آج سیاسی اشرافیہ جو سیلاب میں
بہہ جانے والوں کے غم میں گھلی جارہی ہے ‘درحقیقت یہ اپنی بچی کچھی ساکھ کے
بچاؤ میں سرگرم عمل ہے ۔قیام پاکستان سے لیکر آج تک قائد اعظم محمد علی
جناح اور لیاقت علی خان کا دور نکال کے‘ جنھیں حالات نے ملک و ملت کی مزید
خدمت کا موقع نہ دیا ‘ملوکیت کی طرز پر مختلف نظام ہائے حکومت پاکستان میں
جاری و ساری ہیں کہ جن کو ہم صرف آمریت یا جمہوریت نہیں بلکہ اگر براہ راست
ملوکیت ہی کہہ دیں تو اس میں کوئی مزائقہ نہیں اوران ملوکیت کے ا دوار میں
کوئی ایسا حکمران پیدا ہی نہیں ہوا ہے جو اپنی نیندوں ،سکون اورآرام کو
عوام کے لیے قربان کر دے ۔اگر ایسا ہوتا توآج سیلاب سے غریب تنکوں کی طرح
نہ بہہ جاتے ۔آج ہم یہ نہ کہتے کہ سیلابی ریلا تباہی کی نئی داستانیں رقم
کرتا مسلسل آگے بڑھ رہا ہے ‘زندگی موت سے نبرد آزما ہے ‘کسی کا آشیانہ
بکھرا اور کسی کا خواب ‘کسی کا اپنا بچھڑا اور کسی کا سہارا‘کوئی پیاروں کے
غم میں تو کوئی پیاروں کو بچاتے ہوئے ڈوب گیا ،قیامت ڈھاتا یہ ریلا ابھی
بھی زندگیوں کے چراغ گل کرنے اور رشتوں کے بندھن توڑنے کے در پے ہے ۔زندگی
کی جمع پونجی پل بھر میں ڈوب گئی ،سینکڑوں دیہات زیر آب آگئے ،مکانات بہہ
گئے ،طلاطم خیز موجوں اور بپھری ہوئی لہروں کے سامنے کسی کی نہ چلی ۔موجوں
کے طمانچے کھاتے جو خوش نصیب بچ گئے ہیں وہ افلاس ، تنگی ،بیماری اور بروقت
امداد نہ پہنچنے کے باعث اب آخری سانسیں گننے پر مجبور ہیں ۔کہا جا رہا ہے
کہ حالیہ سیلاب سے ہونے والے مالی نقصان کا اندازہ تب ہوگا جب دریا پر سکون
ہوں گے اور پانی اپنی سابقہ سطح پر چلا جائے گا ۔مگر سوال یہ ہے کہ ہم نے
ماضی سے سبق کیوں نہیں سیکھا ؟
پاکستان میں 2010ء میں جو سیلاب آیا تھا اس کی تباہ کاریوں کی تحقیقاتی
رپورٹ آج تک منظر عام پر نہیں آئی اس سے بڑھ کر ظلم کیا ہوگا کہ جسٹس منصور
علی شاہ کی سر براہی میں صوبائی فنڈ کمیشن تشکیل دیا گیا جس میں انھوں نے
محکمہ آب پاشی کو سیلاب سے ہونے والے نقصانات کا ذمے دار قرار دیا تھا ۔اس
وقت کے سیکرٹری آب پاشی کو برطرف کرنے اور چیف میٹرولوجسٹ اور ڈی جی
میٹرولوجیکل ڈیپارٹمنٹ کے خلاف سخت گھیر کاروائی کرنے کی سفارش کی تھی
۔کمیشن نے یہ بھی قرار دیا تھا کہ سیلاب کنٹرول کرنے کی تمام تر ذمہ داری
پنجاب حکومت ،قومی قیادت ،منصوبہ سازوں اور فلڈ مینیجرز پر عائد ہوتی ہے
۔کمیشن نے یہ بھی قرار دیا کہ آفت زدہ اور سیلاب والے علاقوں میں چونکہ
وزیروں ،مشیروں ،صوبائی اور وفاقی اعلیٰ عہدے داران کی آمدورفت سے متاثرین
کی امداد اور متفرق سہولیات فراہم کرنے میں دقت پیش
آتی ہے لہذا اس پر قابو پانا چاہیئے ۔لیکن دکھ کی بات یہ ہے کہ پنجاب حکومت
نے ذمہ داران کو سزاوار ثابت ہوجانے کے باوجود انھیں ان کے عوامی اور ملی
گھناؤنے جرم کی سزا دینے کی بجائے ترقیاں دے کر پہلے سے بھی اعلیٰ عہدوں پر
فائز کر دیا ۔اب پھر ہائیکورٹ میں معاملہ زیر غور ہے کہ سیلاب میں غفلت
برتنے والوں اور ذمہ داروں کے خلاف کاروائی کی جائے اور جانی ا ور مالی
نقصان کا ازالہ کیا جائے ۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ سیلاب ہر سال متوقع ہوتا ہے اور بدلتی ہوئی اور
غیریقینی موسمی صورت حال نے دنیا کو شدید موسمی خطرات اور آفات کا آسان
شکار بنا دیا ہے ۔پاکستان ان میں سے ایک ہے جو کہ اس لحاظ سے کمزور ترین
ملک ہے ‘اب صورت حال یہ ہے کہ ہر سال آنے والے سیلاب کا پانی نہ صرف یہ کہ
بہہ کر ضائع ہوجاتا ہے بلکہ اس سے جتنے زیادہ جانی و مالی نقصانات ہوتے ہیں
ان کا صحیح معنوں میں اندازہ کرنا بے انتہا مشکل ہے جبکہ متاثرین کی امداد
ایک وقتی ڈھونگ ہوتا ہے جو تازہ ہوا کے جھونکے کی طرح کسی تک پہنچا نہ
پہنچا۔حتی کہ چارو لاچار ہو کرمتاثرین ازخود ہی اپنے پاؤں پر کھڑا ہونا
شروع کر دیتے ہیں ۔جبکہ دوسری طرف سیاسی اشرفیہ اور نام نہا داکثرNGOs ہر
طرف فوٹو سیشن کی تقریبات اور جھوٹی شہرت و ناموری کے جھنڈے گاڑھنے میں
مصروف رہتے ہیں ۔جس سے متاثرہ افراد میں ملک و قوم کے لیے بے یقینی اور
بغاوت کی وبا جنم لیتی ہے جو کہ بعد ازاں بہت سے نقصانات کا باعث بنتی ہے
۔جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ملک کئی گناہ اور خسارے کا شکار ہو جاتا ہے ۔جبکہ
چاہیئے تو یہ کہ قدرتی آفات سے بچاؤ کے شعبے اور ڈئیزاسٹر ریلیف کا موجودہ
ماڈل تبدیل کیا جائے ۔بہت سی این جی او ز اور بین الاقوامی تنظیمیں تعمیر
نو کا نیک مقصد لیکر جو سامنے آتی ہیں ان کے منصوبوں کی سخت نگرانی ہو
کیونکہ ان کا مقصد تاحال مال بناؤ اور وقت ٹپاؤ پالیسی کے سوا کچھ نہیں
ہوتا۔حالنکہ اگر طویل المدت منصوبے بنا کر اس سیلاب کے پانی کو اسٹور کیا
جائے اور اس پانی سے ڈیم بنا کر بجلی کی لوڈ شیڈنگ ختم کی جائے تو ملکی
معشیت بڑی تیزی سے سنبھل جائے گی جبکہ اس پانی کو آب پاشی کے لیے نہریں
،ندی ونالے بنا کر وسیع پیمانے پر نہری آب پاشی کر کے ملک میں اناج کی پیدا
وار بڑھا کر پاکستان اپنے لیے زرعی اجناس برآمد کر کے زر مبادلہ کما سکتا
ہے ‘جس سے نہ صرف ملک خوشحال ہوگا بلکہ ہر طرف خوشی اور ترقی کی لہر دوڑ
جائے گی‘ لیکن یہ سب کچھ اس وقت تک ممکن نہیں جس وقت تک حکومتی عہدے داران
اور تمام ذمہ داران ملک و ملت کے ساتھ مخلص ہو کر منصوبہ بندی اور ان پر
عمل درآمد نہ کریں ۔ملکی حالات کو بہتر کرنے کے لیے سیاستدانوں کو اب اپنے
اپنے مفادات اور ضدوں کی قربانی دینا پڑے گی ۔ مگر مقام افسوس یہ ہے آج بھی
صرف بیان بازی اور مقابلہ بازی میں وقت ضائع کیا جارہا ہے ۔پاکستان عوامی
تحریک پنجاب کے صدر چودھری بشارت عزیز جسپال نے کہا کہ بھارت نے آبی دہشت
گردی نواز شریف کی اپیل پر کی ہے تاکہ اسلام آباد میں حکومت کے خلاف جاری
دھرنے سے عوام اور میڈیا کی توجہ ہٹائی جا سکے ۔اور دوسری طرف سے کہا گیا
کہ دھرنوں میں ہونے والی فحاشی سیلاب اور عزاب کا باعث ہے ۔یعنی ایسے وقت
میں جب سب کو مل جل کر تمام منفعت بھلا کر ملک و قوم کی فلاح و بہبود کے
لیے کام کرنا چاہیئے اس میں بھی جنگ و جدل جاری ہے ۔یعنی ادھر سیلاب ہے تو
ادھرسیاسی بحران نے ایک طوفان اٹھا رکھا ہے ۔مسلم لیگ (ن) کی ٹیم کو اس بات
کاادراک ہی نہیں ہے کہ کہ انھوں نے سیاسی تنازعہ حل کرنے اور افہام و تفہیم
کروانے کے لیے ایسے موقع شناس اور سیاسی مفاد پرست ماہرین کو چودھری بنا
دیا ہے کہ جنھوں نے چالیس روز گزر جانے کے باوجود بھی اس سیاسی تنازعہ کا
حل نہیں کیا مگر اپنی سیاسی دوکانداری خوب چمکا لی ہے ان کی طرف سے مقرر کر
دہ ثالث شخصیات آج سیاسی سٹیج پر کھڑے ہو کر بر ملا کہہ رہی ہیں کہ ملک میں
جاری نظام حکومت غلط ہے یہ کوئی جمہوریت نہیں ہے اور اس جمہوریت کے پورے
تسلسل میں تمام اداروں کو برباد کر دیا گیا ہے ۔ان کے الزامات کی زد میں
مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی آتی ہیں ۔ قصہ مختصر وہ تمام الزامات جو
تحریک انصاف اور عوامی تحریک نے موجودہ حکومت پر لگائے ہیں یہ ثالث جماعتیں
اعلانیہ طور پر کہہ رہی ہیں اورساتھ یہ عندیہ بھی دے دیاہے کہ اگر عوام
انھیں اپنے اوپر حکمرانی کرنے کا موقع دیں تو ان دونوں حکومتوں کا وہ
احتساب کریں گے جو کبھی کسی نے نہ کیا ہو ۔ یہ بات وثوق سے بطور پیشین گوئی
کہی جاسکتی ہے کہ موجودہ حکومت کی بقاء یقینی طور پر خطرے میں ہے ۔ہر سیاسی
جماعت کو اپنی سیاسی مہم عروج پر لے جانے کی فکر لاحق ہو چکی ہے ۔پیپلز
پارٹی ،جماعت اسلامی اور متحدہ قومی موومنٹ با قاعدہ طور پر حرکت میں آچکی
ہیں اور دنیا کو یہ پیغام مل رہا ہے کہ جیسے موجودہ حکومت کی بقاء کے بارے
میں پاکستان کی سیاسی جماعتیں خدشے کا شکار ہو چکی ہیں ۔
یہ نوشتہ دیوارہے کہ اگر اخلاص پر مبنی منصوبہ بندیا ں نہ ہونگی تو سیاسی
بحران اور سیلاب ملکی معشیت کے لیے ہر گھڑی خطرناک ثابت ہونگے۔ ایسے گھمبیر
حالات میں ہماری خوش قسمتی ہے کہ ہماری پاک افواج آئین کی پاسداری کے لیے
پر عزم ہیں مگر لیڈران کے پاس مخلص ہونے کے لیے فی الحال کوئی عزم نظر نہیں
آتا اور اگر ہر کوئی پر عزم ہوجائے تو وہ دن دور نہیں ہے جب پاکستانی
کہلانا پوری دنیا میں باعث عزت و افتخار ہوگا مگر آج بہت جگ ہنسائی ہو رہی
ہے کیا ہمارا عزم صرف برسر اقتدار رہنا یا کاوش ِحصول اقتدار کرنا یا پھر
کسی کا اقتدار بچانا ہے؟ ملک و ملت سے اخلاص ہمارے پاس کہاں ہے ؟آج عوام
سراپا سوال ہیں کہ
اک طرف طوفان ہے تو اک طرف سیلاب ہے
بول اے جمہوریت!کس کی طرف داری کریں |