شہباز شریف.... مسلم لیگی کارکن سے ملنا کیوں گناہ سمجھتے ہیں؟

مسلم لیگی حکومت میں اگر مسلم لیگی کارکنوں کے حالات نہ بدلیں ان کی فریاد کوئی سننے والانہ ہو ٗ وہ دربدر کی ٹھوکریں کھاتے کھاتے ٗ بے روزگاری ٗ تنگ دستی ٗ مالی پریشانیوں سے دست بدست جنگ کرتے ہوئے قبروں میں اتر جائیں تو اس پر کسی کو حیرت نہیں ہونی چاہیئے کیونکہ ایک جانب مسلم لیگی نمائندے ووٹ لے کر ایسے رفو چکر ہوتے ہیں کہ ان کانام و نشان اگلے الیکشن سے پہلے نہیں ملتا تو دوسری جانب شریف برادران ہیں جو کسی بھی پریشان حال اور مسائل کے ستائے ہوئے مسلم لیگی کارکن سے ملاقات کرنا گنا ہ تصور کرتے ہیں ۔یہ باتیں ایسے نظریاتی اور پرانے مسلم لیگی کارکن کی ہیں جو زمانے بھر سے شریف برادران کی پارسائی کی قسمیں کھا کھا جھگڑا کیاکرتا تھا جو اپنے بہن بھائیوں میں اکیلا مسلم لیگی تھی جو ہر الیکشن میں نہ صرف اپنے والدین بلکہ اپنے بیوی بچوں سمیت عزیز رشتہ داروں کو اپنی جیب سے رکشہ کرایے پر لے کر مسلم لیگ ن کو ووٹ ڈلوانے کے لیے پولنگ اسٹیشن لے جایا کرتا تھا ۔سارا دن گلی کوچوں میں مسلم لیگ ن کی کامیابی کے لیے سرگرداں رہتا شام ڈھلے جب گھر واپس لوٹتا تو جیب خالی اور رب والی کی بات ہوتی ۔ بھوکاپیاسا رہ کر وہ شخص صرف اور صرف پاکستان کے روشن مستقبل کی خاطر مسلم لیگ ن کے قائدین کو اقتدار میں دیکھنا چاہتا تھا اسے یقین تھا کہ جب بھی مسلم لیگ ن کو اقتدار ملا تو جہاں پاکستان ترقی کرے گا وہاں مسلم لیگی کارکنوں کی بھی سنی جائے گی۔پیپلز پارٹی ٗ مسلم لیگ ق ٗ تحریک انصاف سمیت وہ کونسی جماعت ہوگی جس کے کارکنوں کے ساتھ اس کے جھگڑے نہ ہوئے ہوں ۔اتنی وکالت اور پارسائی کی قسمیں تو حسین نواز بھی نہیں کھاتا ہوگا جتنی وہ شخص شریف برادران کے بارے میں کھایا کرتاتھا ۔1985ء سے لے کر 2013ء تک ہر قومی ٗ صوبائی اور بلدیاتی الیکشن میں وہ دامے درمے سخنے مسلم لیگ ن کی کامیابی وکامرانی کے پیش پیش رہا ۔لیکن جب سے بے روزگاری ٗ تنگ دستی اور بے وسائلی نے اس کے گھر کے دروازے پر ڈیرے ڈالے ہیں وہ اپنی فریاد اپنے قائدشہباز شریف تک پہنچانا چاہتا ہے لیکن درجنوں خطوط وزیر اعلی پنجاب کی حیثیت سے شہباز شریف کو 7 کلب روڈ پر اس امید پر بھجوا چکا ہے کہ میرا قائد خط ملتے ہی اگر میرے گھر نہیں آئے گا تو کم ازکم مجھے ضرور اپنے پاس بلائے گا وہ اسی خوش فہمی میں مبتلا ہر خط کو پوسٹ کرنے کے چند ہفتے بعد تک ڈاکیے کا منتظر رہتا ہے کہ کب اس کے قائد کی جانب سے پیغام نوید ملتاہے اور کب وہ سب کو دکھاکر اور سب کو بتا کر شان و شوکت سے وزیراعلی ہاؤس اپنے قائد سے ملنے جائے گا لیکن ہر بار اسے مایوسی کا سامنا کرنا پڑتا ہے وہ ہر بار مایوس ہوجاتا ہے پھر نہ جانے کیوں اس کے دل میں یہ امید پیدا ہوتی ہے کہ شاید یہ خط محکمہ ڈاک نے وزیر اعلی تک پہنچایا ہی نہ ہو اور راستے میں ہی کہیں کھو گیا ہو ۔ وہ ایک بار پھر یہ امید لیے نیا خط لکھنے بیٹھ جاتا ہے ۔ مایوسیوں نے اسے اس قدر گھیر لیا کہ اب اس کی ہمت بھی جواب دینے لگی ہے اس کے ارادوں پر اوس پڑ چکی ہے جسم میں وہ پہلے والی پھرتی اور تیزی نہیں رہی ۔ وہ اس وقت مقروض بھی ہے ٗ بے روزگار بھی ہے ٗ تنگ دست بھی ہے اور حالات کے ہاتھوں مجبور بھی ۔ اگر شہباز شریف یا حمزہ شہباز ذاتی طور پر اس گولڈمیڈلسٹ کارکن سے رابطہ کرنا چاہیں تو موبائل نمبر 0320-4853195 پر رابطہ کرسکتے ہیں لیکن وہ کسی اور شخص سے بات نہیں کرنا چاہتا کیونکہ وہ چاپلوسوں کے ہاتھوں دھوکے اور دھکے کھاکھا کر تنگ آچکا ہے غلط اور جھوٹے سیاسی وعدوں سے تنگ آکر وہ زندگی کی آخری سٹیج پر پہنچ چکاہے۔یہ صرف ایک مسلم لیگی کارکن کی بات کررہاہوں لیکن یہاں آوے کاآوہ ہی بگڑا ہوا ہے۔مسلم لیگ ن کو تین مرتبہ مرکز اور پانچ مرتبہ پنجاب میں اقتدار اس لیے مل چکا ہے کہ بطور خاص پنجاب کے لوگ شریف برادران کو دل و جان سے محبت کرتے ہیں لیکن شریف برادران کی یہ خوبی ہے کہ جہاں وہ دوران الیکشن عوام سے کیے ہوئے وعدے بھول جاتے ہیں وہاں ان مسلم لیگی کارکنوں کو بھی فراموش کردیتے ہیں جو اپنا آرام بھول کر جیب سے پیسے خرچ کرکے ان کی کامیابی کے لیے راہ ہموار کرتے ہیں۔2013ء کے الیکشن میں شریف برادران یہ کہتے ہوئے نہیں تھکتے تھے کہ عمران کیا انقلاب لائے گا انقلاب ہم لائیں گے ۔پاکستانی قوم نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا ہے کہ شریف برادران سوا سال کے عرصے میں کتنا عظیم تر انقلاب لا چکے ہیں ۔وہ بجلی کے بل کبھی ہزار بارہ سو آیا کرتے تھے مسلم لیگی حکومت کی مہربانی سے اب اتنے ہی یونٹ کا بل 6 ہزار سے تجاوز کرچکا ہے۔390یونٹ کے بل میں 300 یونٹ کا ریٹ 14 روپے جبکہ باقی 90 یونٹ کا 17 روپے فی یونٹ کے حساب سے لگایا گیا ہے سب سے بڑی زیادتی جنرل سیلز ٹیکس کی صورت میں 874 روپے مزید وصول کیے جارہے ہیں اس طرح تمام ٹیکس ملاکر 6243 روپے بل بھجوا کرگھر میں صف ماتم بچھا دیاہے۔کیا شریف برادران سے یہ بات چھپی ہوئی ہے کہ 80 فیصد پاکستانی عوام غربت کی انتہائی سطح سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔نواز شریف کے چہچتے وزیر خزانہ اسحاق ڈار کا یہ کارنامہ پہلے سے مری ہوئی پاکستانی قوم کی کمر میں خنجر کی مانند ہے جو انہوں نے بجلی گیس ٹیلی فون آٹا دالیں سبزیوں موبائل ری چارج چیک بک ٗ پیسے نکلوانے جمع کروانے نہ جانے اور کس کس مد پر سیلز ٹیکس کی شرح میں اضافہ کرکے قوم سے پرانی دشمنی نکالی ہے ۔ مہینے کی آخری تاریخوں میں جب بجلی کا بل آتا ہے تو کئی دن تک گھروں میں لڑائی ختم نہیں ہوتی ۔بیوی شوہر سے لڑتی ہے کہ بل جمع کروانے کے لیے پیسے لاؤں ۔ شوہر بیوی سے لڑتا ہے کہ میں کہاں سے لاؤں ٗ باپ بیٹوں سے جھگڑتا ہے کہ اتنی زیادہ مالیت کے بل کو کون ادا کرے گا ۔ آٹا جو کبھی دس پندرہ روپے کلو فروخت ہوتا تھا نواز حکومت کے بدترین اقدامات کی بدولت 40 روپے فی کلو تک پہنچ چکا ہے 200 روپے فی کلو گھی / تیل خرید کر کون سالن پکائے گا۔ 80 روپے فی کلو ٹماٹر ٗ 80 روپے کلو آلو ٗ 300 روپے کلو دالیں خرید کر کیا گھر کے اخراجات پورے کیے جاسکتے ہیں تعلیم اور صحت کے اخراجات تو ویسے ہی تمام حدیں پھلانگ چکے ہیں ۔بجلی اور گیس اب انسانی زندگی کے لیے لازم قرار پا چکی ہے لیکن نواز حکومت بھی سابقہ حکومتوں سے بڑھ کران کی قیمتوں میں نہ صرف مسلسل اضافہ کررہی ہے بلکہ بجلی اور گیس کی بدترین قلت نے عوام کو ذہنی مریض بنا کے رکھ دیاہے لیکن اپنے شاہانہ اخراجات پہلے سے بھی زیادہ ہوتے جارہے ہیں۔ اب اگر عمران اورقادری کے جلسوں میں لاکھوں افراد بن بلائے جمع ہوجاتے ہیں تو یہ مسلم لیگ ن کی حکومت کی بد اعمالیوں اور بدترین اقداما ت کا نتیجہ ہے کہ ہر شخص ہر مہینے بجلی کا بل ہا تھ میں لے کر چیختا چلاتا بجلی کے دفتروں کا طواف شروع کردیتا ہے جیب خالی اور رب والی بات پوری ہوچکی ہے۔اگر یہ کہاجائے تو غلط نہ ہوگا کہ مسلم لیگ ن کی حکومت کا فائدہ صرف شریف برادران اور وزیروں مشیروں کو ضرور ہوا ہوگا جن کے اثاثے د ن دوگنے اور رات چوگنی ترقی کررہے ہیں اس کے برعکس مسلم لیگی کارکن ہو ں یا مسلم لیگی ووٹر وہ پہلے بھی ہر الیکشن کے بعد جھوٹے وعدوں کو سینے سے لگاکر دھکے کھاتے رہے ہیں اور اب بھی کھا رہیں گے ان کا نہ پہلے کوئی پرسان حال تھا اور نہ ہی اب ان کا کوئی والی وارث ہے۔ان حالات میں شریف برادران مسلم لیگی کارکنوں سے ملناگناہ تصور کرتے ہیں جبکہ ہر مصیبت زدہ مسلم لیگی کارکن اپنے قائد سے ملنے کی امید آنکھوں میں قبر میں اترنے کی تیاری کررہاہے۔
Aslam Lodhi
About the Author: Aslam Lodhi Read More Articles by Aslam Lodhi: 804 Articles with 882112 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.