قائد کی تلاش

موجودہ دور کی ترقی کے ساتھ ساتھ قومی اور معاشرتی ماحول کے تقاضے بھی بدلتے جارہے ہیں ۔ اس کے نتیجے میں مصروفیت بڑھ گئی ہے۔ یہ مصروف رہنا کام کی وجہ سے بھی ہے لیکن جن کے پاس ملازمت نہیں ہے وہاں انٹر نیٹ ، ٹی وی اور موبائل کا استعمال ایک عادتِ ثانیہ ہے اور خاندان کے افراد میں دوری کا سبب بن رہا ہے۔ گویا کہ جہاں اس مادی ترقی کے ثمرات ہیں وہیں اس کے معاشرے پر منفی اثرات بھی ہیں ۔

خاندان کا سربراہ ایک کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔ ہمارے مذہبی اور تہذیب و تمدن کے تقاضوں کے مطابق گھر کے سربراہ کی بڑی قدرو منزلت ہے۔ خاندان کا بڑا ہونے کے ناطے اسے سب کے ساتھ انصاف کے ساتھ فیصلے کرنا ہوتے ہیں اور ہر فیصلے میں خاندان کی عزت ووقار کا خیال رکھنا ہوتا ہے۔ اسے گھر کا قائد اور راہنما تصور کیا جاتا ہے ۔ اس پر اعتماد کیا جاتا ہے ۔ سبھی کو یہ اُمید ہوتی ہے کہ وہ سب سے اچھا فیصلہ کرے گا اور مشکل معاملات کو سُلجھالے گا۔ گھر کے سربراہ کا فیصلہ چاہے اچھا لگے یا بُرا اسے سب تسلیم کرنا ہوتا ہے ۔ اسی طرح گھر کا امین بھی سمجھدار اور دُور اندیش ہوتا ہے ۔ وقت اور تجربات نے اسے بہت کچھ سِکھا دیا ہوتا ہے۔ ذمہ داریوں نے اسے دوسروں کی ضرورت اور رویے سمجھنے میں مدد کی ہوتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے فرائض کو احسن طریقے سے ادا کرنے کے لئے دوسروں کے جذبات اور وقت کی ضرورت کے پیش نظر اپنی ذاتی پسند اور ناپسند کے بجائے فرد اور خاندان کی عزت و وقار کو مقدم رکھتا ہے ۔ گھر اور خاندان کے ماحول میں امن و امان قائم رکھنا ، سب کو خوش رکھنا اور حالات کے مطابق سب کی ضروریات کا خیال رکھنا ایک چھوٹا سا پیمانہ ہے یہ دیکھنے کیلئے کہ انسان کتنی معاملہ فہمی اور قوت برداشت کے ساتھ روزمرّہ کے معاملات کو سُلجھا تا ہے۔ ان تمام معاملات کو احسن طریقے سے ادا کرنے کیلئے جو سب سے زیادہ ضروری عنصر ہے وہ ہے باہمی اعتماد اور رکھ رکھاؤ۔ خاندان کے تمام افراد اس پر اعتماد کیوں کرتے ہیں؟ اس لئے کہ انہیں معلوم ہے کہ وہ دونوں فریق کی بات سُن کر ، رائے لے کر سب کے جذبات کا احساس کرتے ہوئے خاندان کے اتحاد اور وقار کے لئے بہترین فیصلہ کرے گا۔ اس کا سچ، حوصلہ اور ڈھال کی طرح اپنے خاندان کی حفاظت کرنا ہی اس پر اعتبار کرنے کی وجہ ہے۔

اگر اس کنیو کس کو بڑا کر لیاجائے تو ادارے اور ملک کی نگہبانی آجاتی ہے ۔ ملک کا سربراہ بھی گھر کے سربراہ کی طرح ہوتا ہے۔ اس کی کابینہ کے افراد بھی گھر کے افراد کی طرح ہوتے ہیں ۔ جس طرح گھر کے افراد اپنے سربراہ کے قریب ہونے کے لئے خوشامد کرتے ہیں ، اچھا بننے اور خود کو اچھا پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ دوسروں کی شکایت کرتے ہیں ۔ یہ سب کچھ ملکی سطح پر بھی سربراہ کے ساتھ ہوتا ہے ۔ گھر کا سربراہ جس طرح اپنے تجربے ، دوسروں کے مشورے سے معاملات کو سُلجھاتا ہے یہاں پر بھی معاون، وزیر اور مشیر یہ کام سر انجام دیتے ہیں ۔ جس طرح گھر کا سربراہ اندازہ لگا لیتا ہے کہ کہاں پر سچ اور جھوٹ سے کام لیا جاتا ہے اسی طرح ملکی اور قومی امور میں بھی ذہانت ، معاملہ فہمی اور دور اندیشی کی ضرورت ہوتی ہے ۔ جس طرح گھر کا سربراہ پہلے ہی مرحلے پر جھوٹ اور منافقت کو ردّ کر دیتا ہے اسی طرح ملک کے سربراہ کو بھی ایسے لوگوں سے بچ کر رہنا چاہیے جو خوشامد اور غلط بیانی سے معاملات کی صحیح تصویر کشی نہیں کرتے اور انہیں اُلجھا دیتے ہیں ۔قائداعظم کے قائد ہونے کی سب سے بڑی وجہ ان کے اندر قوم کا درد تھا۔ ملک و قوم کے لئے بہت کچھ کرنے کا جذبہ تھا۔ نیت نیک تھی تو عمل بھی مثبت تھا۔ سچ بولنے کی وجہ سے عزت و مقام تھا۔ ذہانت اور معلومات کی وجہ سے رعب و دبدبہ تھا۔ معاملہ فہمی اور انصاف کرنے کی وجہ سے بھر پور اعتماد تھا۔

آج ہمارے ملک میں مسائل صرف اس لئے بڑھ رہے ہیں کہ ووٹ لے کر آنے والے سیاست دان تو بہت ہیں لیکن لیڈر اور قائد بننے کے لئے کوئی بھی تیار نہیں ۔ عام تاثر یہ ہے کہ جو بھی آتا ہے ماضی کو ساتھ لے کر آتا ہے۔ اپنے ذاتی عناد اور ذاتی سوچ کو کنٹرول نہیں کر پاتا۔ ملک اور قوم کے معاملات کو بہتر بنانا چاہتا ہے لیکن تنگ نظری ، ذاتی مفاد اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ارد گرد کے مفاد پرست لوگ اسے ان معاملات پر سوچنے کا موقع نہیں دیتے ۔ وہ اپنے لوگوں سے دُور ہوجاتا ہے جن کے لئے اس نے اس منصب کو حاصل کیا ہوتا ہے ۔ لوگوں کے مسائل اور ضروریات سے لاعملی اس کے فیصلوں پر اثر انداز ہوتی ہے اور اس طرح اچھے بُرے فیصلے اسے کبھی ایک بحران اور کبھی شدید مذامت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ آجکل کے ماحول میں لیڈر کے لئے یہ بہت ضروری ہے کہ وہ وزیر اور مشیر بہت سوچ سمجھ کے رکھیں ۔ کیونکہ یہی وہ لوگ ہیں جن کی وجہ سے ملک وقوم کو فائدہ بھی ہوسکتا ہے اور نقصان بھی۔

کہا جاتا ہے کہ لیڈر بنتے نہیں پیدا ہوتے ہیں ۔ لیکن اگر وا ٹسن کی فلاسفی سامنے رکھی جائے کہ بچے کو ماحول کے مطابق کچھ بھی بنایا جا سکتا ہے تو پھر لیڈر ہر وہ شخص بن سکتا ہے جسے ایسا ماحول ملے جو اس کے اندر کی صلاحیتوں کو جِلا بخشے۔ ہم قائد کی تلاش کرنے کے بجائے اپنے ارد گرد اور خود اپنی ذات میں قائد تلاش کیوں نہیں کرتے ؟ ہر شخص میں اگر قائدانہ صلاحیت ہے تو پھر وہ کم از کم اپنی ذات اور اپنے ارد گرد کے ماحول کو تو سنبھالے اگر وہ اپنے آپ سے سچ بولے تو دوسروں کے ساتھ بھی سچ بولے گا۔ اپنے فائدے کے لئے سوچے تو دوسروں کے فائدے کے لئے بھی سوچے ۔ اپنے لیے جو پسند کرے تو وہی دوسروں کے لئے پسند کرے۔قائد وہ شخص ہوتا ہے جو اعلیٰ مقاصد کیلئے قربانی دے سکے اور اس کے باوجود اس کی عزت نفس اور حوصلے میں کمی نہ آئے۔ اسکول میں ایک طالب علم کو جب اپنی جماعت کا نمائندہ بنایا جاتا ہے تو وہ ان طالب علموں کا لیڈر ہے۔اسی طرح ہر ادارے کا سربراہ لیڈر ہے کیونکہ ادارے کے تمام لوگ اچھے بُرے وقت میں اس کے فیصلوں کے منتظر ہوتے ہیں ۔ وہ اپنے ادارے اور لوگوں کے مفاد میں بہترین فیصلے کرتا ہے جو ادارے مستحکم ہیں ان کی صرف ایک ہی وجہ ہے کہ وہ اپنے سربراہ پر اعتماد کرتے ہیں اور وہ جو کہے ان پر عمل کیا جاتا ہے۔ سربراہ بھی اپنے لوگوں کے ساتھ مسلسل رابطے میں رہتا ہے۔ ان سے خود جاکر ملتا ہے۔ لوگوں کے احساسات ، ضروریات اور جذبات سے واقف ہوتا ہے۔ اس طرح اس کے فیصلوں سے باہمی رشتہ مضبوط ہوتا ہے۔

قائد فرشتے نہیں ہوتے ہماری طرح انسان ہوتے ہیں ۔ بس فرق صرف اتنا ہے کہ ان میں حوصلہ ، ذہانت ، معاملہ فہمی، دوراندیشی اور قوت برداشت عام آدمی سے زیادہ ہوتی ہے اور انہیں معاملات کو سلجھانے کا سلیقہ بھی خوب آتا ہے۔
 
Anwar Parveen
About the Author: Anwar Parveen Read More Articles by Anwar Parveen: 59 Articles with 39958 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.