امریکامیں 46سال بعد گاڑی کا ملنا حیرت ہے.....!!!!
(Muhammad Azam Azim Azam, Karachi)
کیاکچھ پاکستان میں بھی کبھی
ممکن ہوسکتاہے....؟؟؟
اِس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اگرآج بھی ہمارے حکمرانوں، سیاستدانوں،اشرافیہ
اور قومی اداروں کے چیدہ چیدہ سربراہان اور عوام اپنے اندراچھی سوچ اور
وسعتِ نظری پیداکرلیں اور بلارنگ ونسل، زبان ومذہب اور ہر طرح کی تعصب اور
سیاست سے پاک مخلوقِ خدا کی خدمت کو اپنا شعار بنالیں ..توپاکستان میں بھی
سب کچھ ممکن ہوسکتاہے اور ہماراشماربھی دنیا کی بہت سی ایسی مہذب اور تہذیب
یافتہ اقوام میں ہوسکتاہے ،جہاں اِنسان کو اِنسان سمجھاجاتاہے، اور ہر
اِنسان کوپیداہوتے ہی اِس کے بنیادی حقوق برابری کی سطح پردے دیئے جاتے
ہیں،اور جہاں ہر شہری کے لئے اِنصاف کا حصول سانس لینے سے بھی زیادہ آسان
ہوتاہے،یعنی یہ کہ جہاں امیروغریب سب کو جینے کابرابرکاحق حاصل ہوتاہے،وہاں
بلارنگ و نسل اورزبان و مہذب سب کووہ سب کچھ حاصل ہوتاہے،جو شئے حاکم الوقت
کو ملتی ہے وہی ایک عام شہری کو بھی حاصل ہوتی ہے، اوردونوں ہی ایک
نمبرچیزیں اپنے اپنے لحاظ سے استعمال کرتے ہیں،اِسی لئے تووہاں دُھرامعیاری
زندگی کا سوال ہی پیدانہیں ہے۔وہاں پر ایسانہیں ہوتا...؟جیساکہ ہمارے مُلک
ِخداداد میں ہوتاہے کہ حکمرانوں، سیاستدانوں، اشرافیہ اور اداروں کے
سربراہاں کوتو اعلیٰ معیار کی چیزیں حتی کہ جنہیں مرضی کا انصاف بھی مل
جاتاہے جبکہ ہمارے مُلک میں غریب عوام ہر چیز سے محروم ہے ،آج مُلک کے
19کروڑ عوام کی قوی سوچ اور خام خیال یہ ہوگیاہے کہ ہمارے یہاں غریبوں کے
ساتھ یہ عمل قیامِ پاکستان سے لے کر ابھی تک جاری ہے،غریبوں کا کوئی بھی
پرسانِ حال نہیں ہے ، آج میرے دیس کاہر غریب یہ بھی سمجھتاہے کہ جیسے مملکت
ِ پاکستان حکمرانوں، سیاستدانوں ،اشرافیہ اور قومی اداروں کے سربراہان کے
لئے ہی بناہے ، اِس میں غریب تو بس یوں ہی زندہ باد کے نعرے لگانے کے لئے
رہتے ہیں ، اِسی لئے تو ہم ابھی تک دنیاکی مہذب قوموں میں شمارنہیں کئے
جاسکے ہیں ،اِسی دہرے معیار کی وجہ سے ہمارے گرین پاسپورٹ کو دنیاجس انداز
ونظرسے دیکھتی ہے ،اِسے بیان کرنے کے لئے الفاظ نہیں ہیں۔
مگرافسوس ہے کہ ہمارے یہاں اچھی ممکنات کو اُلٹ پلٹ کر اقتدارمیں آنے والوں
نے 19کروڑ عوام کے لئے ایک ڈراوناخواب بنادیاہے،عوام 68سالوں سے اپنے
بنیادی حقوق سے محروم ہیں،اورمُلک پرقابض چندمٹھی بھر خاندان اور مفادپرست
عناصراپنی تنگ نظری اور غاصبانہ سوچ کی وجہ سے عوام کے حقوق پرڈاکے ماررہے
ہیں وہ خود توعیش وطرب کی زندگی بسرکررہے ہیں اور عوام کو خطِ غربت سے بھی
نیچے رکھ کراِنہیں روکھی سوکھی روٹی ،پینے کے صاف وشفاف پانی ، اچھی خوراک
،سستاعلاج ،یکساں نظامِ تعلیم اوربہترین سفری سہولت سے بھی محروم کئے ہوئے
ہیں،گو کہ مُلکی خزانے پر زہریلے ناگ کی طرح قابض ہمارا حکمران ، سیاستدان
، اور اشرافیہ طبقہ قومی خزانے کو خود تو لوٹ رہاہے مگراِس سے عوام کو ایک
پائی کا بھی فیض پہنچانے کو تیارنہیں ہے،آج ایسالگتاہے کہ جیسے مُلک کے ہر
شہری کو اِس کے بنیادی حقوق سے محروم رکھنااِن سب کا مشغلہ بن گیاہے ۔
آج بھی تاریخ کے اوراق بھرے پڑے ہیں کہ دنیاکی کسی بھی تہذیب میں جب بھی
مفادپرست ٹولے نے کسی بھی مُلک پر اقتدار کی صورت میں اپنی حکمرانی قائم کی
اور عوام کے بنیاد ی حقوق کو غضب کیا تو عوام میں احساس محرومی پیداہوئی
اور عوام اپنے حقوق کے حصول کے لئے سڑکوں پرنکلے، پھر کہیں سُرخ انقلاب
آیا،تو کہیں ایسی تبدیلی آئی کہ جنہیں آج بھی دنیا اپنے عزائم کی تکمیل کے
لئے مشعلِ راہ تصورکرتی ہے اور اِنہی کے جذبوں کے سہارے آگے کی جانب بڑھتی
ہے،ہم پر لازم ہے کہ آج اگر ہم بھی اپنے یہاں کوئی انقلاب اور تبدیلی
لاناچاہتے ہیں تو اپنے اندرجرات وبہادری پیداکرتے ہوئے حق پرستوں کے
قائدالطاف حسین اور انقلابیوں اورتبدیلی کا نعرہ لگانے والے (عمران و
قادری) کا ساتھ دیناہوگاتب کہیں جاکرہم اپنے حقوق پر قبضہ کرنے والے
مفادپرست (دوجماعتوں کے )حکمرانوں، سیاستدانوں اور مُلکی دولت کو لوٹ کھانے
والے اشرافیہ اور چوہدریوں، وڈیروں اورجاگیرداروں سے چھٹکارہ پاسکیں گے
ورنہ نہیں۔
آج مجھے جس خبر نے اپنایہ کالم لکھنے پر متحرک کیا وہ امریکاکے شہر واشنگٹن
سے آنے والی یہ خبرہے کہ’’ امریکاکے ایک شہری جس کا نام ایوان شائڈرہے اور
جو پیشے کے لحاظ وکیل ہے، جس کی46سال پہلے چوری ہونے والی کارکوبازیاب
کرلیاگیاہے،خبر کے مطابق واقعہ کچھ یوں پیش آیاکہ ایوان شائڈرکی 1967کے
ماڈل کی کارکنورٹیبل جیکوارکویوایس کسٹمراینڈہارڈرپروٹیکشن ایجنٹس نے گارگو
کے ذریعے ہالینڈجاتے ہوئے بازیاب کرایا،جس کی تفصیل بتاتے ہوئے لوکوون نامی
ایجنٹ نے کہاکہ جب اِنہوں نے کارکی برآمدگی کے حوالے سے شائڈر کو فون کیا
تواُنہوں نے اُسے کوئی جعلسازی کا منصوبہ سمجھااور اِنہیں یقین ہی نہیں
آرہاتھاکہ یوں اِن کی ہر دل عزیزکار46سال بعد بھی اِنہیں مل جائے گی‘‘بظاہر
تو یہ خبر چندسطورپر مشتمل ہے،مگراِس خبرنے امریکااور اِس جیسے دنیاکے
بیشترممالک کے اداروں کی کارکردگی کا اظہارکردیاہے،اور دنیاکو بتادیاہے کہ
یہ تہذیب یافتہ اور اِنسان کو اِنسان اور کسی کے دُکھ کو دُکھ سمجھنے والے
لوگ ہیں، اگر لوکوون نامی ایجنٹ کار کے مالک ایوان شائڈر جس کی 46سال پہلے
کارچوری ہوگئی تھی،اِسے فون کرکے کارکی بازیابی کی اطلاع نہ بھی
دیتاتوکیاہوتا..؟ ایوان شائڈرتو پہلے ہی مایوس ہوچکاتھا،اور اپنی کار کو
بھول چکاتھا، مگرلوکوون نامی ایجنٹ نے اپنی ذمہ داری کا احساس کیااورکارکے
مالک کو اِس کی کارملنے سے متعلق مطلع کرکے اپنی ایک ایسی ذمہ داری اداکی
جو دنیاکو یہ احساس دلاتی رہے گی کہ اگردنیاکے ہر اِنسان اپنی ذمہ داریاں
ایمان داری اورخلوص اور بغیر کسی لالچ اور مک مکاکے نبھائیں تو 46سال بعد
بھی چوری ہونے والی ایک کارتو کیا46صدیوں بعدبھی چوری ہونے والی چیزیں
بازیاب کی جاسکتی ہیں،مگرافسوس ہے کہ ہمارے مملکت خدادادپاکستان میں اُوپر
سے نیچے تک شاید کو بھی اپنی ذمہ داریاں لوکوون نامی ایجنٹ کی طرح نبھانے
کو تیارنہیں ہے، ہمارے مُلک میں تو کوئی بھی بغیر مک مکا کے کچھ کرنا ہی
نہیں چاہتاہے،یہ تو46سال کی بات ہے،ہم تو 46سیکنڈ،46منٹ،46گھنٹے اور46دن
بعدبھی کوئی چیزبازیاب نہیں کراتے ہیں جب تک کہ ہماری یا ہمارے اُوپر والوں
کی مٹھی گرم نہیں کی جاتی ہے۔
اِس سے انکار نہیں ہے کہ ہم بھی اچھے نہیں بن سکتے ہیں مگر بات دراصل بس
یہی ہے کہ ہم خودبھی اُوپر سے نیچے تک اچھابنناہی نہیں چاہتے ہیں،اِس کی
تازہ مثال یہ ہے کہ جہاں میں رہتاہوں گزشتہ ایک ماہ سے میری گلی کے کچھ
گھروں میں پینے کے پانی میں گٹرکا پانی میکس ہوکرآرہاہے، یقین جانیئے کہ
مجھے اپنے علاقائی واٹراینڈ سیوریج بورڈکے دفاتر میں چکرلگاتے ہوئے پورے
ایک ماہ کا عرصہ گزرگیاہے مگرمسئلہ حل نہیں ہواہے ، جب میرامسئلہ واٹربورڈ
والوں کے سامنے پیش کیاگیاتواِن کا بس ایک یہی جواب تھاکہ آپ کی گلی کے کسی
گھر کی گٹرلائین پانی کی لائین سے مل گئی ہے جس کی وجہ سے یہ مسئلہ
پیداہواہے یہ مسئلہ ہمارانہیں ہے سیوریج والوں کا مسئلہ ہے جب آپ کے گٹرصاف
ہوں گے تو مسئلہ خود بخودختم ہوجائے گا،حدتو یہ ہے کہ میری گلی والوں نے
اپنی مددآپ کے تحت گلی کے گٹربھی صاف کرواکردیکھ لئے مگر پھر بھی مسئلہ حل
نہ ہواتودوبارہ واٹربورڈ والوں سے رابطہ کیاگیاتو اُنہوں نے کہاکہ گلی کے
گٹرصاف کروانے سے مسئلہ حل نہیں ہوگاجب تک کہ سارے علاقے کے گٹرصاف نہ کئے
جائیں تب تک یہ مسئلہ رہے گا ،تویہاں سوال یہ پیداہوتاہے کہ کیا سارے علاقے
کے گٹرصاف کرانے کی ذمہ داری عام شہریوں کی ہے...؟ یا محکمہ واٹراینڈسیوریج
والوں کا یہ فرض ہے کہ وہ عوامی مسائل حل کریں اور علاقے کے گٹرصاف کروائیں
خیر... جب سیوریج والوں سے رابطہ کیا گیاتو اِن کا بھی ٹکاسایہ جواب
تھابھائی...!! ہتھیلی پر سرسوں تو نہیں جمائی جاسکتی ہے دیکھ لیں گے ویسے
یہ مسئلہ واٹربورڈ والوں کا ہے،ہمارانہیں ہے ہمیں جب ٹائم ملاتو ہم گٹرصاف
کروادیں گے، جب تک گلی والے یہی پانی استعمال کریں،آج واٹربورڈ اینڈ سیوریج
بورڈ کے دفاتر کے چکرلگاتے ایک ماہ گزرگئے ہیں خداکی قسم کسی نے بھی پلٹ کر
خبر تک نہیں لی ہے ،اَب میں انتہائی مجبورہوکر اپنے اِس کالم کے ذریعے
حکومتِ سندھ،وزیراعلیٰ سندھ، گورنرسندھ، صوبائی وزیربلدیات ،لانڈھی کے ایم
این اے ،متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے حق پرست قائد الطاف حسین اور مُلک
میں انقلاب اور تبدیلی کے لئے نکلنے والے عمران خان اور طاہرالقادری
اوراٹراینڈ سیوریج بورڈ کے حکامِ بالا سے درخواست کرتاہوں تاکہ یہ تمام
حضرات میری گلی کے اِس مسئلے کے حل کے لئے کچھ کریں تو میری گلی کے لوگوں
کو پینے کا صاف پانی میسر ہو،جو ایک ماہ سے گٹرکے پانی کی آمیزش والاپانی
استعمال کرکے جلدی اور دیگربیماریوں کا شکارہورہے ہیں مگر واٹراینڈسیوریج
بورڈکا عملہ مسلسل ایک دوسرے پر ڈال کر ٹال مٹول سے کام لے رہاہے ، گلی
والوں کو گٹرکا پانی پینے پر مجبورکئے ہوئے ہے اَب سوچیں کہ جب میرے مُلک
کے ادارے کام ہی نہیں کرناچاہیں تو پھر ہم کیا عوامی خدمت کریں گے..؟ اور
کیا ترقی کریں گے..؟ اور کیسے کسی مذہب یا ترقی یافتہ قوم میں شامل
ہوکرترقی یافتہ کہلائیں گے...؟ |
|