ہم ہیں سب سے الگ
(Asghar Jaan Langove , Fareed Abad)
اسلامی جمہوریہ پاکستان جو دنیا میں منفرد
مقام رکھتا ہے ۔مشرق سے مغرب تک دنیا میں کوئی پاکستان جیسا ملک ملک ہی نظر
نہیں آ ئے گا جہاں پاک سر زمین جیسا افر تفری چل رہا ہو ۔ مسائل چھوٹے
چھوٹے ہیں مگر لگتے بہت بڑے ہیں۔ ان کو حل کرنا بالکل آ سان مگر حل کرنا ان
کو پسند نہیں ہے۔ اگر ہم بات کریں حکومت کی تو حکومت میں رہنے والے حکمران
عوام کو ہمیشہ بناتے ہیں قربانی کا بکرا اور اپوزیشن کبھی دوست تو کبھی
دشمن مگر بات صرف باتوں کی جنگ تک محدود ہوتی ہے ۔اب تو تحریک انصاف عمران
خان اور عوامی تحریک کے مولانا طاہر القادری صاحب حکومت چیلنج کر چکے ہیں ۔ان
کا میچ فائنل ہے جو ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتا اور نہ بارش کی وجہ سے
ڈراء ہو رہا ہے ۔ ابتداء کے ایام میں عوام، حکمران اور اتحادی و اپوزیشن
بھی کافی پریشان نظر آ رہے تھے اب وہ دم تو نہ رہی مگر عمران خان اپنے
اصولوں کی سیاست جوحکمرانوں کو حمام کے بجائے بازار میں ننگاکر رہے ہیں۔
پھر ایسی ننگا کرنے کا فائدہ کیا کہ کوئی سبق حاصل نہ ہو ، عوام کو نہ ہی
حکمرانوں کو۔
بحر حال ! ہر سیاست دان ایک دوسرے کے ساتھ کمپروو مائز کرتے ہیں جو کہ عوام
کے لئے نقصان دہ ثابت ہوتا ہے ۔ ہم سب سے الگ ہیں ۔پاکستانی قوم کو دینامیں
اپنی مقام حاصل ہے ۔اگر ہم بات کریں انصاف کی تو آ ج کل کے وکیل بھی بڑے
چالاک نظر آ تے ہیں ۔ مہنگی فیس اور غرور تو ان کا وراثت ہے ۔ انصاف دینے
والے بھی بے رحم ہوتے جا رہے ہیں ۔سچ اور جھوٹ میں فرق ہی نہیں رکھتے ہیں
ملزم غریب ہے تو مجرم امیر ہے آ زاد ہے ۔اگر کوئی ڈاکٹر ہے ان کا دھیان
علاج کے بجائے مریض کے پیسوں کی طرف ہوتا ہے ۔زیادہ تر دیکھا جاتا ہے کہ
بیماری پیٹ کی اور دوائی سر درد کی دیتے ہیں ۔ دوائی پچاس روپے کا تو ان کا
چیک اپ فیس پانچ سو روپے ہے ۔ اگر بات کریں پولیس کی تو پولیس والے خود بڑے
چور ہیں ۔ جیب اور موبائل چور کو جیل اور قاتل اور ڈاکو کو آ زاد گومننے
دیتے ہیں۔گاڑی کی کاغذ کے بغیر خود گومتے ہیں اور عوام سے کاغذ مانگ کر
بلیک میل کر کے سو سے دو سو روپے رشوت لیتے ہیں ۔ عدالتی ریمانڈ کے حکم سے
پہلے کی ملز م کا کام تمام کرتے ہیں جہاں سے پکڑا جوتوں کے ساتھ مار شروع
کر کے تھانے تک بندے کو بے حال کرتے ہیں۔ جرم ثابت ہی نہیں ہوتا ملزم کا
مجرم سے بد تر سمجھتے ہیں ۔ اگر بات کریں سیاست دانوں کی تو ووٹ کے اوقات
ان کے چہرے پر معصومیت اور جیتنے کے بعد غرور اور ہانے کے بعد یہ گھر سے
بھی نہیں نکلتے ہیں ۔عوام فاقہ کشی میں مبتلا ہے ، غربت کی وجہ سے خود کشی
پر مجبور ہے ۔ حکمرانوں کا شوق بادشاہت کی تخت پر بیٹھنے کا ہے ۔اگر بات
کریں بجلی کی تو لوڈشیڈ نگ سے عوام اور حکمران دونوں بے زار ہوئے ہیں ۔چھ
ماہ میں لوڈ شیڈ نگ ختم کرنے کے دعوے دار ابھی چھ سال کی بات کر رہے ہیں ۔
ایسے جھوٹے حکمرانوں کے خلاف عوام کے لئے قادری اور عمران کی قیادت ہی اچھی
ہے ۔ اس وقت ملک میں حالات کافی تلخ حقائق ہیں ۔
بجلی و گیس کی لوڈشیڈنگ کیخلاف ملک بھر میں احتجاج اور مظاہروں کا سلسلہ
جاری ہے۔ گیس و بجلی کی لوڈشیڈنگ کے باوجود انکے نرخوں میں اضافے پر بھی
صارفین سراپا احتجاج ہیں اوپر سے صارفین کو استعمال سے کئی گنا زائد کے بل
بھجوا دیئے گئے جس پر کابینہ کے اجلاس میں وزراپھٹ پڑے اور وزیراعظم نے
کمیٹی بنا کر معاملہ لٹکا دیا۔ مہنگائی کے طوفان نے شہریوں کو عذاب میں
مبتلا کر رکھا ہے ۔10لاکھ آئی ڈی پیز اور ان سے دگنا سیلاب متاثرین کسمپرسی
کی زندگی گزار رہے ہیں۔ ہر روز آبروریزی کی درجنوں وارداتیں رپورٹ ہوتی ہیں
،انصاف نہ ملنے پر خواتین خودسوزی کرلیتی ہیں۔ بھوک سے اجتماعی خودکشیاں
ہوتی ہیں، لوگ پیٹ کی بھوک مٹانے کیلئے اپنے بچوں کو فروخت کرتے بھی دیکھے
گئے ہیں۔ میرٹ کا جنازہ جمہوریت اور آمریت کے ادوار میں یکساں نکالا گیا
اور آج بھی اس حوالے سے کوئی خیر کی خبر نہیں ہے۔ گورنر پنجاب چودھری
سرورکا کہنا ہے کہ کرپشن پہلے کی طرح ہو رہی ہے وزرابھی اس بداعمالی میں
شریک ہیں۔ ہماری کارکردگی صفر رہی۔ صارفین کو موسم سرما میں گیس کی شدید
قلت کا سامنا کرنا پڑیگا۔ ایسی تشویشناک اور مایوس کن خبریں روزانہ پڑھنے
اور سننے کو ملتی ہیں۔ جدید اور جمہوری دور میں عوام کو ایسے مسائل کا
سامنا یقینا پریشان کن ہے۔ ان حالات تک عوام کو جس نے بھی پہنچایا ان سے
عوام کو نجات دلانا اپنی اپنی حیثیت کے مطابق سیاست دانوں کی ذمہ داری ہے
جو اس سے راہ فرار اختیار کر رہے ہیں ان میں چیلنجز کا مقابلہ کرنے اور
مسائل حل کرنے کی صلاحیت نہیں یا وہ دلچسپی ہی نہیں رکھتے۔
قارئین۔۔۔
آج کا کوئی بھی اخبار اٹھا کر دیکھ لیں سیاست دانوں اور دانشوروں کے بیانات
سے بھرے پڑے ہیں ان میں سب کچھ ہے ایک دوسرے کا مذاق اڑایا گیا ہے الزامات
کی بوچھاڑ کی گئی ہے جوابی الزامات بھی موجود ہیں اگر ان میں کچھ نہیں ہے
تو عوامی مسائل اور انکے حل کی بات نہیں ہے۔ کسی دانشور نے اخبارات کو
سیاست دانوں کا اگالدان کہا تھا الیکٹرانک میڈیا کو بھی اس میں شامل کیا جا
سکتا ہے۔ آج مخصوص الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا واقعی اگالدان نظر آرہا ہے۔
وزیراعظم میاں نوازشریف کہتے ہیں خان صاحب اور انکی جماعت کو پتہ نہیں ترقی
کرتی معیشت اور سیاسی استحکام سے کیوں دشمنی ہے۔ پرویز رشید نے کہا کہ
کراچی میں جلسہ تحریک انصاف اور متحدہ کا مک مکا تھا۔ عمران خان نے کراچی
میں جلسہ سے خطاب میں کہا بھٹو کے نام پر جھوٹ بول کر سندھیوں سے ووٹ لئے
جاتے ہیں، سعودی عرب امریکہ اور گلوبٹ بھی نوازشریف کو نہیں بچا سکتے۔
بلاول بھٹو یوں گویا ہوئے، اسٹیبلشمنٹ کے ٹیسٹ ٹیوب سیاست دان کسی صورت
برداشت نہیں۔ 18اکتوبر کو مخالفین کو جواب دینگے۔ طاہرالقادری نے نوید
سنائی کہ انقلاب آخری مرحلے میں داخل ہو چکا ہے۔ جماعت اسلامی تحریک
پاکستان میں پرجوش طریقے سے عدم شمولیت کا شاید کفارہ ادا کرنے کا ارادہ
رکھتی ہے۔ جاوید ہاشمی نے سنی سنائی اڑا کر سیاست میں مزید ہلچل پیدا کردی
کہ لندن میں عمران طاہرالقادری ملاقات میں گورنر سرور چودھری موجود تھے۔
چودھری سرور نے تردید کرتے ہوئے کہا کہ ملاقات ثابت ہو جائے تو سیاست چھوڑ
دوں گا۔ ان بیانات کو ایک بار پڑھیں یا بار بار پڑھیں عام آدمی کی بھلائی
رہنمائی اور انکے مسائل کے حل کا ایک لفظ بھی موجود نہیں ہے۔
قارئین۔۔۔
جاوید ہاشمی اپنی بیباکی کے باعث اچھی شہرت رکھتے ہیں، انہوں نے آمریت کے
گملے میں پرورش پائی ،تاہم پختہ کار ہو کر جمہوریت کے نگہبان ٹھہرے ،وہ بھی
الزاماتی سیاست اپنائے ہوئے ہیں۔ بلاول بھٹو زرداری نوجوانوں کی نمائندگی
کرتے ہیں لیکن وہ بھی الزامات اور جوابی الزامات کی دلدل میں پھنس گئے ۔
میاں نوازشریف تیسری بار وزیراعظم بنے انکے اقتدار کا پیمانہ دو اڑھائی سال
ہی میں چھلک جاتا ہے۔ اب سوا سال میں ہی وہ پریشان اور انکی حکومت سٹیک پر
لگی نظر آرہی ہے۔ عمران خان نوجوان نسل کے آئیڈیل ٹھہرے وہ جمہوریت کے
استحکام کے بجائے اسکی کمزوری کا سبب بن رہے ہیں۔ ہمارے سیاست دان چاہے وہ
حکومت میں ہیں، اپوزیشن میں یا دھرنے والے ہیں سب عوام اور انکے مسائل سے
لاتعلق نظر آتے ہیں۔ میٹرو اپنی جگہ ایک بہتر منصوبہ ہے مگر عوامی مسائل کا
حل میٹرو اور موٹروے سے کچھ آگے کا متقاضی ہے۔ میاں نوازشریف بھاری مینڈیٹ
کی حامل حکومت کے قائد ہیں۔ اقتدار اور اختیارات انکے ہاتھ میں ہیں، نجانے
کیوں وہ عوام کو مطمئن کرنے سے قاصر ہیں جبکہ انکی حکومتی رٹ کہیں نظر نہیں
آتی۔صرف نوازشریف اور انکی حکومت ہی پر موقوف نہیں قوم تمام سیاست دانوں سے
یکساں طور پر مایوس نظر آتی ہے۔ مشرف کی نیم جمہوری حکومت کے بعد
پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن)مکمل جمہوری حکومتیں تھیں ،عوام آمریت میں
مطمئن تھے نہ نیم جمہوری اور بعدازاں مکمل جمہوری حکومتوں کی کارکردگی سے۔
ان کیلئے نیا دن گزرے دن سے زیادہ برا ثابت ہوا۔ دن بدن عوام کے صبر کا
پیمانہ لبریز ہو رہا ہے، ان کا جمہوریت پر سے اعتماد بداعتمادی میں بدل رہا
ہے۔
شاطروں کی شہہ پر خود اپنے خلاف
کس قدر فعال ہوجاتے ہیں ہم
کوئی ا ستعمال کرتا ہے ہمیں
اور استعمال ہوجاتے ہیں ہم |
|