لولی لنگڑی آمریت

آجکل ہمارے ہر سیاستدان کے منہ سے یہ الفاظ سننے کو ملتے ہیں کہ آمریت کی بجائے لولی لنگڑی جمہوریت چاہیے ۔چاہے وہ ہچکولے کھا رہی ہویا قبر میں ٹانگیں لٹکائے ہوئے ہو وہ آمریت سے بہترہے کیونکہ وہ ہمارے سیاستدانوں کی سیاسی دوکانیں چمکانے کے لئیے ضروری ہے کیونکہ آمریت میں کرپشن اور لوٹ مار کی وجہ سے انکا مستقبل جیل کی کال کھوٹریاں یا عدالتوں کے چکر ہیں۔

جس ملک میں اٹھارہ کروڑ لوگوں کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں پکانے کے لیئے دو وقت کی روٹی اور پہننے کے لیئے لباس تک میسر نہیں ہے ۔ وہاں روٹی کپڑا مکان جیسے انتخابی وعدے محض ایک ڈھو نگی مذاق کے علاوہ کچھ نہیں ہے دھرنوں کی وجہ سے ملک سے جمہوریت کی بساط لپٹنے کے ڈر سے تمام کرپٹ سیاستدان ایک چھتری تلے اکھٹے ہوگئے ہیں کہ جمہوریت کو بچاناہے اسے ڈی ریل نہیں ہونے دینا کیونکہ اسکے ہوتے ہی سب کی بقاء اور لوٹ ما ر کا کاروبا ر چمکتا ہے ۔ خبر ہے کہ ہمارے ملک کے وزیراعظم 65لاکھ کی گھڑی پہنتے ہیں اور مہنگی ٹائیاں لگاتے ہیں جو انہیں دیگر کی نسبت نمایاں کرتیں ہیں اور وہ شہزادوں جیسی زندگی کے متمنی ہیں۔

اقوام متحدہ کی جنر ل اسمبلی سے خطاب کے لیے وزیراعظم امریکہ روانہ ہو چکے ہیں وہ نیویارک کے مہنگے ترین ہوٹل جہاں امریکی صدر باراک اوباما بھی قیام کرینگے ۔اس ہوٹل کا ایک دن کا کرایہ 80لاکھ روپے بتایا جاتا ہے اس سفر کے مجموعی اخراجات سو ا آٹھ کروڑ روپے بنیں گے جو ہماری غریب عوام کا خون نچوڑ کر پورے کیئے جائیں گے ایران کے سابق صدر ا حمدی نجاد جب جنرل اسمبلی کے پچھلے اجلاس کے لیئے گئے تھے تو انہوں نے انتہائی سستے ہوٹل میں قیام کیاتھاکیونکہ وہ جانتے تھے کہ قومیں اپنے لیڈروں کے قول وفعل سے بنتی ہیں لیکن ہمارے سیاستدانوں کو اس سے کیا مطلب ۔انہوں نے عوا م کو جمہوریت کے نام پر بے وقوف بنا رکھاہے اور دونوں ہاتھوں سے عوام کا خون نچوڑ کر اپنے بلڈ بنک بھرتے جارہے ہیں۔

کرپٹ نظام کے تحت دھاندلی زدہ الیکشن ہونے کے باوجود نواز شریف وزیراعظم کی کرسی کو چپکے بیٹھے ہیں کہ اسی کرسی کا نا م جمہوریت ہے جبکہ جمہوری نظام میں شخصیات کی بجائے ادارے مستحکم کیئے جاتے ہیں اداروں کا جمہوری تسلسل ضروری ہے نہ کہ وزیراعظم نوازشریف کا ب برجمان ہونا۔نواز شریف اگر سمجھتے ہیں کہ دھرنوں سے ملک کا روزانہ اربوں روپے کا نقصان ہو رہا ہے تو وہ ملک کی خاطر قربانی دیں تاکہ ادارے مستحکم ہو سکیں ۔اگر انکو مغل اعظم بننے کا شوق ہے تو وہ سعودی عر ب میں پورا کریں ۔

نواز شریف کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ کرسی کبھی کسی کی نہیں ہوتی ۔بھٹو نے بھی ایک بار کہا تھا کہ میر ی کرسی بڑی مضبوط ہے لیکن بعد ازاں اسے بھی کرسی سے ہاتھ دھونے پڑے ۔

سیاستدان دن رات یہ راگ الاپتے نہیں تھکتے کہ آئین کا تحفظ ضروری ہے وہ مقدس کتاب ہے حسن نثار صاحب نے مقدس کتاب کی تشریح کرتے ہو ئے کہاتھا کہ مقدس کتاب وہ ہوتی ہے جس میں کو ئی ترمیم نہ ہوسکے جیسے قرآن پاک ۔ جس کتاب میں آئے روز ترمیم ہوتی ہے وہ بھلا کیسے مقدس ہو سکتی ہے لہذا ہمارے سیاستدانوں کو مقدس جیسے الفاظ آئین کے لیئے استعمال نہیں کرنے چاہیں۔

جس ملک میں غریب کو انصاف حاصل کرنے کے لیئے تین نسلوں کی بھلی دینی پڑے ۔تھانے بکے ہوں فنڈز ارو اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی نہ ہو ۔بلدیاتی الیکشن نہ ہوں ۔عوام کی فلاح و بہبود کے پروگرام اور سکیمیں شروع نہ کی جائیں ۔لوگ غربت کے ہاتھوں خود کشیاں کرنے پر مجبور ہوں ۔وہاں آئین جیسی کتاب کی اہمیت کیا ہے جس آئین اور قانون کو بچانے کے لیئے آج تما م کرپٹ اشرافیہ متحد ہو گئے ہیں یہ آئین غریب کو روٹی کپڑا مکان نہیں دے سکتا ۔بجلی کے بھاری بل لوگ اپنے خون کو بیچ کر ادا کر رہے ہوں اس ملک میں جمہوری نظام چلتے رہنا چاہیے کیونکہ لولی لنگڑی جمہوریت آمریت سے بہتر ہے کہ جس میں عام آدمی کو روٹی تو ملتی ہے روزگار تو ملتا ہے ملک جمہوریت سے ذیادہ آمریت میں ترقی کرتا ہے ہمارے ڈیمز آمریت کے دنو ں میں ہی بنے ہیں وگرنہ ہمارے سیاستدان ڈیموں پر سیاست کررہے ہیں ملک کو پتھر کے زمانے اور جہالت کی تاریکی میں دھکیل دیا گیا ہے نظام تباہ ۔ادارے تباہ ۔کرپشن اور لوٹ مار کا بازار گرم مگر لولی لنگڑی جمہوریت چاہیے مذہبی انتہاپسندی اور لسانیت عروج پر مگر لولی لنگڑی جمہوریت چاہیے کیونکہ آمریت میں ان کی دال نہیں گلتی۔

وزیراعظم کو بالآخر کچھ لے کچھ دے کے اصول کے تحت اپنی گردن سے سریا نکالنا ہوگا تبی معاملات آگے بڑہیں گے وگرنہ دھرنے والے تو ڈی چوک کے عادی ہو گیئے ہیں وہاں خیمہ بستیاں دن بدن بڑھتی جارہی ہیں وہ لوگ جانے والے دکھائی نہیں دیتے ۔بلکہ عمران خان تو عید قربان بھی اسلام آبا د میں منانے کا ارادہ کئیے ہوئے ہیں دوسری طرف حکومتی ہٹ دھرمی بھی جا ری ہے ان بیلوں کی لڑائی میں نقصان فصل یعنی(پاکستان)کا ہو رہا ہے ۔پاکستان کو کس بات کی سزا دی جا رہی ہے خدارا ملک بچاؤ جمہوریت بچاتے بچاتے کہیں لو لی لنگڑی آمریت نہ آ جائے۔
 
Shahzad Hussain Bhatti
About the Author: Shahzad Hussain Bhatti Read More Articles by Shahzad Hussain Bhatti: 180 Articles with 168129 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.