ماہنامہ’’ پھول ‘‘ صدقۂ جاریہ
(Prof Riffat Mazhar, Lahore)
لگ بھگ بیس بائیس سال پہلے
’’ماہنامہ پھول‘‘ نظروں سے گزرااور میں نے اسے ایک اچھی کاوش جانا۔پھر
ہنگامۂ ہائے روز و شب میں ایسی اُلجھی کہ اِس کے مطالعے کا موقع ہی نہ
ملا۔ویسے بھی ذہن میں یہی تھا کہ یہ میگزین بچوں کے لیے ہے اِسی لیے اِس کی
طرف دھیان نہیں گیاالبتہ میرے بچے اسے بہت شوق سے پڑھتے رہے اور میگزین بھی
باقاعدگی سے گھر آتا رہا ۔فُرصت کے کچھ لمحات میسر ہوئے تو میں نے ماہنامہ
پھول کی ورق گردانی شروع کر دی اور جوں جوں پڑھتی گئی میری دلچسپی کو مہمیز
ملتی چلی گئی۔یوں تو اِس کے سرِ ورق پر ’’ہر عمر کے بچوں کے لیے‘‘لکھا گیا
ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ خوبصورت ماہنامہ بچوں ، بوڑھوں، جوانوں اور
خواتین سب کے لیے ہے اور اِس کے مضامین کی گہرائی اور گیرائی ہر کسی کو
اپنے سحر میں جکڑنے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہے۔ستر ، اسّی صفحات پر مشتمل
اِس ماہنامے میں ہماری معاشی و معاشرتی زندگی کے تقریباََ ہر پہلو پر سیر
حاصل مواد مِل جاتا ہے ۔یہ ماہنامہ صرف ’’پھول‘‘ نہیں بلکہ پھولوں اور
کلیوں کی مہکار میں گُندھا ایسا گُلدستہ ہے جِس سے روح میں طراوت اور شبنمی
ٹھنڈک کا احساس ہوتا ہے ۔
ڈپٹی نذیر احمد نے گھریلوبچیوں کی تعلیم و تربیت کو مدّ ِ نظر رکھتے ہوئے
اُردو ادب میں ایک نئی طرح ڈالی اور فنِ تربیت کو دلچسپ اور دل پذیر بنانے
کے لیے قصّے کہانیوں کا انداز اختیار کیا جسے اُردو ادب میں ناول نگاری کے
اولین نمونے بھی قرار دیا جاتا ہے ،۔ڈپٹی نذیر احمد کے بعد بہت سے ناول
لکھے گئے اور افسانے بھی لیکن جو مطمعٔ نظر ڈپٹی صاحب کا تھا وہ کسی بھی
قلمکار کے پیشِ نظر نہ رہا ۔ماہنامہ پھول کے مطالعے کے بعد میں بلا خوفِ
تردید کہہ سکتی ہوں کہ میرِ صحافت جناب مجید نظامی مرحوم کے نہاں خانۂ دِل
میں بھی وہی جذبہ کار فرما تھا جِس کی بنیاد ڈپٹی نذیر احمد نے رکھی اور
اُنہوں نے بھی نونہالانِ وطن کی تربیت کے لیے ماہنامہ پھول کا اجراء
کیا۔پچیس سال پہلے لگایا جانے والا یہ نخلِ نَو آج ایک تَناور درخت کا روپ
اختیار کر چکا ہے اور کہا جا سکتا ہے کہ اِس نَوع کے اُردو رسالوں میں اِسے
دُنیا بھر میں منفرد اور مقبول ترین مقام حاصل ہے۔
پاکستان سے والہانہ محبت کرنے والے مجید نظامی مرحوم کی بصارت و بصیرت اور
دُور اندیشی ہی تھی جو اُنہوں نے ماہنامہ پھول کے لیے بہترین ٹیم کا انتخاب
کیا جو محترم شعیب مرزا کی زیرِ نگرانی خوب سے خوب تر کی تلاش میں رہتی ہے
۔شعیب مرزا صاحب کی محنت اور لگن ماہنامہ پھول کے ایک ایک صفحے پر جُگنوؤں
کی طرح جھلملاتی نظر آتی ہے ۔میں سمجھتی ہوں کہ یہ بھی مجید نظامی مرحوم کی
بصارت کا مُنہ بولتا ثبوت ہے کہ اُنہوں نے شعیب مرزا صاحب جیسے شخص کا
انتخاب کیا جنہوں نے اِس ماہنامے کو آسمان کی رفعتوں سے روشناس کروا
دیا۔یوں تو مجید نظامی صاحب کے وطن کی محبت میں گُندھے بے شمار کارنامے ہیں
جنہیں اِس دھرتی سے پیار کرنے والا کوئی بھی شخص کبھی بھُلا نہیں پائے گا
لیکن یہ بھی عین حقیقت ہے کہ اُنہیں ’’اَمر‘‘ کرنے کے لیے ماہنامہ پھول
جیسا ’’صدقۂ جاریہ‘‘ہی کافی ہے ۔
مجید نظامی مرحوم کی زندگی کا محور و مرکز ہی جابر سلطان کے سامنے کلمۂ حق
کہنا تھا۔حکومت کسی آمر کی ہو یا جمہوری آمر کی وہ بے دھڑک ’’حق کی بات‘‘
کہہ جاتے۔ شاید وہ پاکستان میں بھی خلفائے راشدین جیسے نظام کی آرزو رکھتے
تھے کہ جہاں کوئی بھی خلیفۂ وقت سے یہ سوال کرنے کا حوصلہ رکھتا ہوکہ’’عمرؓ
! بیت المال سے تو آپ کے حصّے میں صرف ایک چادر آئی تھی یہ دوسری چادر کہاں
سے آ گئی؟‘‘۔اور امیرالمومنین یہ فرمائیں’’میں طویل القامت ہوں اور ایک
چادر سے پورا جسم نہیں ڈھانپ سکتا تھا اِس لیے میرے بیٹے نے مجھے اپنی چادر
مستعار دے دی‘‘۔شاید نظامی صاحب کا کَرب یہ بھی تھاکہ اُنہیں جمہوری لبادے
کی اوٹ میں بادشاہت جھلکتی نظر آتی تھی جبکہ وہ تو چودہ سو سال پہلے کے
ایسے دَور کے آرزو مند تھے جِس میں مجمع ٔعام میں خلیفۂ وقت حضرت عمرؓ نے
منبر پر کھڑے ہو کر لوگوں سے سوال کیا کہ’’اے لوگو ! اگر میں دُنیا کی طرف
جھُک جاؤں تو تم کیا کرو گے؟‘‘۔مجمعے میں موجود ایک شخص نے اپنی تلوار نیام
سے نکال کر کہا ’’میں آپ کا سَراُڑا دوں گا‘‘۔حضرت عمرؓ نے اُس شخص کو
ڈانٹتے ہوئے غصّے سے کہا’’تُو امیر المومنین کی شان میں یہ الفاظ کہتا ہے
‘‘۔اُس شخص نے ترکی بہ ترکی جواب دیا’’ہاں ! آپ کی شان میں‘‘۔یہ سُن کر
حضرت عمرؓ بہت خوش ہوئے ، منبر سے نیچے اُترے اور اُس شخص کو گلے لگا
کرفرمایا’’اﷲ کا شکر ہے۔ قوم میں ایسے لوگ موجود ہیں کہ اگر میں ٹیڑھا ہو
جاؤں تو وہ مجھے سیدھا کر دیں’’۔لیکن پاکستان جیساملک جو وڈیروں ،
نوابوں،جاگیرداروں اور صنعت کاروں کے قبضۂ قدرت میں ہے، وہاں نظامی صاحب
مرحوم کے خواب کو تعبیر ملنا اگر ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔اِس کے
باوجود بھی اُس ’’مردِ قلندر‘‘ نے نہ صرف یہ آرزو پالی بلکہ ساری زندگی اسی
جد و جہد کی نذر بھی کر دی۔ |
|