر لوسی کیرین پونے کے ایک آشرم کی بانی ہیں ان
کا خیال ہے کہ یہ ایجاد اسکول کے بچوں کے لئے بہت معاون ثابت ہوگی کیونکہ
اس سے انہیں نہ صرف پڑھائی میں مدد ملے گی بلکہ وہ اپنے امتحانات کے نتائج
بھی معلوم کرسکیں گے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس طرح کی معلومات انٹرنیٹ پر
دستیاب ہوتی ہے لیکن اس جدید ٹیکنالوجی سے محرومی نے لوگوں کو معلومات سے
دور رکھا ہوا تھا۔ لیکن اب Question Box کی بدولت گاؤں کے لوگوں کو بھی یہ
معلومات میسر آجائے گی۔کیرین کا کہنا ہے کہ اس ایجاد کو نوجوان اور طالب
علم صحت کے بارے میں آگاہی حاصل کرنے کے لئے بھی استعمال کرسکتے ہیں۔بھارت
میں کوئسچن بوکس کو2007 سے استعمال کیا جارہا ہے اور اب ملک میں دس ایسے
مقامات ہیں، جہاں ان مشینوں کو نصب کیا گیا ہے۔ ان مقامات میں دیہات اور
کچی آبادیاں بھی شامل ہیں۔ ڈاکڑ Nikhil Agarwal اوپن مائنڈ ٹرسٹ انڈیا کے
چیئرمین ہیں اور وہ Question Box کے استعمال کو فروغ دینے کے عمل کی نگرانی
بھی کر رہے ہیں۔ ڈاکڑ اگروال کا کہنا ہے کہ اس مشین کا مقصد ناخواندہ افراد
کو بھی اس قابل بنانا ہے کہ وہ جدید معلومات سے مستفیض ہوسکیں۔ ان کا کہنا
انٹر نیٹ تقریباً دنیا کے تمام کونوں تک پہنچ چکا ہے۔بھارت کی 1.1 بلین کی
آبادی میں صرف81 ملین افراد یعنی آٹھ فیصد بھارتی آن لائن ہیں۔ وہ کہتے ہیں
کہ بھارت دنیا میں موبائل استعمال کرنے والے دوسرا بڑا ملک ہے، جس میں
موبائل صارفین کی تعداد 490 ملین ہے لیکن اس کا یہ قطعی مطلب نہیں کہ
بھارتی باشندوں کو ہر طرح کی معلومات تک رسائی حاصل ہے۔ بہت سے بھارتیوں کو
اس بنیادی معلومات تک بھی رسائی حاصل نہیں ہے جو شہری طبقے کو آسانی سے
میسر آجاتی ہے۔ ہم اس دیہی اور شہری کی تفریق کو کم کرنا چاہتے
ہیں۔Question Boxکو یوگنڈا میں بھی نصب کیا گیا ہے۔ یوگنڈا کمیونٹ ورکرز
دیہاتوں میں جا کر کسانوں اور گاؤں کے لوگوں کے سوالات جمع کرتے ہیں اور
پھر وہ ان سوالات کے جوابات کے لئے ایک لیب سے رابطہ کیا جاتا ہے، جہاں
آپریٹرز ان کو اِن سوالات کے جوابات دیتے ہیں۔ بھارت اور یوگنڈا میں
Question Box ابھی ابتدائی مرحلے میں ہے، جہاں وہ زیادہ تر کسانوں اور
دیہاتیوں کو معلومات مہیا کر کے ان کی مدد کر رہے ہیں لیکن مستقبل میں اس
مشین کو ذہنی امراض سے متعلق آگاہی فراہم کئے جانے سمیت کئی اور مقاصد کے
لئے بھی استعمال کیا جائے گا۔ پاکستانیوں کے انٹرنیٹ مواد پر رسائی کے دنیا
میں سر فہرست ہونے کے چرچے اس وقت نہ صرف مغربی میڈیا بلکہ پاکستانی ذرائع
ابلاغ پر بھی کئے جارہے ہیں۔مغربی خبررساں ادارے فاکس نیوز کی طرف سے گوگل
کے اس ڈیٹا کی بنیاد پر پاکستان کے غیر اخلاقی مواد تک رسائی میں سر فہرست
ہونے کی خبر سامنے آئی تھی۔ بعد میں اسی ماہ خود گوگل کے ہی ترجمان نے یہ
کہہ کر اس خبر کی تردید بھی کردی تھی کہ اس طرح کی کوئی بھی رپورٹ اغلاط سے
مبرا نہیں ہوسکتی۔دیگر کئی ممالک ایسی اصطلاحات کی تلاش میں پاکستان سے بہت
آگے ہیں۔ ان ممالک میں ویتنام، فلپائن، جنوبی افریقہ، برطانیہ، نیوزی لینڈ
اور آسٹریلیا شامل ہیں۔ یہ وہی ممالک ہیں جنھوں نے انفرادیت، شخصی آزادی،
تفریح اور طرز زندگی کے خوبصورت عنوانوں سے یہ انسانیت سوز ’’تحائف‘‘ دنیا
کو دیے ہیں۔ یہ اعدادو شمار شہروں کے حوالے سے بھی دیکھے جاسکتے ہیں جن میں
نئی دہلی، بنگلور، چنائی، ممبئی، سڈنی، میلبورن، ہنوئی، لاس اینجلس اور
ڈیلاس سرفہرست ہیں۔ دنیا کی چھٹی سب سے بڑی آبادی ہونے کے ناطے سبھی دائروں
اور شعبوں میں پاکستان کے انٹرنیٹ صارفین و استعمال کنندگان کا زیادہ ہونا
ایک بدیہی امر ہے۔ گوگل ہی کی رپورٹ کی مطابق دیگر بہت سے ایسے مثبت الفاظ
بھی ہیں جن میں پاکستان سرفہرست، دوسرے یا تیسرے نمبر پر آتا ہے۔ مثلاً لفظ
محمد، اسلام، قرآن، ایجوکیشن، ریسرچ اور جابز کے الفاظ کو ٹرینڈز پر دیکھا
جاسکتا ہے، لیکن اس بات کو مغربی میڈیا اور اس کی پیروی میں پاکستانی ذرائع
ابلاغ دونوں ہی گول کردیتے ہیں۔پاکستان میں گذشتہ عشرے کے دوران نہ صرف
انٹرنیٹ کے ذریعے غیر اخلاقی مواد تک رسائی کے رجحان میں بے پناہ اضافہ ہوا
ہے، بلکہ ہر قسم کے غیر اخلاقی مواد تک ہر عمر کے افراد کی رسائی میں بھی
خطرناک حد تک اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں
ڈیڑھ سے دو کروڑ افراد کو انٹر نیٹ تک رسائی حاصل ہے۔ دوسری جانب بازاروں
میں بھی ہر طرح کی سی ڈی اور ڈی وی ڈی بلا تخصیص عمر فروخت کی جارہی ہیں،
موبائل فون کے ذریعے بھی نوجوان اس مصیبت میں دھڑا دھڑ گرفتار ہورہے ہیں
اور کیبل پر دکھائے جانے والے نیوز اور تفریحی چینلز بلاتفریق ہر ناظر کو
اشتعال انگیز مناظر دکھارہے ہیں۔ہمارے یہاں ڈراموں، فلموں، یہاں تک کہ
اشتہارات میں بھی غیراخلاقی پہلو معمول بنتا جارہا ہے، سڑکوں پر لگے بل
بورڈز ایک خاص ثقافتکی نمائندگی کرتے نظر آتے ہیں اور رہی سہی کسر سوشل
میڈیا کے غلط استعمال نے پوری کردی ہے جو ویب سائٹس کے ساتھ ساتھ ہر اچھے
موبائل پر بھی دستیاب ہے اور جس کے ذریعے سے ہر رطب و یابس کو پلک جھپکتے
شیئر کیا جاسکتا ہے۔ اس سیلاب بلا کو روکنا جن کی ذمہ داری تھی وہ خود اس
میں پھنسے نظر آتے ہیں اور عوام ہیں کہ انہیں یہ احساس تک نہیں ہورہا کہ
ہماری آیندہ نسلوں کے ساتھ کیا ہونے جارہا ہے۔ ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق پی
ٹی اے کی جانب سے ۱۳ ہزار ایسی ویب سائٹس کو بلاک کیا جاچکا ہے جو بظاہر
خوش آئند ہے کہ ایک ذمہ دار ادارے کو احساس تو ہے، لیکن جب اس کا موازنہ
انٹرنیٹ پر موجود ایسی غیر اخلاقی ویب سائٹس سے کیا جاتا ہے جو اس وقت بھی
موجود ہیں یا ان میں روزانہ کی بنیاد پر ہزاروں کا اضافہ ہورہا ہے، تو اس
رکاوٹ کی وقعت بہت کم رہ جاتی ہے۔الیکٹرونک میڈیا پر کسی بھی قسم کی غیر
اخلاقی سرگرمیوں یا مواد کی نشرواشاعت کو پیمرا روکنے کی مجاز ہے جس کے
قانون ’’پروگراموں کے عمومی معیار، دفعہ ۶‘‘ میں موجود ہے کہ کسی بھی قسم
کی فحش نگاری میں مبتلاء پائے جانے والے نشریاتی ادارے کا لائسنس منسوخ کیا
جاسکتا ہے۔اسی طرح کیبل پر نشر ہونے والے مواد کیلئے بھی قوانین موجود ہیں۔
سوال محض ان قوانین پر عمل درآمد کا ہے، لیکن ہماری بدقسمتی ہے کہ ایسا
نہیں ہورہا۔ ہمارا مذہب، ثقافت اور ہمارا ورثہ کوئی بھی ان سب چیزوں کی
اجازت نہیں دیتا،لیکن اس کے باوجود ہم سب خاموش ہیں۔ معاملہ محض مذہب کا
بھی نہیں، کیونکہ ایسے بہت سے ممالک جو خود کو سیکولر کہتے ہیں، اس قسم کے
مواد اور ویب سائٹ کو روکنے اور بنیادی انسانی اخلاقیات کی حفاظت کے لئے
ضروری اقدامات کررہے ہیں۔۔ چین کی کمپنیوں نے اپنے ملک اور سعودی عربمیں
ایسی مجرب اخلاق سائیٹس کو بلاک کرنے کو پروگرام بنا رکھا ہے۔ پی ٹی اے نے
ان چینی کمپنیوں سے رابطہ کیا تھا۔ جو چین اور سعودی عرب کو پورن بلاکنگ
سروسز فراہم کررہی ہیں، لیکن پھر کچھ ہی عرصہ بعد معلوم ہوا کہ حکومت کی
جانب سے پی ٹی اے کو اس مقصد کیلئے فنڈز فراہم نہیں کئے گئے اسلئے معاملہ
بات چیت سے آگے نہیں بڑھ سکا۔چین کوئی مذہبی ملک نہیں ہے۔ لیکن اس نے غیر
اخلاقی ویب سائٹ کی ایک بہت بڑی تعداد کو بھی بلاک کیا گیا ہے۔ اس حوالے سے
چین میں سخت قوانین بھی موجود ہیں اور بالخصوص ’’چائلڈ آن لائن پروٹیکشن
ایکٹ 1989 کے تحت تمام کمرشل ویب سائٹس تک سے یہ کہا جاتا ہے کہ وہ کم عمر
نوجوانوں اور بچوں سے ایسی تمام اشیا اور معلومات کو دور رکھیں جو ان کے
لئے کسی بھی لحاظ سے نقصان دہ ہیں۔ اسی طرح چین میں فیس بک اور دیگر سوشل
میڈیا پر بھی پابندی عائد ہے۔ ملائشیا میں غیر اخلاقی مواد سے متعلق سخت
قانون موجود ہے اور اس قسم کے مواد کو دیکھنے، رکھنے یا اسے نشر کرنے پر ۴
سال تک کی قید دی جاسکتی ہے۔ ملائشیا میں 2005 کے دوران یہ قانون بننے سے
لیکر ابتک سینکڑوں افراد کو سزائیں اور بھاری جرمانے بھگتنا بھی پڑے ہیں۔
اس کے علاوہ سعودی عرب میں فحش نگاری کے خلاف انتہائی سخت قوانین موجود ہیں
اور ان پر عمل درآمد بھی کیا جاتا ہے۔اس حوالے سے ہمارے سیکولر ہمسایہ ملک
بھارت نے خاصے اقدامات کئے ہیں۔ واضح رہے کہ پوری دنیا میں چین اور امریکا
کے بعد ہندوستان انٹرنیٹ صارفین کی تعداد کے لحاظ سے دنیا کا تیسرا بڑا ملک
ہے۔ حال ہی میں بھارت کے چیف جسٹس نے ملک میں تمام غیر اخلاقی ویب سائٹس کو
بند کرنے کے احکامات جاری کئے ہیں۔ اس کے علاوہ انڈین پینل کوڈ کی شق ۲۹۲
ملک میں غیر اخلاقی کتب کی خریدو فروخت، فحش نگاری اور غیر اخلاقی معلومات
کے تبادلے پر بھی پابندی عائد کرتی ہے اور ان جرائم میں ملوث ہونے والے
افراد کو ۲ سال تک کی قید اور بھاری جرمانے کا سزاوار سمجھتی ہے۔عریانیت یا
غیر اخلاقی مواد پھیلانے والی ویب سائٹس کے علاوہ سوشل نیٹ ورکنگ ویب سائٹس
کا بے محابا اور بے لگام استعمال بھی ہمارے یہاں ایک سنگین مسئلے کی صورت
اختیار کرچکا ہے۔ انٹرنیٹ صارفین بخوبی جانتے ہوں گے کہ غیر اخلاقی مواد کو
پھیلانے کے عمل میں غیر اخلاقی ویب سائٹس کے علاوہ سوشل میڈیا کا بھی بہت
زیادہ دخل ہے۔سوشل نیٹ ورکنگ ویب سائٹوں پر ایک اور الزام یہ بھی ہے کہ ان
سے انسانوں کا ’’رائٹ ٹو پرائیویسی‘‘ یعنی حقِ تخلیہ بری طرح متاثر ہواہے،
کیونکہ ان ویب سائٹس کے ذریعے انسان کی ذاتی زندگی کی بہت سی معلومات
لاکھوں افراد تک پہنچتی ہیں جن کی مدد سے کسی بھی انسان کو جذباتی طور پر
پریشان کیا جاسکتا ہے۔ امریکی جریدے نیوز ویک میں شائع ہونیوالی ایک تحریر
کے مطابق سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس لوگوں میں دنیا سے ایک غلط طرح کے رابطے یا
رشتے کا احساس پیدا کرتی ہیں اور اس سے تنہائی پسندی کا رجحان پیدا ہورہا
ہے۔ ان ویب سائٹس کے ذریعے ایک اور انتہائی غیر اخلاقی عمل آن لائن گفتگو
ہے جس کے باعث برائی کا سیلاب مزید تیزتر ہوتا چلا جارہا ہے۔ اب ان ویب
سائٹس کی وجہ سے جو آفات آرہی ہیں ان میں سے ایک بڑی آفت دیگر ممالک کی طرح
پاکستان میں بھی طلاق کے رجحان میں خطرناک اضافے کی صورت میں سامنے آرہی
ہے۔ مصر میں اسی رجحان کو بنیاد بنا کر چند علماء نے متعدد ویب سائٹس کو
حرام بھی قرار دیا ہے۔
بات محض انٹرنیٹ پر موجود غیر اخلاقی مواد، اس تک بلاروک ٹوک رسائی اور اس
میں سوشل نیٹ ورکنگ ویب سائٹس کے منفی استعمال و کردار تک محدود نہیں، بلکہ
کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کا حد سے متجاوز استعمال اور الیکٹرونک میڈیا کے ساتھ
حد سے زیادہ وقت گزارنے کے نتیجے میں ہمارے معاشرتی روئیے اور اقدار تباہ
ہورہی ہیں۔ اس تباہی کی ایک قیمت ہم ادا کررہے ہیں اور باقی ہماری آئندہ
نسلیں ادا کریں گی۔ضرورت اس امر کی ہے کہ انٹرنیٹ کا استعمال ہو یا
الیکٹرہنک میڈیا کا، اس حد تک رکھا جائے جہاں تک یہ مفید رہے، اور غیر مفید
سرگرمیوں کی حکومت نگرانی بھی کرے اور انہیں محدود بھی۔ دوسری جانب یہ بھی
حقیقت ہے کہ محض حکومت کی کوششوں سے یہ معاملہ ختم نہیں ہوگا، بلکہ اسکے
لئے ان تمام لوگوں کو بھی باہم مل کر اپنی اقدار اور روایات کی پاس داری کا
فرض ادا کرنا ہوگا جو اس ملک و قوم کا درد رکھتے ہیں۔ عوامی سطح پر منظم
جدوجہد اور سماجی دباؤ کے تحت جہاں حکومت کو مؤثر اقدامات اٹھانے کے لئے
مجبور کیا جائے وہیں معاشرتی سطح پر عوام میں دین کا شعور بیدار کرنے،
اخلاقی اقدار کے تحفظ اور فحاشی و عریانی کے خاتمے کے لئے انفرادی اور
اجتماعی دائرے میں اصلاحِ معاشرہ پر مبنی منظم اجتماعی جدوجہد بھی ناگزیر
ہے۔معاشرے کی اسلام پسند اور محب وطن قوتوں اور درد دل رکھنے والے عناصر کو
اس کے لئے ہراول دستے کا کردار ادا کرنا ہوگا۔ اگر ہم اخلاقی انحطاط و زوال
سے بچنا چاہتے تو اخلاقی بگاڑ کو ہرسطح پر روکنا ہوگا۔ |
|