ملک میں ایک طرف سیاسی دہشت گردی
ہو رہی ہے تو دوسری طرف خون خرابے والی دہشت گردی کا بازار گرم ہے کبھی
فوجی جوانوں کو ٹارگٹ کیا جاتا ہے تو کہیں پولیس کے افسران ٹارگٹ پر ہیں یہ
ایک دن کا واقعہ نہیں ہے اور نہ ہی راتوں رات خود کش انسان تیار کیے جاتے
ہیں یہ ہمارے سیاستدانوں کے گناہوں کی سزا ہے جو عوام کو مل رہی ہے کیونکہ
ہمارے حکمرانوں نے نہ قوم کا سوچا اور نہ ہی کبھی ملک کا خیال رکھا
ہرسیاستدان نے اپنے حصے کی دولت خوب لوٹی ملک کو کنگال کیااور اپنی اولاد
کو ملک کی حکمرانی کے لیے تیار کرنا شروع کردیا اور جیسے ہی کن ٹٹے سیاسی
ٹھگوں کو معلوم ہوتا ہے کہ انکے سیاسی آقاؤں کے بچے اب عوام کو بیوقوف
بنانے آرہے ہیں تو وہ نہایت ہی بھونڈے انداز میں بیان بازی شروع کردیتے ہیں
ایسی ایسی مکروہ شکلوں والے سیاستدان عوامی خدمت کے نام پر عوام کو بیوقوف
بنانتے ہیں کہ اگر انکو کسی ادارے میں میرٹ پر بھرتی ہونے کے لیے کہا جائے
تو وہ مشکل میں پھنس جائیں گے ہمارے دیہات کے سادہ لوح لوگ ان سیاسی شعبدہ
بازوں کی باتوں میں آکر انہیں کامیاب کروادیتے ہیں اور پھر ساری عمر کولہو
کے بیل کی طرح کام کرتے رہتے ہیں گذشتہ روز ساہیوال جانے کا اتفاق ہوا تو
وہاں ایک سینئر صحافی نے اپنے علاقے کے ایک سابق رکن پنجاب اسمبلی کا قصہ
سنایا کہ کیسے وہ ہر الیکشن میں کامیاب اور اسکی کی کامیابی سے علاقہ سکون
میں آجاتا تھا یہ اس کی ایمانداری تھی کہ وہ الیکشن جیتنے کے بعد عوام سے
کیے گئے وعدے پر پوری طرح عملدارآمد کرکے حکومت کو لوٹتا تھا کیونکہ اس کا
اپنے ہر انتخابی جلسے میں ایک ہی وعدہ ہوتا تھا کہ اگر میں جیت گیا تو پھر
حکومت کو لوٹوں گا اگر ہار گیا تو پھر آپ لوگوں کے مال مویشی محفوظ نہیں
رہیں گے اور علاقہ کے لوگ اسی ڈر اور خوف سے اسے ووٹ دیکر اپنی جان چھڑوا
لیتے تھے کہ اس ڈاکو سے ہمیں تو تحفظ ملے ملک کو بیشک یہ بیچ دے ہمارے اکثر
سیاستدانوں کا یہی حال ہے اور عوام ان سے اپنی جان چھڑوانے کے لیے انہیں
اسمبلیوں میں بھیج دیتے ہیں تاکہ انکے مال مویشی تو چوری ہونے سے بچ جائیں
یہی سیاسی دہشت گردی ہمارے ملک کو اندر ہی اندر سے کمزور کررہی ہے اور آج
حالت اس قدر خراب ہوچکی ہے کہ خون ریزی کرنے والے دہشت گردوں سے ہمارا نہ
کوئی ادارہ محفوظ ہے اور نہ ہی کوئی جوان جس کو جہاں ان دہشت گردوں کا دل
کرتا ہے نشانہ بنا ڈالتے ہیں ان دہشت گردوں کو ہمارے سیاسی دہشت گردوں کی
بھی بھر پور حمایت حاصل ہے جن کی وجہ سے آج ملک دہرے اور تہرے نظام کے تحت
چلایا جارہا ہے ایک طرف غریب اور محنت کشوں کو مہنگائی اور بے روزگاری کی
دلدل میں دھکیل کر انہیں خود کشیوں پر مجبور کیا جارہا ہے تو دوسری طرف
ہمارے موجودہ نظام سے بے زار اور اپنی محنت کے بل بوتے پر تبدیلی لانے
والوں کو ٹارگٹ کلنگ کے زریعے شہید کیا جارہا ہے ہمارا سب سے بڑا المیہ یہ
ہے کہ ہم اپنے اوپر ہونے والی ہر برائی اور زیادتی کوحکم ربی مان کر صبر
شکر کرلیتے ہیں یہاں لوگ ایک دوسرے کو لوٹنے کے سو طریقے سوچ لیتے ہیں اور
جو ہمارے حکمران ہونگے انکے پاس تو لوٹ مار کے ہزاروں طریقے ہونگے یہی وجہ
ہے کہ ایک یا دو الیکشن جیتنے والا اربوں روپے کا مالک بن جاتا ہے بیرون
ملک اسکے پلازے اور فلیٹ بن جاتے ہیں یہ تو پھر ہمارے سیاسی طور پر سیانے
لوگ ہیں ہمارے ملک کا تو پٹواری بھی کسی سے کم نہیں ہے لوٹ مار کے ریکارڈ
میں وہ بھی کسی سے پیچھے نہیں ہوتا ہمارا تھانہ کلچر بھی اسی لوٹ مار کا
حصہ ہے اور پچھلے دنوں ملتان میں3 پولیس والے ایک گھر میں ڈاکہ ڈالتے ہوئے
موقعہ پر پکڑے گئے یہ تو وہ ڈاکو ہیں جو منظر عام پر آگئے انکے علاوہ ہر
سیاستدان اور سرکاری ملازم لوٹ مار میں برابر کا حصہ دار ہے فرق صرف اتنا
ہے کہ انکی چوریاں ابھی تک پکڑی نہیں گئی حالانکہ انکے رہن سہن اور بودوباش
سے صاف نظر آرہا ہوتا ہے کہ یہ بھی ملک کے دشمن ہیں اور اسی شاخ کو کاٹ رہے
ہیں جس پر بیٹھے ہیں ملک میں چند لوگ ایسے بھی ہیں جو ایمانداری اور جرائت
سے اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہیں مگر انکے فیصلوں پر عمل کرنے والے سستی اور
لاپرواہی کا بھر پورمظاہرہ کررہے ہیں اس وقت جو اچھا کام کرنے میں دن رات
ایک کیے ہوئے ہیں ان میں سے ایک صوبائی محتسب پنجاب جاوید محمود کا تو میں
نے اپنے ایک گذشتہ کالم میں بڑی تفصیل سے ذکر کردیا تھا کہ اس عمر میں بھی
وہ کیسے بھاگ بھاگ کر عوامی مسائل کے حل کیلیئے کام کررہے ہیں بلخصوص بوڑھے
پنشنرز کی جو وہ خدمت کررہے ہیں وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے اس طرح ایک
خاتون محتسب میرا فیلبوس بھی پنجاب میں کام کررہی ہیں جو اپنی طرف سے پوری
دیانتداری اور ایمانداری سے خواتین کے مسائل حل کرنے کی کوششوں میں مصروف
ہیں پنجاب حکومت کا خواتین کے لیے صوبائی محتسب کا محکمہ بنانا ایک اچھا
قدام تھا اور اس سے بھی بڑھ کر جو اچھا اقدام تھا وہ میرا فیلبوس کو اس
محکمہ کا قلمدان سونپنا تھا جنہوں نے خواتین کے ساتھ زیادتی کے معاملہ میں
کسی کی سفارش کو قبول نہیں کیا اور میرٹ پر فیصلے کیے بعد میں خواہ انکے
چند فیصلوں پر عملدرآمد نہ ہوسکاکیونکہ دوسری طرف کے ملزمان کو سیاسی دہشت
گردوں کی پشت پناہی حاصل تھی مگر انہوں نے جو بھی کام کیا اپنی طرف سے کھل
کرکیا کسی بھی پریشر کو قبول نہ کرکے عورت ہوتے ہوئے مردوں سے آگے نکل گئی
ہیں ہم جہاں برے کو برا کہنے کی جرئا ت رکھتے ہیں وہی پر محنتی ،ایماندار
اور اچھے اخلاق والوں کی تعریف نہ کرنا بھی جرم سمجھتے ہیں کیونکہ ایسے
لوگوں کا ہمارے پاس کثرت سے فقدان ہے اگر ہم نے انکے اچھے کام کی بھی تعریف
نہ کی تو ہوسکتا ہیں کہیں یہ اچھے لوگ ہم سے روٹھ ہی نہ جائیں ۔ |