منڈی بہاؤالدین کی سیاست اور عوام کے مسائل
(Tajamul Mehmood Janjua, )
یوں تو ارض پاک میں ہر سمت
پریشانیوں اور مصیبتوں کا بسیرا نظر آتا ہے ، کبھی ڈرون حملوں اور خود کش
بم دھماکوں کی صورت میں تو کبھی مہنگائی، لوڈشیڈنگ، بے روزگاری،کرپشن اور
قدرتی آفات کی صورت میں۔مگر میرا موضوع بحث آج پنجاب کا ضلع منڈی بہاؤالدین
ہے۔ اسلام آباد سے ایک سو ستر کلومیٹر کے فاصلے پر واقع اس ضلع کو 1506ء
میں پنڈی بہاؤالدین کہا جاتا تھا۔ انگریز نے جب برصغیر پر قبضہ کیا تو اس
پورے ریجن کو گوندل بار کا نام دیا اور اسے اکاون چکوک میں تقسیم کیا۔ چک
نمبر اکاون جو بنیادی طور پر پنڈی بہاؤالدین تھا، اپنی غلہ منڈی کی وجہ سے
1937 میں منڈی بہاؤالدین کہلایا۔ 1993میں منڈی بہاؤالدین کو ضلع کا درجہ دے
دیا گیا۔ اس کا کل رقبہ دو ہزار چھ سو تہتر مربع کلومیٹر ہے۔ 2013 تک کے
اعدادو شمار کے مطابق ضلع منڈی بہاؤالدین کی کل آبادی ساڑھے چودہ لاکھ ہے۔
2013 کے الیکشن میں پاکستان مسلم لیگ ن نے ضلع میں کلین سویپ کیا جبکہ اس
سے پہلے 2008میں پاکستان پیپلز پارٹی نے تمام سیٹیں اپنے نام کی تھیں۔
مجموعی طور پر یہاں مورو ثی سیاست کا راج ہے۔ 2008میں قومی اسمبلی کے حلقہ
109 سے پی پی پی کے نذر محمد گوندل کامیاب قرار پائے ۔ ان کے بھائی
ذوالفقار گوندل صوبائی و قومی اسمبلی جبکہ برادر نسبتی محمد افضل چن کئی
مرتبہ صوبائی اسمبلی کے ممبر رہ چکے ہیں۔ محمد افضل چن کے بیٹے ندیم افضل
چن قومی اسمبلی اور وسیم افضل چن صوبائی اسمبلی کے ممبر رہے۔
ایک طرف جہاں مذکورہ ضلع کے عوام مسائل در مسائل کا رونا روتے نظر آتے ہیں
تو دوسری طرف یہاں سے منتخب نمائندگان پر دولت کی دیوی کافی مہربان نظر آتی
ہے۔اس کی ایک واضح مثال قومی اسمبلی کے حلقہ 109 سے 2008 میں منتخب ہونے
والے نذر محمد گوندل کی ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق 2008 میں ان کے اثاثوں
کی مالیت گیارہ کروڑ تینتیس لاکھ روپے تھی جو 2011 میں بڑھ کر سترہ کروڑ
چھتیس لاکھ روپے تک جا پہنچی۔ یعنی ان کے اثاثوں میں تین سال کے مختصر عرصہ
میں تقریباً چھ کروڑ روپے کا اضافہ ہوا۔
اگر منڈی بہاؤالدین کے عوام کے مسائل کی بات کی جائے تو یہ ایک بہت لمبی
فہرست ہے لیکن دو اہم ترین ضروریات صحت اور تعلیم کا ذکر کروں تو ان کی
حالت ناقابل بیان ہے۔ گزشتہ سال کے اختتام تک ضلع میں قائم سکولوں کی کل
تعداد نو سو انہتر ہے ۔اس کے علاوہمنڈی بہاؤالدین میں سولہ کالج بھی موجود
ہیں جبکہ کوئی یونیورسٹی قائم نہیں کی گئی۔ ضلع کے اساتذہ کی کل تعداد سات
ہزار سات سوہے۔یعنی اگر یہ فرض کر لیا جائے طلباء کل آبادی کا تیس فیصد ہیں
تو یہاں چار سو پچاس بچوں کے لئے ایک سکول اوردو سو بچوں کے لئے ایک سکول
موجود ہے۔ تعلیم کی اس ابتر صورت حال کے باوجود اس زرخیز مٹی نے مستنصر
حسین تارڑ جیسے لیجنڈ پیدا کئے۔
اگر صحت کے حوالہ سے دیکھا جائے تو ضلع منڈی بہاؤالدین میں دو بڑے ہسپتال،
دو سیکنڈری ہسپتال، انچاس بنیادی مرکز صحت، نو مراکز صحت، سترہ سول
ڈسپنسریاں قائم ہیں۔ سرکاری ہسپتالوں میں بستروں کی کل تعداد ایک سو ساٹھ
ہے یعنی نو ہزار افراد کے لئے ایک بستر۔ ضلع بھر میں ڈاکٹروں کی کل تعداد
ستاون ہے یعنی نو ہزار افراد کے لئے صرف ایک ڈاکٹرموجود ہے۔ ڈسٹرکٹ
ہیڈکوارٹر ہسپتال میں تعینات ڈاکٹر ہسپتال میں مریضوں کا چیک اپ کرنے کی
بجائے اپنے پرائیویٹ کلینکس اور ہسپتالوں میں پریکٹس کر رہے ہیں۔ سرکاری
ہسپتالوں میں ادویات دستیاب نہ ہیں جس سے مجبوراً غریب مریضوں کو باہر سے
ادویات خریدنا پڑتی ہیں۔ کروڑوں روپے کی لاگت سے چلڈرن ہسپتال قائم تو کر
دیا گیا ہے لیکن تاحال کوئی ڈاکٹر تعینات نہ کیا جا سکا ہے اور عارضی
تعیناتی کر کے ’’ڈنگ ٹپائے‘‘ جا رہے ہیں۔ بنیادی مراکز صحت کی حالت بھی کچھ
ایسی ہی ہے۔
اس کے علاوہ ضلع کے بیشتر علاقوں میں زیر زمین پانی بھی آلودہ ہو چکا ہے جس
کی وجہ سے بیماریوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ فلٹریشن پلانٹ ندارد ہیں۔شہری
علاقوں میں سیوریج کا نظام انتہائی ناقص ہے۔ محلہ جات میں بجلی کی لٹکتی
تاریں کئی حادثات کا سبب بن چکی ہیں مگر مزید حادثات سے بچنے کے لئے کوئی
مناسب اقدامات نہیں کئے گئے۔ کروڑوں روپے کی لاگت سے تعمیر کردہ سڑکیں
کھنڈرات کا منظر پیش کر رہی ہیں۔ ناقص میٹریل اور کمیشن مافیا کی بدولت
سڑکیں اکھڑ کر بڑے بڑے گڑھوں کی شکل اختیار کر جاتی ہیں اور حادثات کا سبب
بنتی ہیں۔ انتظامی کی نااہلی اور بروقت اقدامات نہ کرنے کی وجہ سے آندھی،
بارش اور سیلاب کی صورت میں عوام کو بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
مختصراً ضلع منڈی بہاؤالدین مسائل کی آماجگاہ بن چکا ہے اور افسوس کی بات
یہ ہے کہ موجودہ حکومت بھی اس ضلع کے عوام کے مسائل کے خاتمہ کے لئے سنجیدہ
نظر نہیں آتی۔ تاہم اگر یہی صورت حال رہی تو وہ دن دور نہیں جب یہاں کے
عوام خود اپنا حق چھیننے کے لئے نکل پڑیں گے اور پھر کس کو کس سڑک پہ
گھسیٹا جائے گا، اس کا فیصلہ عوام کریں گے۔۔۔۔ |
|