مظفررحمانی
استاذ:دارالعلوم سبیل الفلاح جالے،امام وخطیب: جامع مسجد جالے،دربھنگہ بہار
قربانی اللہ کے نزدیک تمام عملوں میں سب سے زیادہ پسندیدہ عمل ہے ،اللہ کے
رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک صحابی نے دریا فت کیا کہ اے اللہ کے رسول
صلی اللہ علیہ وسلم ! قربانی کیا ہے؟ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے
فرمایا: یہ تمہا رے دادا حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے،عبدیت اور
بندگی، ایثارو قربانی کی یہ آخری سرحد تھی جہاں حضرت ابراہیم علیہ السلام
نے اپنی جبین نیاز واحدو یکتا رب کے سامنے خم فرماکر کائنات کے ذرہ ذرہ کو
دانتوں تلے انگلیاں دبانے پر مجبور کردیا تھا،آسمان کی بلندی،سورج کی
تیزشعاعیں،چاند کی چاندنی، خنک ہوائیں،زمین کا ذررہ ذرہ،معصوم فرشتوں کی
جما عتیں،چہچہانے والے چرندو پرند،حشرا ت الارض،سمندر کی مچھلیاں،دریاؤں
کی روانگی،ٹھاٹیں مارتا سمندر،لہلہاتی ہریالیاں،پھولوں کی خوشبو، گل
وبلبل،شجرو، حجر، شام و سحر محو حیرت تھی کہ عشق ومحبت کی یہ کون سی وادی
ہے اور اس وادی میں رہنے والا یہ کون عاشق ہے ،جو عشق کی سرحدوں کو پھلانگ
کر مجازی عشاق کا منہ چڑھا رہا ہے،عاشقی کے خوبصورت نغموں نےنذرانہ عقیدت
پیش کرنے سے پہلے دم توڑدیا،اور اپنی بے بسی پر اس معصوم بچے کی طرح سسکیاں
بھرنے لگا جو کامیاب کوشش کے باوجود بالکل آخری وقت میں پھسل گیاہو، باد
صبا نے رک کر اور ٹھٹھک کراس عاشق کو سلامی دیا جو ابھی عشق و جنوں کی تپتی
اور تیز جلتی بھٹی سے بے گھر کئے گئے اور ایسی جگہ بسائے گئے جہاں آسمان
کا چھت، اور زمین کا بستر میسر آیا،کھانے کیلئے کھجور کے چند خوشےاور ان
خوشوں میں بھی کھجور کےچند ناکافی دانے،پانی کے چند گھونٹ
آرزؤں،تمناؤں،اوردعاؤں کا نتیجہ حضرت اسماعیل علیہ السلام جنہوں نے
ابھی گنتی کے چند بہاروں کو ہی دیکھا تھا،اور باپ حضرت ابراہیم علیہ السلام
نے جی بھر کر بھی نہیں دیکھا تھا اور نہ ہی آنکھ ٹھنڈی ہوئی تھی،بیوی
ہاجرہ جن کی نگاہ محبت نے ہرگام پر اپنے شو ہر کا حوصلہ بڑھایا تھا اور
الفت و محبت کا جام پلاکر عاشق حقیقی سے لو لگانے کا پورا موقعہ فراہم کیا
تھا،ان دو عارضی محبتوں کو چھوڑ کر آزمائش کی بھٹی میں عشق حقیقی کے نایاب
درس کی پوری دنیا اور قیامت تک آنے والی انسانیت کو دعوت دی۔
ادھر حضرت اسماعیل علیہ السلام اپنی ماں کی تربیت اور محبت کی آنچل کے
سائے میں پاؤن پاؤن چلنے لگے۔ عمر کے اب اس دہلیز پر حضرت اسماعیل علیہ
السلام نے قدم رکھ دیا تھا جہاں ایک بیٹا اپنے باپ کیلئے سہارا بنتا
ہے،لیکن عین امید کے آستانے، اورخوابوں کے اس محل کویہ کہ کر چکنا چور
کردیا کہ تم سب سے زیاد محبت کر نے والے فرزند حضرت اسماعیل علیہ السلام کو
میرے دربار میں حاضرکرو،اور میری خوشنودی کیلئے قربان کرو،ایک نبی باپ نے
اپنے ہونے والے نبی بیٹا سے اس قربانی کا تذکرہ کیا تو سخت جان پہاڑ کے دل
دہل گئے،رواں سمندر نے اپنی روانی پر بریک لگادیا،بہتے دریا خاموش
ہوگئے،چاند کی چاندنی مدھم پڑگئ،سورج کی شعائیں ماند ہوگئی،بلبل نے چہچہانا
چھوڑدیا،پھولوں کی خوشبو پھیکی پڑگئی،دریاؤں میں مچھلیوں نے تیرنا بند
کردیا،،لیکن بیٹے
نے پورے اطمینان کے ساتھ کہا ابا حضور وہ آپ کر گذریں جس کا اللہ نے آپ
کو حکم دیاہےاور ہاں اپنی آنکھ پر پٹی بھی باندھ لیں کہیں ایسا نہ ہوکہ
میری محبت، حقیقی محبت کے درمیان آجائے۔ وہ کون تھے جس نے سکھلا ئےتھے
آداب فرزندی ، تیز دھار دار چاقو ہاتھ میں لئے حضرت ابراہیم علیہ السلام
نے حضرت اسماعیل علیہ السلام کے حلقوم پر پھیر دیا،ادھر اس معشوق حقیقی کو
بھی دیکھیں کہ ان کا صرف امتحان لینا مقصودتھا اس لئے نار نمرود میں
ڈالےجانے سے قبل ہی آگ کو حکم دیا، اے آگ تو ٹھنڈی ہوجا میرے ابراہیم پر
سلامتی کے ساتھ،اور ادھر حکم دیا چھڑی کوکہ اپنا کام بند کردے، اور اپنے
خاص فرشتہ حضرت جبرئیل علیہ السلام کےساتھ جنت سے مینڈھا بھیجا،اورحضرت
اسمعیل علیہ السلام کی جگہ مینڈھے کی قربانی دی گئی،اور اپنے محبوب کی اس
سنت کو قیامت تک کیلئے ہرمستطیع پر لازم کردیا ۔عیدالاضحیٰ حضرت ابراہیم
اور حضرت اسماعیل علیہماالسلام کی اسی عظیم اور بے مثال قربانی کی یاد تازہ
کرنے کیلئے تمام عالم اسلام میں ۱۰/ذی الحجہ کو بڑے جوش وجذبے سے منائی
جاتی ہے ۔
ربنا تقبل منا انک انت السمیع العلیم |