تمثال میں لسانیاتی تبسم کی تلاش

برصغیر کی موجودہ صورت حال‘ کوئی نئی نہیں‘ یہ بدنصیب خطہ‘ شروع سے‘ معاش خور اور آدم کش‘ بدنصیبی کی دلدل میں پھنسا رہا ہے۔ بیرونی لٹیروں کا رونا‘ کیا رونا ہے‘ وہ تو غیر تھے‘ انہیں اس سے‘ یا اس کے لوگوں سے‘ کیا دلچسپی ہو سکتی تھی‘ یا دلچسپی ہو سکتی ہے۔ اس کے اپنے‘ اس خطے کی بربادی پر تلے رہے ہیں۔ کبھی خود‘ کبھی غیروں کو مددعو کرکے‘ اور کبھی ان کا ساتھ دے کر‘ استحصال کرتے آئے ہیں۔ انہوں نے‘ غیروں کی جھوٹھ میٹھ کو‘ خلد کا طعام سمجھ کر‘ نوش جان کیا ہے۔ اپنے لوگوں کی‘ حالت زار دیکھنے کے لیے‘ ان کے پاس کبھی وقت نہیں رہا‘ یا دیکھنے کی کبھی ضرورت ہی محسوس نہیں کی۔

عوامی سطح کے ردعمل کے سدباب کے لیے‘ ان کے گماشتہ ادروں نے‘ عوامی استحصال کے ضمن میں‘ اپنے حصہ کا‘ بھرپور کردار ادا کیا ہے۔ وہ ناصرف‘ شاہوں سے چوری وصولتے رہے ہیں‘ بلکہ عوام کو‘ ان کے حق کے دینے کے لیے‘ عوضانہ لیتے آئے ہیں۔ عوام اپنی بپتا‘ کس سے کہتے‘ سننے والے‘ خود اسی شغل بد کا شکار رہے ہیں۔ انہیں مقتدرہ طبقوں کا‘ اشیرباد بھی میسر رہا ہے۔ مورکھ بدبخت اور بدطعینت بھی‘ ان کی دریا دلی اور انصاف پروری کے گیت الاپتا رہا ہے۔ استحصال کرنے والے حاجی‘ استحصال کے خلاف آواز اٹھانے والے‘ باغی اور وطن دشمن کے القاب سے‘ ملقوب ہوتے رہے ہیں۔ گویا مرتشی کو‘ راشی کا نام دیا جاتا رہا ہے۔ بہت سے شعرا‘ جن کا کبھی‘ تلوار سے تعلق واسطہ ہی نہیں رہا‘ ظلم و ستم کا نشانہ بنتے رہے ہیں۔ صوفیا‘ حق گوئی کی پاداش میں‘ زندگی سے محروم ہوتے آئے ہیں۔ ظالم ہل پر نہائے جب کہ مظلوم‘ مجرم اور گناہ گار ٹھہرے ہیں۔ اس سے بڑھ کر ستم یہ‘ کہ تاریخ کے بےوفا اور ظالم کے طرف دار پنوں سے‘ مظلوموں کی جذباتی وابستگی منسلک کی جاتی رہی ہے۔

درباریوں کو الگ رکھیے‘ ان کے علاوہ بھی‘ شاعر جنم لیتے رہے ہیں۔ شاعر اپنی سوسائٹی کا نمائندہ ہوتا ہے۔ اس کی ذات کا کرب‘ اپنی جگہ‘ سوساسٹی کا کرب‘ ان کی ذات کا کرب بن جاتا ہے۔ لوگوں کی بھوک پیاس‘ دکھ درد اور خوشیاں‘ اپنے ساتھ نتھی کر لیتا ہے‘ اور اسی حوالے سے ہی‘ ان کا اظہار کرتا ہے۔ معاملے یا مسلے کو‘ اس نے کس طرح محسوس کیا‘ وہ اس محسوس کے مطابق اظہار کرتا ہے۔ اس ذیل میں‘ اس کے مزاجی اطوار کو بھی‘ بڑا عمل دخل رہتا ہے۔ اس حوالہ سے‘ اردو شاعری میں مختلف انداز پڑھنے کو ملتے ہیں۔ اس کی عموما‘ تین سطحیں ملتی ہیں۔

ا۔ اپنی ذات کے حوالہ سے‘ معاملہ کہہ دیتا ہے۔
ب۔ مجموعی بات کرتا ہے۔
ج۔ دوسرے کے منہ سے‘ کہلواتا ہے۔
ہاں البتہ‘ بات کرنے کے انداز اور رویے‘ کئی طرح کے ہو سکتے ہیں۔ وقت کے ساتھ‘ ان کی حیثیت مجموعی ہو جاتی ہے‘ اور یہ ہی‘ اس شاعر کی اسلوبی
شناخت ٹھہرتی ہے۔ اس کی صورتیں کچھ اس طرح سے ہو سکتی ہیں۔
١- حکائیتی اور داستانی انداز
٢- جارحانہ انداز‘ اس میں وہ ہر اگلے قدم پر‘ آگ اور پتھر برساتا ہے۔
٣- دبے لفظوں میں بہت کچھ کہہ جاتا ہے۔
٤- علامتی اور استعارتی طور اختیار کرتا ہے۔
٥- حالات کا نوحہ کہے جاتا ہے۔
٦- مایوسی‘ بےچارگی‘ بےبسی اور بےکسی بکھیرتا چلا جاتا ہے۔
٧- بدگمانی اور بداعتمادی کا مسلسل اور متواتر اظہار کرتا ہے۔
٨- دھرتی سے محبت کا‘ اس انداز سے درس دیتا ہے‘ کہ وہ دھرتی کا بھگت محسوس ہونے لگتا ہے۔
٩- نئے حالات اور بدلتی صورت حال کے تناظر میں‘ معاملات کو دیکھتا ہے اور اسی کے مطابق‘ نتائج
کی نشان دہی کرتا ہے۔
١٠- تلخیوں کو‘ رومان میں ملفوف کرکے‘ پیش کرتا ہے۔
١١- دعائیہ طور لیتا ہے۔ خیر اور بھلائی‘ الله سے طلب کیے جاتا ہے۔
١٢- استدعایہ انداز اخیتار کرکے‘ کم زور اور بےبس طبقے کے‘ حقوق طلب کرتا ہے۔
١٣- انشرح کے بغیر کسی کی بن نہیں پڑتی۔ خود کلامی‘ ذات سے مکالمے کے مترادف ہے۔ یہ طور‘ تنہائی اور ہم خیال نہ منلے کی طرف‘ اشارہ کرتا ہے۔
١٤- سوالیہ طور اختیار کرکے‘ شاعر صرف دوسرے کا کندھا استعمال نہیں کر رہا ہوتا‘ بلکہ بالواسطہ نشاندہی کر رہا ہوتا ہے۔
ان اندازواطوار کے مطابق‘ ان کی زبان تشکیل پاتی چلی جاتی ہے۔

ڈاکٹر تبسم کاشمیری کو میں‘ اس عہد کی‘ ادبی بگ گن کہتا ہی نہیں‘ سمجھتا بھی ہوں۔ وہ صرف اردو تنقید‘ تحقیق اور تاریخ کے ہی مرد مجاہد نہیں ہیں‘ شاعر بھی کمال کے ہیں۔ ان کی ١٩٦٤ سے ١٩٨١ کے دوران کی شاعری‘ کے مطلعہ کے دوران‘ مجھے ان کے ہاں‘ مختلف رنگوں کی امیزش نظر آئی ہے۔ اس دور کی شاعری میں‘ سیمابی کیفیت ملتی ہے۔ سماجی ناہمواریوں کے خلاف‘ بےچینی سی محسوس ہوتی ہے۔ اس دور کی شاعری میں زبان کے بھی‘ کئی ذائقے پڑھنے کو ملتے ہیں۔ ان کی شخص سے محبت‘ بڑی واضح ہے۔ میں اسے‘ آتے وقتوں کے لیے‘ عصری گواہی کے درجے پر فائز دیکھتا ہوں۔

شخص‘ کہانی سننے اور سنانے کا‘ روزازل سے شائق رہا ہے۔ کسی بھی معاملے کو‘ پیش کرنے کے ضمن میں‘ داستانی اور حکائیتی انداز کو کسی طور پر‘ صرف نظر نہیں کیا جا سکتا۔ میر حسن کی مثنوی سحرالبیان کا‘ کسی زمانے میں‘ طوطی نہیں طوطا‘ وہ بڑا بھونپو‘ بولتا تھا۔ فکشن میں بھی‘ صورت حال اس سے مختلف نہیں رہی۔

ڈاکٹر تبسم کاشمیری نے بھی اپنے کلام میں‘ کہنے کے اس طور سے‘ خوب فائدہ اٹھایا ہے۔ اس ذیل میں ان کی نظمیں:
شہروں کے لیے ایک نظم‘ غضب وہ شب تھی۔۔۔۔۔‘ سانپ بارش۔۔۔۔
کو باطور مثال‘ لیا جا سکتا ہے۔ یہ الگ بات ہے‘ کہ یہ نظمیں اپنے مضامین کے حوالہ سے‘ سادہ اور عام فہم نہیں ہیں۔ ان حکائیتی نظموں میں‘ علامتی استعارتی اور اشارتی سلیقہ اختیار کیا گیا ہے۔ طرز اظہار قطعی سادہ ہے‘ لیکن ان کی یہ سادگی‘ مطالب کے حوالہ سے‘ بڑا ٹیڑاپن لیے ہوئے ہے۔ مفاہیم تک رسائی کے لیے‘ سوچنا اور غور کرنا پڑتا ہے۔
باطور نمونہ دو تین مثالیں پیش کرتا ہوں:

مجھے اس شہر کے چہرے پہ اگتی زرد کائی سے محبت ہے
کہ میں خود زرد کائی ہوں‘ کہ میں خود تار آنگن ہوں
کہ میں خود زرد چہرہ ہوں
شہروں کے لیے ایک نظم نظم:
معاملے کو ناصرف تجسیم دی گئی ہے‘ بلکہ اسے خود پر محمول بھی کیا گیا ہے۔

اداس نسلوں کی یہ کہانی‘ ہمارے لب سے جو تم سن رہے ہو
ہماری آنکھوں میں آنسوؤں کے ہزار جگنو چمک رہے ہیں
ہر ایک شخص آ کے پوچھتا ہے
شب غضب ہے دراز کتنی‘ شب غضب ہے دراز کتنی
نظم: غضب وہ شب تھی۔۔۔۔۔۔۔

سوکھے بچوں کی ہڈیوں پہ
دلہنوں کی عرسیوں پہ
بسنتی خوشیوں کے سرخ چہروں پہ
خواہشوں کے چمکثے شانوں پہ
سانپ بارش برس رہی ہے
نظم: سانپ بارش
ہر سہ مثالیں‘ ماضی سے متعلق نہیں ہیں‘ یہ حال‘ یعنی ١٩٦٤ سے ١٩٨١ کی کہانی ہے۔ آتا کل‘ ان پندرہ سالوں کا چہرہ‘ ان نظموں کے تناظر میں‘ دیکھ لے گا۔ یہ نظمیں کسی ایک طبقے کی حالت زار کی نمائندہ نہیں ہیں‘ یہ اپنے عہد کے خستہ و ویران زندہ شخص کا نوحہ ہیں۔

تبسم کاشمیری کے ہاں‘ دھرتی اور دھرتی باسیوں سے‘ محبت واضح طور پر ملتی ہے۔ خصوص؛ غلاظت‘ گربت اور بھوک سے نڈھال لوگوں سے‘ دور بھاگتے ہیں۔ اندر کو دھنسے چہروں سے‘ انہیں گھن آتی ہے۔ تبسم کاشمیری کی نظم ۔۔۔۔۔ شہروں کے لیے ایک نظم۔۔۔۔۔۔ خصوصی مطالعے کا تقاضا کرتی ہے۔ دھرتی کی بھگتی‘ اس سے بڑھ کر‘ کہیں پڑھنے کو نہیں ملے گی۔ باطور نمونہ‘ صرف یہ دو لائنیں ملاحظہ فرمائیں:
میں ان شہروں کے جلتے جسم‘ روتی آنکھ دکھتے بازوں
سے پیار کرتا ہوں
میں نے کہیں عرض کیا ہے‘ کہ شاعر سماج کا دکھ‘ ذات کا دکھ بنا لیتا ہے۔ سماج کی ہر شے‘ اور ہر شخص‘ اس کی ذات کا اٹوٹ انگ بن جاتے ہیں۔ یہ گویا اس کی دھرتی سے‘ قلبی محبت کا ثبوت ہوتا ہے۔ دھرتی اور دھرتی سے متعلق لوگوں‘ اور اشیا سے محبت‘ اسے اپنی ذات کی‘ محبت محسوس ہوتی ہے۔ اسی نظم کی یہ لائینیں باطور نمونہ ملاحظہ ہوں:
کہ دکھتا بازو‘ جلتا جسم‘ روتی آنکھ میں خود ہوں
مجھے ہر شے سے الفت ہے
کہ میں خود سے ہمیشہ پیار کرتا ہوں

انہوں نے‘ دعائیہ انداز بھی اختیار کیا ہے۔ وہ دعا کو‘ اپنی ذات یا اپنے گرد وپیش تک‘ محدود نہیں رکھتے۔ ان کا زمین‘ اور زمین پر موجود انسان‘ اور اشیا سے‘ بلا کسی تخصیص اور تمیز وامتیاز‘ تعلق اپنوں کا سا ہے۔ یہ تعلق رسمی نہیں‘ قلبی ہے۔ تان کہاں توڑتے ہیں‘ ملاحظہ ہو:
اور میری دعا ہے
زمیں پہ ہر اک شے کی
خوش بختیوں کے لیے

ذرا آگے بڑھیے‘ کہتے ہیں:
زمینوں پہ اور آسمانوں پہ
انسان کی نصرتوں کے لیے

حالات اور وقت کی ستم ظریفی اور سماجی ناقدری‘ مایوسی کا موجب بنتی ہے۔ غور کرنے کی بات ہے‘ شاہ اور کچھ شاہ والے‘ تاریخ کا حصہ بنے‘ اور انہیں ناصرف ان کے نام سے جانا اور پہچانا جاتا ہے‘ بلکہ بھول میں ہو جانے والے کسی کام کو بھی‘ نظرانداز نہیں کیا گیا۔ بد بخت اور چوری خور مورکھ نے‘ بہت کچھ ناکردہ‘ ان کے نام کر دیا ہے۔ سندھ کو فتح کرنے‘ اکیلا قاسم تو نہیں آیا تھا‘ اس کے ساتھ فوج بھی تھی۔ اس کے ساتھ کون تھے‘ کوئی نہیں جانتا۔

شخص چاہتا ہے‘ آتا وقت اسے یاد رکھے۔ المیہ یہ رہا ہے‘ آتا وقت تو دور کی بات‘ گزرتا وقت‘ اسے نہیں جانتا۔ گزرتے وقت میں‘ وہ وجود سے محروم ہے۔ خود اسے معلوم نہیں‘ وہ کون اور کیا ہے۔ تبسم کاشمیری حواس بیدار شاعر ہے‘ وہ اس المیے کو‘ بھلا کیوں کر نظر انداز کر سکتا ہے۔ ذرا ان سطور کو‘ دل کی آنکھ سے‘ ملاحظہ فرمائیں۔ شاعر نے نظم ۔۔۔۔۔ فقط ہونے نہ ہونے سے۔۔۔۔۔۔ میں صنعت خود کلامی سے کام لے کر‘ زندگی کے اس بہت بڑے المیے کو‘ فوکس کیا ہے۔
کبھی محسوس کرتا ہوں کہ میں آخر کہاں پر ہوں
ہوا میں یا زمیں پہ یا فضا کی گزرگاہوں میں
کہیں بھی میں نہیں ہوتا
اس نہ ہونے کے المیے کو‘ زیر حوالہ شاعر نے موجود تک محدود نہیں رکھا‘ وہ ماضی اور مستقبل کو نظر انداز نہیں کرتا۔ حال سے ماضی کی طرف پلٹتا ہے‘ پلٹنے کے انداز کو دیکھیں۔
میں اکثر سوچتا ہوں مجھ سے پہلے میرے آباء تھے
وہ اکثر سوچتے ہوں گے
اگر ہم ہیں تو کیا حاصل
شاعر‘ مستقبل کے سفر پر بھی روانہ ہوتا ہے۔ گویا یہ لاحاصلی‘ صدیوں سے چلی آتی ہے‘ اور ان حالات کے تحت‘ آتے کل کو بھی‘ اس کا اسی طور سے سکہ چلتا رہے گا۔
زمانہ اور گزرے گا تو میری نسل آئے گی
کبھی شاید وہ سوچے گی کہ اس کے ہونے سے کیا حاصل
نہیں کچھ بھی نہیں حاصل

تبسم کاشمیری‘ سوالیہ طور بھی اختیار کرتے ہیں۔ ان میں‘ اور اوروں میں فرق یہ ہے‘ کہ ان کے سوالیہ میں بھی‘ المیہ سانسیں لے رہا ہوتا ہے۔ ذرا یہ لائنیں ملاحظہ فرمائیں‘ درد اور کرب کے بادل قاری کو اپنے حصار میں لے لیتے ہیں۔

مگر وہ خواب کیسے تھے لڑکپن میں جو دیکھے تھے
یہ اکثر میں نے سوچا ہے وہ سارے خواب کیسے تھے
وہی جو ہم سے پہلے آنے والے لوگ تکتے تھے
وہی خواب اب ہمارے ننھے منے بچے تکتے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مزید آگے بڑھیے‘ شاعر بچوں کے بچوں‘ کے بارے بھی سوچتا ہے۔ ایک سوالیے کے کندھوں پر خوابوں کا انجام رکھ دیتا ہے:
پھر اس کے بعد ان کے ننھے بچے روشنی کے رنگ کے
اور خوشبوؤں کے خواب دیکھیں گے
تو ان کے خواب کیا ہوں گے

تبسم کاشمیری کی اس عہد کی شاعری میں‘ پیغامیہ انداز بھی پڑھنے کو ملتا ہے۔ وہ شخص کو‘ بغاوت اور سرکشی کا مشورہ نہیں دیتے۔ ان کو برداشت کے ساتھ ساتھ‘ استقلال کا رستہ دکھاتے ہیں۔ حوصلہ شکنی سے کام نہیں لیتے بلکہ امید کی ڈور سے باندھنے کی سعی کرتے ہیں۔ کیا کمال کی یہ لائنیں ہیں۔ یہ لائنیں‘ زندگی کے تسلسل کو‘ برقرار رکھنے میں‘ بلاشبہ اپنے حصہ کا کردار ادا کرتی ہیں۔
تم اپنے سر پہ لہو کے پیالے سجائے رکھنا
گلی گلی میں تمہارے جسموں کا شہد پھیلے
نظم: لہو کے پیالے سجائے رکھنا

ان کے ہاں‘ ظلم کے خلاف یلغار کا پیغام بھی ملتا ہے۔ اس کے لیے وہ‘ اشارتی انداز اخیتار کرتے ہیں۔ اس حوالہ سے یہ لائنیں ملاحظہ فرمائیں:
ظلم کے پہرے داروں پہ پھر
موت کی بجلی کڑکے
ساری خلقت ملک الموت ہو
سارے ظالم کنبیں
نظم: راوی پار گیا تھا مرزا

ضروری نہیں‘ اعلی درجے کی بات‘ اعلی درجے کی زبان میں‘ کہی گئی ہو۔ بڑی بات‘ معمولی زبان میں بھی‘ کہی گئی ہو سکتی ہے‘ وہ بھی اپنا اثر دکھائی ہے۔ اگر دونوں بڑھیا ہوں‘ تو یہ سونے پہ سہاگے والی بات ہوتی ہے۔ تبسم کاشمیری‘ اپنی فکر کے اظہار کے لیے‘ لفظوں کے چناؤ میں بھی‘ خصوصی اہتمام سے کام لیتے ہیں۔ خوب صورت زبان‘ ان کے مزاج کا بھی حصہ ہے۔ فکر‘ اظہار اور اظہار کی زبان کا رستہ خود ہی تلاش لیتی ہے۔

زبان میں‘ صفتی سابقوں اور لاحقوں کو‘ بڑی اہمیت حاصل ہے۔ یہ جہاں حسن اور چاشنی کا سبب بنتے ہیں‘ وہاں معاملے اور معاملے کے کرداروں کی‘ حیثیت‘ اہمیت اور کارگزاری کو بھی نمایاں کرتے ہیں۔ باطور نمونہ چند صفتی سابقے ملاحظہ فرمائیں:
بےنور اشیا
میں ان بےنور اشیا کے
ہزاروں اشک اپنے گرم سینے پر گراتا ہوں

سیاہ چیخ
بدن کے کرڑوں مساموں کے منہ پر
سیاہ چیخ کا سرخ جنگل اگا تھا

زہریلی طنابیں
عقیدوں کی کھال پہ سوجن ہے
زہریلی طنابیں کاٹو‘ روشنی کا سیلاب امڈ پڑے گا

گھائل صدمے
بوڑھے لوگوں کی آنکھوں میں
گھائل صدمے تیر رہے ہیں

زخمی خواہشیں
رات گیے تک زخمی خواہشیں
بستر کی اک اک سلوٹ سے
نکل نکل کر روتی ہیں

اندھی بارش
ہم نے دیکھا شاہراہوں پہ
خواب کی اندھی بارش کو

سرخ سمندر‘ زرد مکان
زرد مکانوں کی رگ رگ میں
تپتا سرخ سمندر

تازہ بدن
گرما کی اس دوپہر میں ہوا
اپنا تازہ بدن ریت پر کھولتی ہے

دکھتا بدن
ان کے دکھتے بدن کے لیے

کھلتی دھنک
یاد ہیں اس کو بھی ہونٹوں پہ سجی کچھ تتلیاں
یاد ہے مجھ کو بھی اس کی آنکھ میں کھلتی دھنک

ساونت سمے
اپنے اپنے دل کی لوح پہ
کیسے کیسے نام
کیسے وہ ساونت سمے تھے

ٹیڑے ترچھے وار
کھائے تو نے جسم پہ ہنس ہنس کر
ٹیڑے ترچھے وار

ذرا یہ دو لاحقے ملاحظہ فرمائیں۔
سمت بے سمت
اب کہ طغیانیوں نے گھیرا‘ کہ سمت بےسمت ہو گئی ہے

بدن بےبدن
ہمارے بدن بےبدن ہو چکے ہیں

ان میں‘ صنعت تکرار لفظی کا ہی حسن نہیں‘ دونوں جانب ہم مرتب لفظ استمال ہوئےہیں۔ بے جو نفی کا سابقہ ہے‘ پہلے کی مادی قدر کو صفر کر رہا ہے۔ اسے یوں بھی تو کہا جا سکتا تھا:
اب کہ طغیانیوں نے گھیرا‘ کہ ہم بےسمت ہو گیے ہیں
ہم بےبدن ہو چکے ہیں
بات ایک ہی ہے‘ لیکن فصاحت اور بلاغت کا عنصر‘ باقی نہیں رہتا۔ بات کا مفہوم تو واضح ہے‘ چاشنی‘ بر جستگی‘ چستگی اور شعری عنصر‘ ختم ہو جاتا ہے۔

مرکبات
‘ حسن کلام کا‘ بہت بڑا وسیلہ اور ذریعہ ہوتے ہیں۔ ان کا برمحل استعمال‘ کلام میں چستی‘ تازگی اور متاثر کرنے کی صلاحیت بھرتا ہے۔ یہ کسی شاعر کی قادرالکلامی کا ثبوت ہوتے ہیں۔ ان کی ترکیب و تشکیل میں‘ بہت کم دانستگی کا عنصر شامل ہوتا ہے۔ یہ ایک طرح سے‘ شاعر پر فطرت نازل کرتی ہے۔
تبسم کاشمیری کے چند مرکبات ملاحظہ ہو۔

شب اولیں
شب اولیں کی دلہن کی طرح آج شرما رہی ہے

لوح دل
تو نے اتاری لوح دل پر
کیوں یہ درد کی شام

نفرتوں کا قلعہ
مرے خون میں ریت تھی اور سر کھولتی نفرتوں کا قلعہ

موسم کا بھوت
مردہ موسم کا بھوت میرے جسم سے چمٹا

رخصت کا آنسو
کسی کی آنکھ میں رخصت کا آنسو

وفا کے ہونٹ
میں ان کے سوکھتے پامال جسوں پر وفا کے ہونٹ رکھتا ہوں

گندگی کے گلاب
سانپ بارش کے پانیوں میں گندگی کے گلاب کھلتے ہیں

ہونٹوں کے سائے
شگوفوں کے نغمے دہکتے ہوئے سرخ ہونٹوں کے سائے

خواہشوں کے جلوس
شریانوں میں سیاحت کرتی خواہشوں کے جلوس

ہواؤں کی دوشیزگی
تازہ ہواؤں کی دوشیزگی سات رنگوں میں برہنہ ہوئی ہے

چپ کی خوش بو
میرے سانس میں چپ کی خوش بو‘ چپ تیرتی رہتی ہے

روشنی کی تلاش
تم اپنے جسموں کے ٹوٹے خلیوں میں روشنی کی تلاش میں ہو

رگ میں یورش
چیخیں میرے جسم کی اک اک رگ میں یورش کرتی ہیں

گلابوں میں دکھ
یہاں بین کرتی ہواؤں میں کھلتے
گلابوں میں دکھ ہے

سوئی خوش بو
کیسے جسم میں سوئی خوش بو جاگ اٹھی ہے

١٩٦٤
سے
١٩٨١
تک
کی شخصی اور سماجی داستان‘ جو مورکھ کے چوری خور قلم پر نہ آ سکی۔ فقط چند مصرعوں میں‘ اردو شعر کے تبسم کی زبانی سنیے‘ جو پامال جسموں پر وفا کے ہونٹ رکھتا ہے۔
یہ وہ ہی تبسم ہے‘ جو خون میں ڈوبی شہ رگوں سے‘ اپنے ہاتھوں کو بھگوتا ہے۔
اسے تو یہاں کے ہزیمت خوردہ اور اداس بچوں‘ جوانوں اور بوڑھوں سے بھی محبت ہے۔
وہ فاتح کے گیت نہیں الاپتا۔
کیسا ہے یہ شخص‘ روتی آنکھوں میں بسیرا کرتا ہے۔

ہوا ہے ہم سے گناہ کیسا
کہ رحم مادر سے باہر آ کے جو آنکھ کھولی
زمیں پہ دیکھا شب غضب تھی
....................
سبز کھیتوں پہ‘ رہگزاروں پہ
سانپ بارش کی کائی اگی ہوئی تھی
.....................
میں ان آہنی منظروں میں
صداؤں کے پھیلے حصار میں
مصلوب ہوں
....................
مرے بدن میں سیاہ ذرے سیاہ پھولوں میں جل رہے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میرے کان میں سرخ تشدد کی چیخوں کی
چھاؤنیاں آباد ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شاہراہوں پہ میں ریزہ ریزہ پڑا تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم اونچی چمنیوں میں شور کرتے کارخانوں میں
دھوئیں سے پیٹ بھرتے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تم اپنے جسموں کے ٹوٹے خلیوں میں روشنی کی تلاش میں ہو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زمیں کا زوال آج زنجیرپا بن رہا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
غضب بدہئیت بادل ہے جو ان شہروں پہ چھایا ہے
.................
سب گلیوں کی تار آنکھوں میں
جبر کے آنسو جھانک رہے ہیں
.................
لہو میں ڈوبے اداس شہروں کے زرد چہروں پہ تیرگی ہے
.................
ہم اپنی آنکھ سے بہتے ہزاروں آنسوؤں کے پھول چنتے ہیں
.................
میرے اندر چپ کے جنگل اگتے رہتے ہیں

نوٹ: تمثال‘ ڈاکٹر تبسم کاشمیرے کے شعری مجموعے کا نام ہے
maqsood hasni
About the Author: maqsood hasni Read More Articles by maqsood hasni: 3 Articles with 2435 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.