حیرت کدہ جہاں ھے تو حیرستان ھے
یہ ملک ۔ وہ عجب معاملات چل رھے ھیں جو کبھی دیکھے نہ سنے ۔ دو متضاد سوچ
کی مالک شخصیات دارالحکومت کے حساس ترین حصے میں دھرنے دئیے بیٹھی ھیں ۔تو
مقتدر طبقات کے وہ عناصر جنہیں اپنا سکھ چین چھنتا دکھائی دے رہا ھے ،بھلے
وہ ابھی اقتدار میں ھیں یا نہیں ھیں ، جوابی کاروائی کے طور پہ ملک بھر میں
ریلیاں نکال رھے ھیں ۔ اور بیچارے عوام دونوں صورتوں میں رگیدے جا رھے ھیں
۔ یہ ھے ہی وہ بدنصیب مخلوق جو آغاز ہی سے پسماندہ ھے اور آج پسماندہ ترین
ھو چکی ھے ۔ زندگی کی ہر راحت اس پہ حرام ھے اور اشرافیہ کی غلامی اس کا
مقدر ۔ دن رات کی غلامی پہ مستضاد یہ کہ جب بھی اپنا الو سیدھا کرنا مقصود
ھو ۔ اشرافیہ اسے سڑکوں پہ گھسیٹ لاتی ھے ۔یعنی اس ملک میں یہ طے کر لیا
گیا ھے کہ حکمرانی اور ملک کے تمام تر وسائل طاقتور طبقے کے لئے مخصوص ہیں
اور عوام بھیڑ بکریوں کا ایک ایسا گروہ ھیں جنہیں اللہ نے اشرافیہ کی غلامی
کے لئے اس دنیا میں بھیجا ھے ۔ البتہ گاھے بگاھے کچھ لوگ عوام کی فلاح کا
نعرہ لے کر اٹھتے رہیں ھیں لیکن خلقت کی بے پناہ محبت اور قربانیوں کے
نتیجے میں وہ جونہی اونچے محلات کے مکین ھوئے تو ایک ہی منظر سامنے آیا
یعنی ہر کہ در کان نمک رفت نمک شد اور عوام کے نصیب میں وہی زلتیں وہی
خواریاں ۔
ہاں عمران خان نے سیاست میں قدم رکھا تو امید بندھی کہ متوسط طبقے سے اٹھنے
والا یہ سچا اور کھرا شخص عوام کا نجات دھندہ ھو سکتا ھے ۔ عام انتخابات
میں اسکی جماعت دوسری سب سے زیادہ ووٹ لینے والی جماعت ثابت ھوئی اور صوبہ
خیبر میں حکومت بنانے میں کامیاب رہی ۔مثبت سوچ رکنھنے والے دردمند حلقوں
کے نزدیک انتخابی نتائج بہت معنی خیز تھے ۔ پیپلز پارٹی سندھ میں،ن لیگ
مرکز اور پنجاب میں ، بلوچستان میں بلوچ سربراہی اور پختون خواہ میں تحریک
انصاف ۔یعنی پانچ سال تک امن وسلامتی۔ اسکے بعد جسکی کارکردگی سب سے اچھی
ھو اگلے الیکشن اسی کے ۔ امید واثق یہی تھی کہ تحریک انصاف اپنے صوبے میں
ایک ماڈل حکومت قائم کرنے میں کامیاب رھے گی اور اگلے انتخابات میں پورے
ملک میں کامیابی حاصل کرے گی اور ہم ایک پر امن انقلاب کے دریعے ایسی حکومت
پا لیں گے جو عوام کی قسمت بدل دے ۔ لیکن پاکستانی ایسا نصیب نہیں لائے کہ
سکھ چین کا خواب بھی دیکھ سکیں ۔ وجہ خواہ کتنی معقول ھو پر حقیقت یہ ھے کہ
عمران غلط گاڑی پہ سوار ھو چکا ھے ۔ دوسری جانب قادری صاحب جانے کس مقصد کی
خاطر بار بار ملک میں دھماکے دار انٹری دیتے ہیں ۔ اس مرتبہ تو وہ لاشیں
حاصل کرنے میں بھی کامیاب رھے ہیں سو ان کا شو شاندار جا رہا ھے ۔ حالانکہ
ان کا شمار قرآنی اصطلاح میں مترفین میں ھے یعنی وہ لوگ جو خود محنت نہیں
کرتے اور دوسروں کی کمائی پہ بہترین زندگی گزارتے ھیں ۔ دونوں طرف سے
انتہائی خوبصورت وعدے کیئے جا رھے ھیں ،خواب دکھائے جا رھے ھیں جو ہماری
شخصیت پرست قوم کو بے حد بھاتے ھیں اور وہ بار بار دھوکہ کھاتی ھے کہ بلند
و بالا بت اسکی کمزوری ھیں ۔ حالانکہ یہ وقت ھے کہ اندھے اعتماد کے بجائے
قوم کی مسیحائی کے دعویداروں سے مندرجہ ذیل سوالات کیے جائیں ۔
1: انقلاب کے دعویدارو ! تمہارے دھرنوں میں چوہدری برادران،گرگ باراں دیدہ
شیخ،کھر، جاگیردار،وڈیرے اور مخدوم کیوں نظر آرھے ھیں ۔ یہ وہ شاطر طالع
آزماء ھیں جو نسل در نسل قوم کا خون چوستے آ رھے ھیں اور ہر پچھلی حکومت
میں ہم انہیں دیکھتے رھے ھیں ؟
2: دھرنوں کے سربراہوں کا دعویٰ ھے کہ وہ عوام کی بھلائی کے لئے سڑک پہ آئے
ھیں ۔ اگر ایسا ھے تو ان کے لئےپر تعیش کنٹینر کیوں بنائے گئے ھیں ۔ کیا
انہیں عوام کے ساتھ بارش،دھوپ اور حبس برداشت نہیں کرنا چاہیے تھا ۔ وہی
خوراک اور پانی استعمال نہیں کرنا چاہیے تھا جو عوام کر رھے ھیں ؟
3: ان دھرنوں پہ جو بے تحاشہ پیسہ خرچ ھو رہا ھے وہ کہاں سے آ رھا ھے کہ
دونوں لیڈر دعویدار ھیں کہ وہ کوئی اثاثے نہیں رکھتے ؟
4: اس بات کی کیا ضمانت ھے کہ ان دھرنوں کے فوائد کسی اور کی جھولی میں
نہیں جا گریں گے یا قادری اور عمران کے درمیان اقتدار کی جنگ نہیں چھڑے گی
؟
5: اور اس امر کی ضمانت بھی کون دے گا کہ قوم کی قسمت کے نئے ٹھکیدار قومی
وسائل کو عوام کی امانت سمجھیں گے اور پر تعیش کلچر اس ملک سے رخصت ھو جائے
گا ؟
اے ملک کے جوانو ! زندگی صرف رقص و سرود کا نام نہیں ۔ تم پڑھے لکھے ھو ۔
باشعور ھو ۔ کچھ مستقبل کا بھی سوچو ۔
اے دھرنوں کا جواب ریلیوں سے دینے والو !یہ مسئلے کا حل نہیں ۔ کچھ ھوش کے
ناخن لو ۔ سنجیدگی اختیار کرو ۔ وقت کا ریلا تیزی سے گزر رہا ھے اور
پاکستان کے گرد ان گنت لالچی آنکھیں اور بھوکے دہہن نگران ھیں ۔
بے وقار آزادی ہم غریب ملکوں کی ۔ تاج سر پہ رکھا ھے بیڑیاں ہیں پاؤں میں |