نئے انتظامی یونٹس ۔۔۔رائٹ مین کا رائٹ مطالبہ
(Imran Ahmed Rajput, Karachi)
متحدہ قومی موومنٹ کے قائد جناب
الطاف حسین صاحب کی جانب سے پورے ملک میں اور بالخصوص سندھ میں نئے انتظامی
یونٹس بنائے جانے کے مطالبے پر ملک کی دیگر سیاسی و مذہبی جماعتوں کی جانب
سے منفی ردِعمل کا اظہار کرنا یہ بات ثابت کرتا ہے کہ یہ تمام جماعتیں
پاکستان اور بالخصوص سندھ دھرتی کے ساتھ مخلص نہیں ہیں۔ جو نہیں چاہتیں کے
پاکستان کے ہر شہری کو برابری کی سطح پر حقوق ملیں اور پاکستان میں رہنے
والا ہر شہری ایک آزاد اور با اختیار شہری کی حیثیت سے اپنی زندگی گزارسکے
۔ قارئین ایسی تمام جماعتیں جمہوریت کی اصل روح سے ناواقف ہیں جوصرف قوم
پرستی کی بساط پر اپنی سیاست کو چمکانا چاہتی ہیں اور پاکستان میں بسنے
والی تمام قومیتوں میں بد امنی و انتشار کی فضاء بنائے رکھنا چاہتی
ہیں۔حالانکہ متحدہ قومی موومنٹ کے قائد جناب الطاف حسین بھائی کا بیان کسی
نسلی یا قوم پرستی کی بنیاد پر نہیں دیا گیا تھا اور نہ ہی کسی قسم کی کوئی
تقسیم کی بات کی گئی تھی ۔ لیکن پھر بھی ملک پر قابض دو فیصد مراعات یافتہ
طبقہ جو نہیں چاہتا کہ ملک کسی بھی طور ترقی کرے اور ملک کی غریب و مظلوم
عوام کے بنیادی مسائل کو حل کرنے کے لیے کوئی انتظامی سیٹ اپ مرتب کیا
جاسکے قائدتحریک الطاف حسین بھائی کے بیان کو ایک لسانی رنگ دیئے جانے کی
کوشش کی گئی یہ سوچے سمجھے بغیر کہ لسانیت کو ہوا دینے سے پاکستان کو کس
قدر کا نقصان اٹھانا پڑ سکتا ہے۔
قارئین کسی بھی ملک کی تعمیر و ترقی کا راز انتظامی اصولوں پر ہی مضمر ہوا
کرتا ہے دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کو اٹھا کر دیکھ لیں اُن کی ترقی کا
پیمانہ آپ کو انتظامی قدروں کی بنیاد پر ہی ملے گا اور جوممالک خود کو
انتظامی طور پر پیش کرنے میں ناکام رہے وہ آج ایک ناکام ریاست کے طور پر ہی
دنیا میں جانے اور پہنچانے جاتے ہیں جس میں تعمیر و ترقی کے عمل کو جاری
رکھا جانا تو دور کی بات وہ خود کو بدامنی بد نظمی اور لاقانونیت وانتشار
کی صورتِ حال سے ہی باہر نہیں نکال سکتے۔ قارئین ایسے ملکوں کا وجود نہ صرف
خطرے میں پڑ جا یا کرتا ہے بلکہ ممکن حد تک اندر سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوکر
ایک وقت میں صفحہ ہستی سے مٹ جاتا ہے۔ لہذا کسی بھی ملک کے لیے انتظامی طور
پر ایک پائیدار ایڈمنسٹریٹولیAdministratively بہتر ہونا ضروری ہے بلکہ اُس
کے لیے عوامی خواہشات کا عکاس ہونا بھی ضروری ہے۔ پاکستان میں حالیہ
اعدادوشمار کے مطابق آباد ی کا تناسب 20 کڑور کے قریب ہوچکا ہے اِس بیس
کڑور والے ملک کو 67 سالوں سے صرف چار لسانی یونٹوں میں تقسیم کیا ہوا ہے
اوریہ چار اکائیاں67 سالوں سے 20 کڑور آبادی پراپنا تسلط قائم کئے ہوئی ہیں
جس کی وجہ سے آج پاکستان بد انتظامی کا بری طرح سے شکار ہے انتظامی بد نظمی
کا یہ حال ہے کہ14 یا 15 سالوں سے اِس ملک میں نئی مردم شماری نہیں کی
جاسکی ساتھ سالوں سے مقامی حکومتوں کا قیام صرف اِس وجہ سے معطل کیا ہوا ہے
کہ اب تک انتظامی طور پر نئی حلقہ بندیاں نہ ہوسکیں جس کی وجہ سے پاکستان
میں بسنے والی دیگر قومیں احساسِ کمتری اور احسا سِ محرومی کا شکار نظر آتی
ہیں ۔ قارئین چونکہ کسی بھی قوم کو ایک حد کے بعد زیادہ دیر تک دبایا
جاسکتا ہے اور نہ اُسے اُس کے جائز حق سے محروم رکھا جاسکتا ہے۔ لہذا
پاکستان میں موجود دیگر اقوم میں بے چینی کو بھانپتے ہوئے اور انتظامی بد
نظمی کو دیکھتے ہوئے متحدہ قومی موومنٹ کے قائد جناب الطاف حسین نے پاکستان
میں پسماندعلاقوں میں رہنے والوں کی احساسِ محرومی کو دور کرنے کے لیے ملک
میں نئے انتظامی یونٹس بنانے کا مطالبہ کیا ۔جو کہ ہم سمجھتے ہیں اُن کا یہ
مطالبہ آئینی ، قانونی اور ایڈمنسٹریٹولی Administratively ہر لحاظ سے
پاکستان کی عوام کے حق میں ایک جائز مطالبہ ہے۔کیونکہ اگر ہم پاکستان کو
ایک ترقی یافتہ اور جدید ملک دیکھنا چاہتے ہیں تو ہمیں نئے انتظامی یونٹس
بنانا ہونگے تاکہ ملک کو انتظامی طور پر بہتر انداز میں چلایا جاسکے جس سے
ملک میں رہنے والے ہر شہری کے لیے جلد انصاف کی فراہمی ، مہنگائی، بے روز
گاری سے چھٹکارہ ،قانون کی عملداری ، امن و امان کی بحالی اور صحت وصفائی
جیسے انتظامی امور کو بہتر سے بہتر انداز میں چلایا جاسکے ۔دیگر ممالک میں
نئے انتظامی یونٹس کے حوالے سے ایسی بہت سی مثالیں دی جاسکتی ہیں جن میں سر
فہرست ہمارا پڑوسی ملک انڈیا اور ہمارے بطن سے پیدا کیا گیا بنگلہ دیش جیسے
ممالک شامل ہیں۔ جنھوں نے ملک میں بلا تفریق رنگ و نسل ، لسانی اور مذہبی
منافرت سے دور نئے انتظامی یونٹس بنائے اور خود کو بحیثیت ایک ذمہ دار ملک
مضبوط کیا اور ترقی کی طرف گامزن ہوئے ۔ بہت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ
آج ہم اُن سے معاشی اعتبار سے کافی پیچھے ہیں۔ ہمارے ملک کی بد نصیبی یہ ہے
کہ ہمارے ملک کو جس چیز سے فائدہ پہنچنا ہوتا ہے یا تعمیر و ترقی کی طرف
کوئی راستہ جاتا نظر آتا ہے ہم اُس میں لسانیت کا ایسا رنگ بھر دیتے ہیں کہ
ملک کو مزید کئی سال پیچھے کردیتے ہیں۔کالا باغ ڈیم کا ایشو ہو یا نئے
صوبوں کا قیام ہو یا پھر بلدیاتی نظام کا مسودہ ہو ہر چیز میں لسانیت آڑے
آجاتی ہے ۔ہمیں تو ایسا معلوم دیتا ہے کہ جن چار لسانی اکائیوں پر یہ ملک
کھڑا ہے وہ چاروں اکائیاں اپنی نیتوں میں کوئی کھوٹ رکھے ہوئے ہیں جو
پاکستا ن کو ترقی کرتا دیکھنا نہیں چاہتیں۔ چاروں میں سے کوئی بھی خود کو
ایڈمنسٹریٹولی Administratively طور پر بھی ڈیوائڈe Divid کرنے کو تیار
نہیں ۔حالا نکہ نئے انتظامی یونٹس میں سب سے زیادہ فائدہ خود اُن کا ہی ہے
لیکن شاید وہ خود اپنی قوم کے ساتھ مخلص نہیں۔
پاکستان اور صوبہ سندھ کی ایک بڑی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک
چیئرمین جناب آصف علی ذرداری صاحب جن کی دور اندیشی اور سیاسی بازیگری کے
ہم فین ہیں نے 23 ستمبر کو ایک نجی ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے
انتظامی یونٹس کے حوالے سے بات کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ پاکستان میں نئے
صوبوں کے مخالف ہیں جس کی وجہ انھوں نے یہ بتائی کہ نئے صوبے بننے سے
اخراجات میں اضافہ ہوجائے گا اور قومی خزانے پر انتظامی بوجھ بڑھ جائے گا۔
ہم ذرداری صاحب کو سیاست کے میدان میں ایک ماہر اور منجھا ہوا کھلاڑی
سمجھتے ہیں انکے منہ سے اس طرح کی غیر منطقی بات سن کر حیرت زدہ ہونے کے
سوا کچھ نہیں کیا جاسکتا۔ لیکن ہم ذرداری صاحب سے اتنا ضرور پوچھنا چاہینگے
کہ جب نئے صوبوں کے قیام سے اخراجات میں اضافہ ہوجانا تھا اور قومی خزانے
پر مالی بوجھ بڑھ جانے کا اندیشہ تھا تو پھر اپنے دورِ صدارت اور اپنی
پارٹی کے دورِ حکمرانی میں پنجاب میں سرائیکی صوبے کا نعرہ لگا کر پنجاب
اسمبلی میں سرائیکی صوبے کی قرا ر داد کس ضمن میں منظوری کروائی گئی تھی ۔
جناب اُس وقت تو آپ اِس قدر اُتاولے ہوئے جارہے تھے کہ آپ نے جاتے جاتے
سرائیکی بینک کی بنیاد بھی رکھ ڈالی تھی ۔ اُس وقت سرائیکی صوبے کے اخراجات
ایدھی فاؤنڈیشن اٹھانے والی تھی یاپھر تمام امور کا ذمہ سیلانی ویلفیئر نے
لینے کا اعادہ کیا تھا ۔؟
قارئین یقینا بات آپ کی سمجھ میں آگئی ہوگی ۔جب تک ملک
ایڈمنسٹریٹولیAdministratively مضبوط نہیں ہوگا انتظامی طور پر نئے یونٹس
کا قیام نہیں ممکن ہوتا پاکستان بد امنی انتشار اور انتظامی بد نظمی کا
شکار رہیگا۔ لہذا ملکی مفاد میں انتظامی یونٹس کا قیام بہت ضروری ہیں جس کا
سب سے بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ لسانی سیاست ہمیشہ ہمیشہ کے لیے دم توڑجائے گی
جب پاکستان کے ہر شہری کو برابری کی سطح پر اپنے انتظامی امور اپنی مرضی سے
چلانے کا اختیار حاصل ہوسکے گا ،جس سے ملک میں تعمیرو ترقی کے نئے راستے
کھلیں گے اور ملک تیزی سے آگے کی طرف ترقی کریگا ۔ |
|