اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا
سکتا کہ پاکستان میں گیس کے ان گنت ذخائر موجود ہیں اور ان ذخائر میں
ماہرین ارضیات کے مطابق گیس اتنی وافر مقدار میں پائی جاتی ہے کہ اگر ماضی
کی اور موجودہ حکومتیں اس کی طرف توجہ دیتے تو پاکستان کو کبھی توانائی کے
بحران کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔ گیس کی پیداوار کے لحاظ سے پاکستان کا شمار
بھی دنیا کے اْن ممالک میں ہوتا جو آج گیس برآمد کر کے خطیر زر مبادلہ
کمارہے ہیں۔
یہاں اس امر کا ذکر بے جا نہ ہو گا کہ پاکستان کا شمار پانی، تیل، گیس،
کوئلہ اور دیگر ایسی بیش قیمت معدنیات کے خطیر و وافر ذخائر رکھنے والے
ممالک میں ہوتا ہے۔ اگر اْن کی تلاش اور کھدائی کے عمل کو بروئے کار لا نے
کے لئے دیگر ممالک سے تکنیکی معاونت حاصل کی جائے تو پاکستان نہ صرف
توانائی کی پیداوار اور افزائش میں خود کفیل ہو سکتا ہے بلکہ دیگر ممالک کی
ضروریات پوری کرنے کے لیے گیس اور بجلی برآمد بھی کر سکتا ہے۔
پاکستان کی صنعتوں میں گیس کا استعمال کیا جاتا ہے اسکے علاوہ ٹرانسپورٹ
میں سی این جی استعمال کی جاتی ہے ۔ پاکستان جو گیس کی معدنیات سے مالامال
ہے مگر حکومت کی نااہلی کی وجہ سے یہ وقت آگیا ہے کہ صنعتیں گیس کے بحران
کی وجہ سے بند ہورہی ہیں۔ عوام سی این جی کے لیے ماری ماری پھر رہی ہے۔ہفتے
میں صرف دو دن سی این جی مہیا کی جاتی ہے وہ بھی اگر لائٹ ہوتو لمبی لمبی
لائنوں میں لگ کرایک بار میسر ہوتی ہے۔
سی این جی ہے کیا ذرا اس پر بھی نظر ڈالیں تو آپکوبھی پتہ چل جائے گا۔CNG
سے مراد Compressed Naturla Gas یعنی وہ قدرتی گیس ہے جسے دباؤکے تحت رکھا
گیا ہو۔ عام طور پر یہ دباؤ ہوا کے دباؤ سے 200 گنا زیادہ ہوتا ہے یعنی
200atm ہوتا ہے۔ اسکے مقابلے میں کار کے ٹائر کے اندر ہوا کا دباو صرف 2
atm ہوتا ہے۔سی این جی وہی گیس ہوتی ہے جو عام طور پر گھروں میں چولہا
جلانے کے لیئے پائپ لائن سے آتی ہے اور اسکو کمپریس کرکے گاڑیوں میں
استعمال کے لیے تیار کیا جاتا ہے۔ یہ پٹرول اور ڈیزل کے متبادل کے طور پر
گاڑیوں میں استعمال کی جاتی ہے۔یہ پٹرول اور ڈیزل کے مقابلے میں سستی بھی
پڑتی ہے اسی لیے عوام سی این جی کے حصول کے لیے ماری ماری پھرتی ہے ۔جب تک
یہ سی این جی پمپ کو ملتی ہے توملک بھر میں ٹرانسپورٹ بھی خوب رواں دواں
رہتی ہے مگر جب اس کی بندش ہوجاتی ہے تو نہ صرف گاڑی کے کرایوں میں اضافہ
ہوجاتا ہے بلکہ ٹرانسپورٹ بھی بہت کم ہوجاتی ہے۔
آج میں حسب عادت انٹرنیٹ پر نیوز پڑھ رہا تھا کہ کافی عرصہ غیر حاضر رہنے
والے وفاقی وزیر شاہد خاقان عباسی کی ایک خبر پر نظر پڑی۔ خبریہ تھی کہ’’
15 دسمبر سے فروری تک پنجاب میں صنعتوں کو گیس نہیں ملے سکے گی۔ اس کے
علاوہ ستمبر سے فروری تک سی این جی اسٹیشن کو بھی گیس فراہم نہیں کی جائے
گی۔ ایل این جی آگئی تو سی این جی اور صنعتوں کو گیس سپلائی پر غور کریں
گے‘‘۔
کوئی ان بھولے بادشاہ کو بتائے کہ آپ پہلے کون سی روزانہ سی این جی عوام کو
دے رہے ہو اگر جوتھوڑی بہت گیس دے رہے ہوتووہ بھی اپنے صنعت کاروں کو دے
رہے ہو۔ہر فیکٹری کے مقدر میں گیس کہاں ہے؟حکومت اپنی من پسند فیکٹریوں کو
گیس کی سپلائی دے رہی۔ پاکستان میں بہت سی فیکٹریاں گیس اور بجلی نہ ملنے
کی وجہ سے بند ہوچکی ہیں۔ جس کی وجہ سے ملک بھر میں بے روزگاری میں اضافہ
ہوگیا ہے۔ جس ملک میں پہلے ہی بیروزگاری کا بحران ہو وہاں پر بجائے کوئی
اچھا اقدام اٹھانے کے عباسی صاحب گیس بند کرنے کی خوشخبری سنا رہے ہیں۔
جہاں ہمارے حکمران میٹروٹرین اور میٹروبس پر اتنا خرچہ کررہے ہیں اگر اس کی
جگہ گیس دریافت کرنے اور بجلی کی پیداوار بڑھانے پر خرچ کرتے تو اس سے نہ
صرف ملکی معشیت میں اضافہ ہوتا بلکہ بیروزگاری پر بھی قابو پایا جاسکتا ہے۔
مجھے یاد ہے پچھلے سال بھی حکومت نے موسم سرما شروع ہونے سے پہلے بھی عوام
اور انڈسٹریز کو اس قسم کی تکلیف دی تھی۔ سال گزرنے جانے کے باوجود ہمارے
حکمرانوں نے اس کے لیے کوئی خاطر خواہ اقدام نہیں اٹھائے۔حکومتی رویے سے
لگتا ہے کہ انہوں نے ان بحران سے عوام کو نکالنے کے لیے کچھ نہیں کرنا بس
اب دور پورا کرکے چلے جانا ہے۔ اگر حکومت واقعی ملک کے لیے کچھ کرنا چاہتے
ہیں تو سب سے پہلے بجلی اور گیس کے بحران پر خصوصی توجہ دینا ہوگی ورنہ ملک
کی معشیت اسی طرح دلدل میں پھنسی رہے گی اور عوام ہر بار کی طرح ذلیل خوار
ہوتی رہے گی۔ |